علاقائی پارٹیاں۔ ملک کی سیاست بدل سکتی ہیں؟

    ہندوستان میں قومی پارٹیوں کے اثر و نفوذ کے کم ہونے والے رُجحان سے یہ سوال اُبھر رہا ہے کہ کیا ایک مر تبہ پھر ملک کی علاقائی پارٹیاں ملک کی سیاست میں کوئی اہم رول ادا کرنے کے موقف پر آ گئی ہیں۔ ریاستِ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے۔ چندر شیکھر راؤ کے دورۂ ممبئی نے سیاسی حلقوں میں کافی ہلچل پیدا کردی ہے۔ حالیہ دنوں ،کے سی آر نے مہاراشٹرا کے دارلحکومت کا دورہ کر تے ہوئے مہاراشٹرا کے چیف منسٹر ادھو ٹھاکرے سے ملکی سیاست پر نہ صرف بات چیت کی بلکہ دونوں وزرائے اعلیٰ نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ دونوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ملک میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی کی ضرورت ہے، اور تبدیلی کا یہ عمل علاقائی پارٹیوں کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ تلنگانہ کے وزیراعلیٰ نے ادھو ٹھاکرے کے علاوہ ملکی سیاست کے نامور مراٹھا لیڈر شرد پوار سے بھی، اُن کے گھر جا کر ملاقات کر کے اپنے عزائم کا اظہار کیا۔ شردپوار نے بھی کے سی آر کے ساتھ آگے بڑھنے کا اشارہ دیا ہے۔ مغربی بنگال کی چیف منسٹر اور ترنمول کانگریس کی صدر ممتا بنرجی اور ڈی ایم صدر و چیف منسٹر تامل ناڈو اسٹالن بھی کے سی آر کا ساتھ نبھانے کے لئے تیار ہیں۔ علاقائی پارٹیوں کی ناراضگی کا اصل سبب یہ ہے کہ مرکز کی موجودہ حکومت غیر بی جے پی ریاستی حکومتوں کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کی ہوئی ہے۔ ان ریاستوں کو ملک کے بجٹ میں جتنا حصہ ملنا چاہئے وہ انہیں مودی حکومت نہیں دے رہی ہے۔ اُن کو ان کے واجبی حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ ملک کے بڑے بڑے پروجیکٹ جہاں بی جے پی بر سرِ اقتدار ہے وہاں دئے جا رہے ہیں ۔ مرکزی حکومت کے اس سوتیلاپن نے ریاستی حکومتوں کے سر براہوں کو اس حد تک مایوس کر دیا کہ وہ یہ سمجھنے لگے کہ اب مرکزی حکومت سے ٹکرانا ضروری ہے ورنہ ملک میں ایک پارٹی کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے۔ چندر شیکھر راؤ نے گزشتہ چند دنوں سے مرکز کے خلاف جو جارحانہ انداز اختیار کیا ہوا ہے، اُس سے اس بات کا  اشارہ ملنے لگا تھا کہ وہ اب خاموش بیٹھنے والے نہیں ہیں۔ وہ ایک جہاندیدہ سیاست دان ہیں، اسی لئے انہوں نے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے مرکزی سرکار کے خلاف ایک محاذ کھولنے کی تیاری کرلی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ صرف ایک علاقائی پارٹی ملک سے بی جے پی کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، اس کے لئے ایک مشترکہ حکمتِ عملی ضرورت ہے۔ اپنے اسی ایجنڈے کے مطابق وہ علاقائی پارٹیوں کو یک جُٹ کرنے میں لگے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اُن کے بقول اب ملک میں ایک پارٹی کی حکومت کا دور ختم ہوگیا ہے۔ آزادی کے چالیس سال تک کانگریس نے بِلا شرکت غیرے ملک پر حکمرانی کی۔ وہ ملک کے سیاہ وسفید کی مالک بنی رہی۔ لیکن آج کانگریس جس سیاسی بن باس سے گزر رہی ہے، اُس کا اندازہ شاید کانگریس کے قائدین کو بھی نہیں تھا۔ ملک کی سب قدیم پارٹی اب چند ریاستوں تک سُکڑ کر رہ گئی ہےاور اس بات کے بھی آثار نہیں دکھائی دیتے کہ کانگریس اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکے گی۔ الیکشن کے موقع پر بلند بانگ دعوے کرنا اور رائے دہندوں کو ہتھیلی میں جنت بتانے کی روش نے کانگریس پر سے عوام کا اعتماد ختم کر دیا ہے۔ اقتدار کا سرچشمہ سمجھی جانے والے کانگریس اب دوسری پارٹیوں کے سہارے اپنی سیاسی بقاء کی جنگ لڑرہی ہے۔ ایسے میں کانگریس کی قیادت میں بی جے پی کو شکست دینا ایک دشوار ترین عمل ہے۔ کانگریس کی غلطیوں نے ہی ملک میں فرقہ پرستی کو بڑھنے کا موقع دیا۔ اس لئے اب ملک کی سیکولر پارٹیاں کانگریس کی قیادت کو تسلیم نہیں کرتیں۔
 
     موجودہ صور تِ حال میں بی جے پی قومی سطح پر کانگریس کا متبادل بن کر سامنے آ رہی ہے۔ بی جے پی نے یہ نعرہ بھی دیا تھا کہ وہ ملک کو کانگریس سے "مکت"کردے گی۔ بی جے پی نے گز شتہ دو الیکشن میں کا میابی کے بعد ملک کو جس بحران سے دوچار کردیا، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اپنے منافرانہ ایجنڈے کو روبہ عمل لانے کے لئے اُس نے ملک کے سیکولر تانے بانے کی دھجیاں اُ ڑادی ہیں۔ اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے سماج کو منقسم کے رکھ دیا ہے۔ ’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس ‘‘کا ڈھنڈورا پِیٹ کر سرمایہ داروں کی جیبیںبھر گئیں اور غریب کا پیٹ، پِیٹھ سے لگ گیا۔ آج مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ عوام میں قوتِ خرید ختم ہو گئی ہے۔ نوجوان روزگار سے محروم ہوگئے۔ لیکن ملک کے وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان ’’وشنو گرو‘‘بن رہا ہے۔ سات سال کی حکمرانی میں مودی حکومت نے بہت سارے وعدے کئے لیکن کوئی وعدہ وفا نہیں ہوا۔ ملک کا سیاسی منظر نامہ جس تیزی کے ساتھ تغیرات سے گزر رہا ہے ، اس میں ایک تیسرے فریق کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ کانگریس ، طویل عرصہ تک بر سرِ اقتدار رہتے ہوئے عوام کی امیدوں پر پوری نہیں اُ تر سکی۔ بی جے پی پر رائے دہندوں نے اندھا اعتماد کرتے ہوئے دو مرتبہ دہلی کے سنگھا سن پر بٹھایا لیکن وہ عوام کی اس غیر معمولی چاہت کی قدر کرنے میں ناکام ثابت ہو ئی ہے۔ جو حکومت اپنے ہی کسانوں کی بات سننے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے تیار نہ ہو ،وہ کسانوں کا بھروسہ کیسے جِیت سکتی ہے۔ جو حکومت ملک کے ایک مخصوص طبقہ کو سی اے اے کا قانون لاکر ملک بدر کرنے کی تیاری کرے، وہ کیسے ان طبقوں کا وشواس حاصل کرنے کے بارے میں سوچ سکتی ہے۔ جس ملک میں خواتین کی عزت و عفت کو پامال کرنے کے قوانین بنائے جاتے ہوں ،وہاں کیسے یہ کہا جا سکتا کہ حکومت کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ اگر یہ ملک اس قسم کے منفی رجحانات کے زیر تسلط رہے گا تو آنے والے دنوں میں ملک کی جمہوریت اور اس کے سیکولرازم کو بھی مزید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ اسی لئے علاقائی پارٹیوں کو اس بات کا کا احساس ہونے لگا ہے کہ ملک میں ایک نئے سیاسی سفر کی بنیاد ڈالنے کی ضروت ہے،جس کے لئے پورے ملک میں بدلاؤ کی ایک لہر پیدا کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ اگر آنے والے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو کا میابی ملتی ہے اور وہ اپنے طور پر حکومت بنانے کے موقف میں آ جاتی ہے تو پھر آئندہ پانچ سال میں یہ ملک کہاں سے کہاں تک چلا جائے گا، یہ بات بتا نامشکل ہے۔ علاقائی پارٹیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں ملک میں ترقی، امن اور یکجہتی ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ اس وقت کے سی آر نے بی جے پی کے ساتھ جو معرکہ آرائی شروع کر دی ہے، اس کا کیا حتمی نتیجہ نکلنے والا ہے، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ لیکن ایک تیسرے محاذ کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تیسرا محاذ کس نوعیت کا ہوگا ،اس پر بحث کی گنجائش ہے۔ بہت ساری سیکولر پارٹیاں بی جے پی کے ساتھ مل کر اقتدار کے مزے لوٹتی رہیں۔ آج مہاراشٹر میں شیو سینا، بی جے پی کی کٹّر حریف بنی ہوئی ہے۔ لیکن برسوں تک ان دو پارٹیوں کے درمیان زبردست ہنی مون چلتا رہا۔ اسی طرح کا معاملہ دوسری پارٹیوں کا رہا۔ اس لئے کسی جذباتی مسئلہ کو لے کر کوئی محاذ بنایا  جائے تو اس کی پائداری غیر یقینی ہوگی۔ کے سی آر بجٹ میں اپنا مستحقہ حصہ نہ ملنے سے ناراض ہوکر بی جے پی کو لتھاڑ رہے ہیں۔ لیکن بجٹ میں حصہ داری کے علاوہ دیگر مسائل پر بھی بی جے پی کو دیکھنا لازمی ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ اس کا ناروا سلوک، کسانوں کے ساتھ نا انصافی، نوجوانوں کو روزگار کا نہ دینا وغیرہ ایسے ایشوز ہیں جس پر اُسے گھیرا جا سکتا ہے۔ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے، جہاں ایک طرف بی جے پی اپنے روایتی ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے اور دوسری طرف علاقائی پارٹیاں سیکولرازم کی علمبردار ہیں۔  
     ملک کی بساطِ سیاست پر پانچ ریاستی اسمبلیوں اور خاص طور پر اترپردیش اسمبلی الیکشن کے نتائج خاصااثر ڈال سکتے ہیں۔ یوپی میں دوبارہ اقتدار پر آنے کے لئے بی جے پی جو سیاسی حربے استعمال کر رہی ہے اس سے یہ اندازہ ہو رہا کہ وہ پوری قوت کے ساتھ اس انتخابی جنگ کو لڑ رہی ہے۔ یوپی میں کامیابی کے لئے اس قدر جدوجہد اس لئے کی جارہی ہے کہ آئندہ دہلی میں سرکار بنانا ہے۔ یوپی اسمبلی کے نتائج طے کردیں گے کہ 2024کے عام انتخابات میں کون کا میاب ہونے والا ہے۔اگر یوپی میں سماجوادی پارٹی کی حکومت بنتی ہے تو بی جے پی کے حو صلے پست ہو سکتے ہیں ۔ لیکن اگر پھر سے یوگی آ دتیہ ناتھ چیف منسٹر کی گّدی پر بیٹھ جا تے ہیں تو پھر ملک میں علاقائی پارٹیوں کا دبدبہ باقی رہنا مشکل ہوجائے گا۔ ملک کی سیاست کو ایک نیا رخ دینے کے لئے یوپی میں بی جے پی کی ہارکو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی ملک میں امید افزاء ماحول کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ کے سی آر جس انداز کی سیاسی صف بندی کرنے جا رہے ہیں اس میں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ آیا جو سیکولر پارٹیاں ، بی جے پی کی حلیف ہیں انہیں آئندہ الیکشن سے پہلے بی جے پی کے خیمہ میں سے نکالا جا سکتا ہے۔ بہار میں نتیش کمار ، بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت کر رہے ہیں۔ لیکن بہت سارے معاملات میں ان کا بی جے پی سے اختلاف ہے۔ اسی طرح اڑیسہ میں نوین پٹنائک ایک سیکولر لیڈر کی شبیہ رکھتے ہیں لیکن بی جے پی کے حلیف ہیں۔ آیا کے سی آر ایسے لیڈروں سے بھی گفت و شنید کر کے انہیں بی جے پی کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور کر یں گے؟ ملک کی دونوں کیمونسٹ پارٹیاں ، ایک زمانے میں ملک کی سیاست میں بادشاہ گر کا موقف رکھتی تھیں۔ لیکن موجودہ حالات میں یہ پارٹیاں عوام کی توقعات کو پورا کر تی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ مغربی بنگال میں کم و بیش پیتیس سال اقتدار پر رہنے کے باوجود اب سی پی آئی (ایم ) عوام کے لئے ایک اجنبی پارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ کیا کیمونسٹ پارٹی کے نظریات بدل گئے یا وہ اب قابل قبول نہیں رہے۔ علاقائی پارٹیوں کا کوئی محاذ تشکیل پاتا ہے تو کمیونسٹ پارٹیوں کا موقف کیا ہوگا۔کچھ حلقوں سے یہ بات بھی آ رہی ہے کہ کانگریس اگر چہ کمزور ہو چکی ہے۔ ملک کے کسی بھی الیکشن میں وہ تنہا بی جے پی کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملکی سیاست سے کانگریس کو بیدخل نہیں کیا جا سکتا۔ بی جے پی نے اپنے سیاسی مقاصد کے خاطر ملک کو کانگریس سے مکت کرنے کی بات کی ہے۔ لیکن کانگریس کے قصہ پارینہ بن جانے سے ملک اور قوم کا نقصان ہو سکتا ہے۔ کانگریس قیادت کو چاہئے کہ وہ اپنا محاسبہ کر ے۔ سابق میں جو غلطیاں ہو گئیں ہیں اس کا پھر سے اعادہ نہ ہو۔ کانگریس کے سنیئر قائدین ہائی کمان سے جن باتوں سے اختلاف کرتے ہیں ،اسے بات چیت کے ذریعہ حل کیا جائے اور سب سے اہم بات یہ کہ کانگریس اپنا دوہرا پن چھوڑ دے۔ خاص طور پر سیکولرازم کے بارے میں وہ اٹل موقف اختیار کرے۔ نرم ہندتوا کی پالیسی نے کانگریس کی یہ درگت بنادی ہے۔ بی جے پی کا ڈر بتا کر اقلیتوں کے ووٹ لینا کانگریس کا وطیرہ رہا ہے۔ اگر کانگریس ان تمام حرکتوں سے باز آجائے تو علاقائی پارٹیوں کے بڑھتے اثرو نفوذ میں وہ بھی اپنا ایک کلیدی رول ادا کرسکتی ہے۔ مختصر یہ کہ ملک سے فرقہ پرستی کے عفریت کو ختم کر نے ، ملک میں حقیقی وفاقیت کو قائم کرنے اور علاقائی مسائل کے فوری حل کے لئے سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئے۔ اس لئے ملک کو ایک نئے سیاسی متبادل کی ضرورت ہے۔ علاقائی پارٹیاں اگر اس خلا کو پورا کرنے میں کا میاب ہوجا تی ہیں اور ایک ایسا محاذ تشکیل پاتا ہے جو عوام کی امنگوں اور خواہشات کا حقیقی ترجمان ہو۔ علاقائی پارٹیوں کی نئی سیاسی صف بندی ایک سیکولر اور جمہوری حکومت کے قیام کا باعث بن سکتی ہے اور عوام کو سکون و اطمینان کی زندگی ملتی ہے تو ایک نیک فال ثابت ہوگا۔
(رابطہ۔9885210770)