ہر فن خواہ وہ علم ِ صرف و نحو ہو، علم ِ فصاحت و بلاغت ہو، علم ِ کلام ہو، فلسفہ ہو یا منطق کو ایک مسلم حیثیت حاصل ہے۔ چناں چہ جس طرح عربی عبارات کو سمجھنے اور حل کرنے کے لئے علم ِ صرف و نحو کے قواعد و ضوابط کا جاننا اور ان کی پابندی کرنا لازمی ہے علیٰ ہٰذا القیاس کسی چیز میں غور و فکر کرنااور اس سے نتائج اخذ کرنے میں غلطی سے بچنے کے لئے علم ِ منطق کے قواعد و ضوابط کا حصول اور انہیں ملحوظِ نظر رکھنا از انتہاء ضروری ہے۔ علم ِ منطق کا ربط خالص عقل اور عقلی دلائل سے ہے اور ظاہر ہے کہ ہر ہر آدمی نقل کی بجائے عقل میں آنے والی بات ہی کو ترجیح دیتا ہے۔ لہٰذا اس علم ِ غیر معمولی کا حصول ، اس پر تصرف حاصل کرنا اور اس سے استفادہ کرنا ہر صاحب ِ علم و فراست کے لئے ضروری ہے بلکہ کچھ علماء کے نزدیک واجب ہے کیوں کہ مشاہدہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ معقولات (علومِ عقلیہ) سے ناواقفین کے علوم میں وسعت تو پائی جاتی ہے لیکن ان کے لئے یہ بات قدرِ دشوار ہو جاتی ہے کہ کسی بھی علم کی تہہ میں جا کر کوئی نکتہ نکال لائیں۔
منطق کے لغوی معنیٰ گفتگو کرنا کے ہیں جب کہ اصطلاحی تعریف بہ الفاظِ ایں بیان کی گئی ہے:علم بقوانین تعصم مراعتھا الذھن عن الخطاء فی الفکر
یعنی ایسے قوانین کا جاننا جن کا لحاظ ذہن کو غور و فکر میں غلطی سے بچا لے۔ چوں کہ منطق نطق ِ ظاہری و باطنی میں نکھار اور سامانِ دلچسپی پیدا کرتا ہے بایں وجہ اسے منطق کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نطق ِ ظاہری یعنی تکلم سے مراد بمقابلۂ مردانِ دیگر بہتر انداز میں گفتگو کرنا ہے اور نطق ِ باطنی یعنی ادراک سے مراد اشیاء کی حقائق یعنی ان کی اجناس و فصول وغیرہ سے واقف ہونا ہے۔ اس علم کو بعض علماء علم ِ میزان سے بھی تعبیر کرتے ہیں کیوں کہ اس کے ذریعہ انسانی عقل صحیح و غلط تدبر میں موازنہ پیدا کر پاتی ہے۔ بعینہٖ اسے علم ِ آلہ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ علم دوسرے علوم کو پرکھنے اور سمجھنے کے لئے آلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ بہت سے لوگ منطق کی اہمیت و افادیت کو گھٹانے کے لئے من تمنطق تزندق (جس نے علم ِ منطق سیکھا وہ بد دین ہے) اور یجوز الاستنجاء باوراق منطق (اوراقِ منطق سے استنجاء جائز ہے) جیسی عبارات پیش کرتے ہیں جب کہ ان تمام اقوال و عبارات کی حیثیت فرمانِ مولائے رومؒ کے آگے ہیچ ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں؎
منطق و حکمت ز بہر اصطلاح
گر بخوانی اند کے باشد مباح
یعنی منطق و حکمت کا جاننا مباح ہے۔اس علم ِ مباح کے جائز و ملزوم ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مولانا اشرف علی تھانویؒ کی مشہورِ زمانہ تفسیرِ قرآن ’’بیان القرآن‘‘ کا ہر ہر لفظ، ہر ہر جملہ نیز ہر ہر عبارت منطقی رنگارنگی کا سامانِ انبساط فراہم کرتی ہے بلکہ موصوف بذاتِ خود ’’امورِ ملحوظہ فی التفسیر‘‘ کے تحت رقم طراز ہیں کہ’’تقریرِ مدلولِ آیات میں قواعد ِ میزانیہ منطقیہ کی پوری مراعات کی گئی ہے جس کا لطف اذکیاء اور علماء کے جی سے پوچھنا چاہئے۔‘‘
معلوم ہوا کہ فن ِ ہٰذا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ منطقی اصطلاحات کا استعمال تقریر و تحریر میں جاذبیت پیدا کرتا ہے اور اسبابِ دل آویزی فراہم کرتا ہے۔
