اس وقت پوری دنیامیں ترکی کے ڈرامہ ’’ارتغل‘‘ کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ یہ ڈرامہ نہیں خلافت عثمانیہ کی تاریخ ہے۔ اس وقت اس ڈرامے کو دنیا کے ساٹھ ممالک میں دیکھا جارہا ہے اور دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ ترکوں کے ایک قبیلہ کی شاخ ’’قائی‘‘ کا سردار سلیمان خان تھا جس کا بیٹا ’’ارطغرل‘‘ خلافت عثمانیہ کا مورث اعلیٰ تھا۔ ارطغرل کے فرزند عثمان خان نے1299 میں ’’سلطنت عثمانیہ ‘‘ کی بنیاد رکھی جو بعد میں ’’خلافت عثمانیہ ‘‘کے عنوان سے سوا چھ سو سال تک تین براعظموں کے مختلف خطوں پر حکومت کرتی رہی ۔ عالم اسلام کی یہ عظیم خلافت صدیوں تک مسلمانان عالم کی امیدوں کا مرکز بنی رہی۔31 اکتوبر1933ء کو اس کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا اور اس کے خاتمے اور اسکی منسوخی کی بد خبری دوسروں کی زبان سے نہیں خود ترکوں کی جانب سے دنیا کو سنائی گئی۔
خلافت عثمانیہ کا عروج تاریخ اسلام کا سنہری زمانہ اور اس کا زوال ملت اسلامیہ کے انتشارو افتراق کا آغاز تھا۔ ایک زمانے میں ترکوں کی فتوحات پر چراغاں کئے جاتے تھے اور جب انہیں کہیں شکست ہوتی تھی تو عالم اسلام کے مختلف گوشوں سے آہ و فغاں بلند ہوتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو قسطنطنیہ کی فتح کی جو خوشخبری سنائی تھی وہ 28 مئی 1553 کو اسی قوم کے ہاتھوں پوری ہوئی تھی۔ بیسویں صدی کے شروع میں ترکوں ہی کی حمایت میں ہندوستان میں تحریک خلافت چلی جس سے برصغیر کے مسلمان ترکوں اور ترکوں کی اسلامی خدمات سے روشناس ہوگئے۔ نامور علماء میں مولانا شبلی نعمانی ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ابو الکلام آزاد وغیرہ کو تحریک خلافت سے قبل ہی ترکوں سے عقیدت اور ہمدردی تھی۔ مولانا شبلی نے 1914ء میں وفات پائی۔ مولانا جوہر اور مولانا آزاد تحریک خلافت کے روح رواں تھے۔
خلافت عثمانیہ کو عالم اسلام کے جو بڑے بڑے شعراء عظمت کی نشانی سمجھتے تھے، ان میں عالم عرب کے نامور شاعر احمد شوقی اور برصغیر کے علامہ محمد اقبال پیش پیش تھے۔ علامہ نے 21 اپریل 1938ء کو وفات پائی۔
علامہ اقبال9 نومبر 1977ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترک زوال سے گزر رہے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے زیر نگین علاقے ایک ایک کرکے الگ ہورہے تھے۔ 1912کی بلقان جنگ نے ترکوں کو جس شکست سے دوچار کردیا تھا ،اس نے پورے عالم اسلام میں رنج و غم کی لہردوڑائی تھی ۔ ان حالات نے علامہ اقبال کو بھی متاثر کیا چنانچہ ان کے کلام کا بہترین حصہ ترکوں اور عالم اسلام کے دوسرے خطوں کے حالات سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے اور یہی حصہ سوز و گداز سے لبریز بھی ہے۔
1911ء میں ترکوں کی زبوں حالی سے فائدہ اٹھاکر اٹلی نے طرابلس پر حملہ کردیا۔ اس جنگ میں شیخ سنوسی کی قیادت میں عرب قبائل نے ترکوں کی حمایت میں اٹلی کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ 1912ء میں ایک عرب لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ مجاہدین کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی۔ اس کی شہادت کی خبر جب ہندوستان پہنچی تو علامہ نے فاطمہ بنت عبداللہ کے نام سے ایک مرثیہ لکھا جس کا پہلا بند یہ ہے۔
فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعاد ت حور صحرائی تیری قسمت میں تھی
غازیانِ دین کی سقائی تیری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفرین شوق شہادت کس قدر
یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منطرمیں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میںتھی
اپنے صحرا میں بہت آہوابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں
علامہ اقبال ترکوں سے محبت رکھتے تھے۔ انہیں اس قوم کی بہادری ، جفاکشی اور جواںمردی پسند تھی۔ انہوں نے اپنے کلام میں ترکوں کی اصول پرستی کی مثال میں ’’محاصرہ ادرنہ‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ادرنہ (ایڈربانوبل) کے قلعہ میں ترک سپہ سالار شکری پاشا اپنی فوج کے ساتھ محصور ہوگیا۔ دشمنوں نے قلعہ کا محاصرہ کیا۔ تو شکری پاشا نے سامان رسد نہ ہونے کی بنا پر جنگی قانون کا اعلان کردیا جس کی رو سے فوج اب ذمی عیسائی رعایا سے خوراک لینے کی مجاز ہوگئی۔ چنانچہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سامان خوردنوش پر ترکی فوج کا قبضہ ہوگیا مگر شہر کے مفتی نے جب یہ بات سنی تو اس نے فتویٰ جاری کیا کہ یہودی اور عیسائی ہمارے ذمی ہیں ۔ ان کا مال ازروئے شریعت مسلمان فوجیوں پر حرام ہے۔ اس فتویٰ کا اثر یہ ہوا کہ مسلمان فوجوں نے یہودیوں اور عیسائیوںکا سارا مال و اسباب واپس کردیا۔ علامہ نے نو اشعار پر مشتمل نظم لکھی جس میں مفتی اعظم کے فتویٰ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے۔
ذمی کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام
فتویٰ تمام شہر میں مشہور ہوگیا
چھوتی نہ تھی یہود و نصاریٰ کا مال فوج
مسلم خدا کے حکم سے مجبور ہوگیا
ترکوں کی تاریخ میں شریعت کی پاسداری ، دینی محبت ، ایفائے عہد ، رواداری کے صدع واقعات ہیں جن سے اس قوم کی بلند سیرتی کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم(1914ء تا 1919ء ) کے خاتمے کے بعد انگریز خلافت عثمانیہ کے خاتمے کیلئے تیزی سے کام کرنے لگے۔ حالانکہ ہندوستان میں انگریزوں نے جنگ عظیم کے دوران مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ خلافت کا خاتمہ نہیں ہوگا مگر جب انگریزوں کی سازش کی خبریں آنے لگیں تو دسمبر 1919ء کے خلافت کانفرنس کے اجلاس میں فیصلہ لیا گیا کہ جنوری 1920ء میں ایک وفد انگلینڈ بھیجا جائے جو مسلمانوں کے اس مطالبہ سے وہاں کے حکمرانوں کوآگاہ کرے کہ خلافت کو منسوخ نہ کیا جائے۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے ’’دریوزہ خلافت‘‘ تحریر کی ۔
اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے، جائے
تو احکام حق سے نہ کر بے وفائی
نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا
خلافت کی کرنے لگا تو گدائی
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلمان کو ہے ننگ وہ پادشاہی
مرا ازشکستن چناں عار نائد
کہ از دیگراں خواستن مومیائی
ترکی کو یورپ کا مردِ بیمار کہا جاتا تھا۔ یہ نام اسے یورپ والوں نے دیا تھا جو ہمیشہ خلافت عثمانیہ سے خائف رہتے تھے ۔ ترکوں کے خلاف جب غدار شریف حسین نے انگریزوں کا ساتھ دیا تو انگریزوں نے ترکوں سے شام ، لبنان ، فلسطین اور موصل تک کا علاقہ چھین لیا۔ اگست 1917ء پیر س میں اتحادی ممالک کی کانفرنس ہوئی جس میں طے پایا کہ آرمینیہ ،مشرقی انا طولیہ ، آستانہ اور درہ دانیال روس کو دیا جائے گا۔ جنوبی البانیہ ، تھریس اور قسطنطنیہ یونانیوں نے مانگا۔ 15 جون 1918ء کو یونانیوں نے سمرنا کی بندرگاہ پر قبضہ کیا ۔نومبر1918ء میں اتحادی فوجوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کیا۔ جون 1919ء میں پیرس میں کانفرجس ہوئی جس میں دس ملکوں نے شرکت کی ۔ ترکوں نے نمائندہ بھیج کر صلح کی کوشش کی لیکن اتحادیوں نے ایک نہ سنی ،16مارچ 1920ء کو اتحادیوں نے قسطنطنیہ کی حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ بلقانی مقبوضات پہلے ہی چھن چکی تھیں۔ افریقہ میں مغربی اقوام نے تمام علاقے ترکوں سے ہتھیالئے تھے۔ دارالخلافہ قسطنطنیہ پر اتحادیوں نے قبضہ کرکے فرید پاشا کی سربراہی میں کٹھ پتلی حکومت قائم کی اور10 اگست1920ء کو سلطان سے ایک دستاویز پر دستخط لئے گئے جس میں کہا گیا تھا کہ ترکی اب آزاد ملک نہیں ہے، اسے فوج کی نہیں صرف 15ہزار فوج کی ضرورت ہے ۔ اتحادیوں نے پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا اور86 ترک رہنمائوں کو مالٹا میں نظر بند کرکے ترکی کی سلطنت ختم کردی۔ان حالات سے متاثر ہوکر علامہ اقبال نے ’’خضرراہ‘‘ لکھی جو ان کی بہترین نظموں میں شمار ہوتی ہے جس شریف حسین کی غداری اور ترکوں کی قربانیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
بیجتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفیٰؐ
خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمانی سخت کوش
اسی بہترین نظم کا یہ شعر بہت مشہور ہا۔
آگ ہے اولاد ابراہیم ہے ، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے
یونانیوں نے سمر نا پر قبضہ کرکے ترکوں کا قتل عام کیا۔ انہوں نے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے۔ یہ حالات دیکھ کر مشرقی اناطولیہ کے مسلمان خود یونانیوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ مناسترس جو فوجی کالج تھا، وہاں کے طلبہ نے بھی یونانیوں کے خلاف مورچہ سنبھالا۔ اس دوران قومی اسمبلی کے ارکان نے اعلان کیا کہ سلطان سے جو معاہدہ ہوا ہے، اس میں ترکی قوم کی رضا مندی شامل نہیں ہے۔ چونکہ اتحادیوں نے خلیفہ پر دبائو ڈال کر قومی رہنمائوٗں سے تمام فوجی اختیارات اور شہری حقوق سلب کروائے تھے۔ اسلئے انہوں نے اعلان کردیا کہ انہیں آستانہ کی حکومت تسلیم نہیں ہے۔ اگرچہ شیخ الاسلام نے بھی ان کے خلاف فتویٰ دیا تھا مگر ترکوں میں قوم پرست رہنما مقبول ہورہے تھے۔1921میںعصمت پاشا نے اینونو کے مقام پر یونانیوں کو شکست دی۔24 اگست کو یونانی سقا ریہ میں ترکوں سے ہار گئے۔ یونانی فوجوں کی تعداد تین لاکھ تھی۔ ترکوں کے پاس ہتھیاروں اور ساز و سامان کی کمی تھی۔ انہوں نے1921ء کے جاڑے میں تیاری کی ۔26 جوالائی1922ء کو ترکوں نے جنگ کا آغاز کیا۔ 30 اگست کو یونانیوں کو ازہر اور بروصہ میں شکست ہوئی۔ 8ستمبر1922ء کو سمرنا پر ترکوں کا قبضہ ہوگیا۔ تین لاکھ یونانی فوجیوں میں بہت کم بچ گئے۔ اکثر سمندر میں غرق ہوگئے یا قتل ہوگئے ۔ ترکوں کو بے شمار مال غنیمت ہاتھ لگا۔ترکوں کی فتح سے یورپ میں صف ماتم بجھ گئی۔ اتحادیوں نے اب ترکوں سے صلح کرنے کی کوشش کی ،چنانچہ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ قسطنطنیہ سے نکلیں گے۔ 24جولائی1933ء صلح نامہ پر دستخط ہوئے ۔ ترکوں کو انا طولیہ کا سارا علاقہ ، مشرقی تھربس اور ادرنہ بھی واپس دیا گیا، نیز یورپی علاقے کا اچھا حصہ بھی ترکوں کو واپس ملا ۔ قسطنطنیہ سے اتحاد ی نکل گئے۔
سمر نا کی فتح پر پورے عالم اسلام میں خوشی منائی گئی ۔ مسجدوں میں چراغاں کیا گیا ۔شعراء نے اس پر نظمیں لکھیں۔ علامہ اقبال کی شاندار نظم (طلوع اسلام ) اسی فتح کے موقع پر لکھی گئی ہے جس کا ہر بندمضمون آفرینی اور رمز و کنایہ کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ یہ اردو ادب کی شاہکار نظم ہے۔اس نظم کے ایک بند کے ساتھ آپ سے رخصت چاہتا ہوں۔
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے
��������
رابطہ : حدی پورہ رفیع آباد، بارہمولہ
موبائل نمبر: 9797944035