مطالعۂ تاریخ سے یہ بات طشت ِ از بام ہو جاتی ہے کہ اس فن کو مدون کرنے کا سہرا ۳۸۴ قبل المسیح میں یونان کے شہر مقدونیہ میں آباد بستی تاجرہ میں پیدا ہوئے ارسطاطالیس المعروف ارسطو کے سر بندھا ہوا ہے۔ ارسطاطالیس حکیم افلاطون کا شاگرد تھا اور افلاطون خود سقراط کا جب کہ سقراط فیثاغورث کا اور فیثاغورث حضرت سلیمان ؑ کا شاگرد تھا۔ ارسطاطالیس (جسے ظاہر ہے اس فن کا معلم ِ اول ہونے کا درجہ حاصل ہے) نے جب اس علم کو مدون کیا تو یہ صرف یونان تک ہی محدود تھا البتہ امارتِ عباسیہ میں خلیفہ ہارون الرشید نے یونان سے اس فن کی کتب منگا کر محمد بن طرخان فارابی سے ان کا عربی ترجمہ کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ فارابی نے اس میں اپنی جانب سے کچھ اضافے کر دئے تھے جس کی وجہ سے اسے اس فن کا معلم ِ ثانی کہا جاتا ہے مگر شومیٔ قسمت کہ فارابی کی یہ کتب وقت کے تیز جھونکوں میں ضائع ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد فن ِ ہٰذا کے معلم ِ ثالث ابو علی ابن سینا نے از سرِ نو اس فن کو مدون کیا جب تک کہ یہ علم ِ لطیف امام رازیؒ اور امام غزالیؒ جیسے ائمہ کے دامن میں آن پہنچا۔
تاریخ کی شہادت سے یہ بات بھی آشکار ہو جاتی ہے کہ پہلی اور دوسری صدی ہجری تک مسلمانوں کا منطق کے مروجہ علم سے واسطہ نہیں پڑا تھا البتہ تیسری صدی ہجری میں جب آفتابِ دین ِ حق کی روشنی جزیرۂ عرب سے پھیل کر عجم کو روشن کر رہی تھی اس وقت مشرکین ِ یونان نے راہِ منطق سے اس دین ِ لازوال پر حملہ بول کر خالق ِ مکان و لامکان کے وجود پر اعتراضات کرنا شروع کر دئے تھے۔ اس وقت مدعیانِ عقل و دانش نے الحدید بالحدید یفلح یعنی لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے کی رو سے منطق کو سیکھنے اور ان مشرکین ِ یونان کو ان ہی کی بھاشا میں جواب دینے کی ضرورت محسوس کی۔ چناں چہ چھٹی صدی ہجری کے اواخر تک اس فن کی اہمیت و ضرورت کا مسلمانوں کو بخوبی اندازہ ہو گیا تھا۔
اس علم و فن کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امام غزالیؒ کے نزدیک یہ علم دیگر علوم کی پختگی کا معیار ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ
من لم یعرف المنطق فلا ثقۃ لہ فی العلوم اصلا
یعنی جو منطق نہیں جانتا اسے علوم میں بالکل پختگی حاصل نہیں ہوتی۔ امام رازیؒ کے بارے میں منقول ہے کہ کوئی بھی نصرانی ایسا نہ تھا جو آپ کو دیکھ کر یہ نہ کہتا ہو کہ اے زمانہ میں یکتا تیرے سامنے ہماری مجال نہیں کہ تثلیث کے قائل ہوں اور کوئی یہود بے بہبود ایسا نہ تھا جو سرِ تسلیم خم نہ کرتا اور یہ نہ کہتا کہ انا ھدنا الیک (میں آپ ہی کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں)۔
منطق کے معلم ِ اول ارسطاطالیس کا کہنا ہے کہ ’’اگرچہ منطق کوئی جداگانہ علم نہیں ہے لیکن اس کو تحصیل ِ علوم اور فصاحت و بلاغت اور سلاست ِ بیان کے واسطہ معاون اور بہت اچھا چلتا ہوا اوزار کہنا چاہئے۔‘‘اور معلم ِ ثالث ابو علی ابن سینا کا ماننا ہے کہالمنطق نعم العون علیٰ ادراک العلوم کلھایعنی منطق علوم فہمی میں بہترین معاون ہے جب کہ مولانا اشرف علی تھانویؒ رقم طراز ہیں کہ ـمنطق قوتِ فکریہ کو صحیح اور تیز کرنے والی چیز ہے۔ قوتِ فکریہ سے ہی دور بینی اور حقیقت رسی آتی ہے۔ مقولہ مشہور و مسلم ہے کہ سوچ میں پہنچ ہوتی ہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں کہ’’منطق سے فہم و فکر کی درستگی حاصل ہوتی ہے۔ اس سے حقائق شناسی آ جاتی ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ فن ِ ہٰذا سے ذکاوت، قوتِ تکلم، قوتِ فہم، افہام و تفہیم کا ملکہ اور علوم میں گہرائی و گیرائی میسر ہو جاتی ہے۔
اس مقام پر اس بات کا بھی واضح ہونا از حد ضروری ہے کہ منطق اگرچہ یونانی فلسفیوں کی وضع کردہ ہے جس کو انہوں نے اپنے فلسفی نظریات کے حصول میں خطاء فی الفکرسے حفاظت کے لئے مدون کیا تھا لیکن دیکھا گیا ہے کہ ان میں سے ہر منطقی کے قوانین الگ و علیحدہ تھے دوسرے سے۔ چناں چہ جب یہ خزینۂ بے بہا علمائے اسلام کے دامن ِ تقدیس میں آ گرا تو انہوں نے اس کے قواعد کو چھان پھٹک کر صاف ستھرا کر دیا اور منافیِ دین ِ مبین اور مخالف ِ شرعِ متین نیز تمام ایسی چیزوں کو اس سے نکال پھینکا۔ لہٰذا دورِ حاضر میں اس فن ِ لطیف کی جتنی بھی کتب پڑھی اور پڑھائی جاتی ہیں وہ سب کی سب علمائے اسلام کی مرتب شدہ ہیں اور ان میں ایسی کوئی بھی غیر معقول بات نہیں پائی جاتی ہے جو خلافِ شرع ہو یا جس سے کسی بھی باایمان کا ایمان ارتداد کی نذر ہو جائے۔
چناں چہ اسی لئے درسِ نظامی میں عقلی رنگا رنگی کے لئے اس نصاب کی اکثر کتابیں منطق آمیز رکھی گئی تھیں مگر افسوس پچھلے کئی برس سے بالعموم اور کچھ ماہ سے بالخصوص اس جانب بے اعتنائی و بے حسی بڑھتی ہی جا رہی ہے اگرچہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ منطق کی آمیزش سے درسِ نظامی کی کتابیں مشکل معلوم ہونے لگی ہیں لیکن یہ سب کچھ سوچ سمجھ اور جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔ منطق کی ناواقفیت کی وجہ سے آج یہ حال ہے کہ شرح جامی جیسی اہم کتاب نصاب سے نکال دی گئی جب کہ علامہ انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں کہ’’جو شرح جامی اور شرح تہذیب کو سمجھ لیتا ہے میں اس کی استعداد کا قائل ہو جاتا ہوں۔‘‘
مولانا سید صدیق احمد باندویؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے درسِ نظامی میں شامل معقولات کی تمام کتابیں پڑھ لینے اور دورہ سے فارغ ہونے کے بعد معقولات کی خصوصی تحصیل کے لئے باقاعدہ اسفار طے کر لئے اور کہا جاتا ہے کہ منطق کی اہم کتابیں ذوق و شوق سے پڑھنے کے قائل تھے جس کا ثبوت مولانا موصوف کی تصنیف ’’اسعاد الفہوم شرح سلم العلوم‘‘ ہے جو مختصر اور دال علیٰ المطلوب ہونے میں انفرادی عز و شان کی حامل ہے۔
المختصر درسِ نظامی سے منطق کو نکال دینے سے اس کا سارا ڈھانچہ تہس نہس ہو جائے گا بلکہ گذشتہ علمی اثاثہ جو منطقی اصطلاحات میں موجود ہے سے استفادہ کرنا مثل ِ ناممکن ہو جائے گا۔ مولانا مسیح اللہ خاں جلال آبادیؒ فرماتے ہیں کہ’’ اس زمانہ میں تو اور بھی تحقیق و تدقیق سے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ دشمنانِ اسلام اور اعدائے دین میں علم ِ سائنس کا بہت چرچا ہے۔ ان کے دماغ سائنسی اور مزاج فلسفی ہو گئے ہیں اور اعدائے دین سائنسی دلائل کے ساتھ بالمقابلہ آنے لگے ہیں۔‘‘
یعنی بالفاظِ دیگر اس دورِ پر فتن میں فن ِ منطق کو سیکھنے سکھانے کی گذشتہ چند دہائیوں کے بالمقابل کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
شاعر ِ مشرق و مغربؒ نے خوب کہا ہے کہ؎
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
رابطہ:شہر ِ خاص، سرینگر
91-9469366682