حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض کیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث، تفسیر و فقہ کی تعلیم جس طرح مردوں کے لیے فرض کفایہ ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی ہے۔علم دین کے حصول میں کسی بھی قسم کی خصوصیت اور امتیاز کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی طرح کا استثنیٰ برتا گیا۔ہمارے یہاں جگہ جگہ لڑکوں کو علم دین سکھانے اور مفسر و محدث بنانے کے لیے بڑی بڑی درسگاہیں اور دارالعلوم قائم کئے گئے ہیں۔ انوار الٰہی سے معمور اور منور ہونے کے لیے علماء کرام کی صحبت اور مجالس موجود ہیں، نیز مطالعہ اور معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے بہت سی لائبریریاں قائم ہیں۔ مختصر یہ کہ مردوں کے لیے سب کچھ ہے جہاں وہ خود کو پہچانیں اور اپنی زندگی کو خدا اوراْس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ڈھالیں اور دین کے تقاضوں کو سمجھیں۔ اس لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے اپنی استعداد اور صلاحیتوں کو اْبھارنے کے لیے ہر سہولتیں اور مواقع حاصل ہیں۔ لیکن طبقہ نسواں کے لیے ایسی سہولتیں مہیا نہیں ہیں۔ جہاں ان کی دینی، علمی اور روحانی ترقی ہوسکے ،جس کی وہ بھی حقدار ہیں اور جوابدہ اور ذمہ دار بھی۔ خواتین ہماری آبادی کا آدھا حصہ ہیں اور قدرت نے اْن کو بھی ذہن و صلاحیت ، حرکت و زندگی، دینی اور روحانی ترقی کے جوہر اور صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ ماں کی گود ہی وہ مکتب اول ہے، جہاں ہر انسان کو اولین نشوونما ہوتی ہے اس کی شخصیت و کردارکو نکھارا جاسکتا ہے۔ یہاں ذہن و دماغ کو جو موڑ دیا جاتا ہے، وہ آدمی کی زندگی پر ہمیشہ حاوی رہتا ہے۔ تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ ملت کے عظیم افراد جن پر آج ہم کو فخر ہے عظیم ماؤں کی گود کی پرورش یافتہ ہیں۔ لیکن بدقسمتی کہیے یا اس اْمت پر غیروں کی لگی ہوئی نظر بد سمجھئے کہ آج وہ مائیں دنیا میں مفقود ہیں۔ آج ہمارے پاس جو مائیں ہیں ،اُ ن میں بیشتر مائیں حقیقت میں مائیں کہلانے کی مستحق ہی نہیں۔بلکہ ماں کہلانے کے مستحق اگر ہیں تو وہ ہیں ہمارے سلف صالحین کی مائیں ،جن کی پرورش سے اْمت مسلمہ کو ایسے افراد میسر ہوئے جنہوں نے اپنے علم و فن اور تعلیم اور تربیت سے اْمت کو بام عروج پر گامزن کیا۔
ماں کہنے کی مستحق اگر ہے تو وہ معین الدین چستی اجمیری ؒکی ماں۔ یہ اور اْن جیسے بے شمار بزرگ ہستیاں، جنہوں نے ولی اللہ کا شرف پایا۔ اْن تمام اولیاء کرام کی بزرگی اور کامیابی کے پیچھے اگر کوئیہاتھ ہے ،تو وہ ایک ماں کا ہے۔ حضرت معین الدین اجمیریؒ نے بنگال کا سفر کیا۔ دوران سفر اجمیری ؒکا چہرہ دیکھ کر بے شمار ہندوؤں نے اسلام قبول کیا اور لاتعداد گنہگار مسلمانوں نے آپؒ کے ہاتھ پر بیعت اور توبہ کی۔ جب گھر تشریف لائے تو چہرہ پر خوشی کے آثار تھے۔ ماں نے پوچھا: بیٹا! آج بہت خوش نظر آرہے ہو؟کہنے لگے کہ اماں جان، آج بے شمار غیر مسلم دولت اسلام سے مالا مال ہوئے اور لاتعداد مسلمانوں نے اپنے گناہوں پر نادم ہوکر بیعت و توبہ کی۔ اس لیے خوش ہوں۔ صالح ماں نے کیا خوب جواب دیا، جو سننے کے لائق اور ہمارے لیے قابل نصیحت ہے۔ وہ جواب یہ تھا ’’بیٹا! یہ تیرا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ میری محنت کا پھل ہے‘‘۔ اجمیری نے کہا وہ کیسے؟ ماں نے کہا بیٹا، جب میں نے تمہیں جنم دیا، اْس وقت سے لے کر دودھ چھوڑنے تک ،خواہ رات ہو یا د ن، میں نے کبھی بھی تمہیں بلا وضو دودھ نہیں پلایا۔ آج یہ اْس کی برکت ہے۔ آپ کے ہاتھوں پر لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔اب اگر آج کی ماں پر نظر ڈالیںتو وہ اپنے بچے کو باوضو دودھ پلانے کی بات تو دورہے، خدا کا نام لینا بھی بھول جاتی ہے۔ کئی مائوں کوبسم اللہ شریف تک یاد نہیں بلکہ افسوس صد افسوس !آج کی مائیں فلمی گانیں گا گاکر اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ رنگین ٹیلی ویژن پر پروگرام دیکھ دیکھ کر اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ پھر جب بچہ بلوغیت کے مقام کو پہنچ جاتا ہے، تو والدین کے سر پر جوتے مارتے ہیں حالانکہ غلطی بیٹے کی نہیں ہوتی ہے کیونکہ ان کی پرورش اور تعلیم وتربیت کے دوران بھی ماؤوں کا بھی غلط رول ہوتا ہے۔غرض اوراقِ تاریخ جب ہم پلٹتے ہیں تو ماضی کے اولیائے کرام ، مجاہدین اسلام، بزرگان دین اور علمائے کرام کی کامیابی کے پیچھے ایک ماں کا کردار ہی نمایاں نظر آتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج ہم ایسی ماؤں سے محروم ہیں، لہٰذا ایسی ماؤں کا ملنا ناممکن تو نہیں ہے البتہ دشوار ضرور ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر ہماری یہی کوشش ہونی چاہیے کہ اپنی لڑکیوںکو زیادہ سے زیادہ دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں۔ مغربیت اور لادینیت کے سیلاب میں بہہ جانے سے بچایا جائے ،تب جاکر ایسی مائیں وجود میں آسکتی ہیں۔ بدقسمتی سے عام عورتوں میں یہ تاثر دیکھا گیا ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ درجہ ولایت کا پانا ،تحصیل علم کی دوڑ میں دوڑنا، اپنے علمی معیار کو بنانا اور بڑھانا صرف مردوں کا کام ہے۔ عورتیں تو فقط اپنی گھر گرہستی کے کام کاج میں مصروف رہے ،بس یہی اْن کی زندگی ہے۔ مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس اْمت کی خواتین نے دینی میدان میں بھی اور جہادی میدان میں بھی کمال حاصل کیا۔ ولایت کے درجے پانے، قرب خداوندی حاصل کرنے اور اْس کی معرفت و رضا حاصل کرنے میں وہ مردوں سے پیچھے نہ رہیں اور سب چیزیں جس طرح مردوں کے لیے ضروری ہیں اسی طرح عورت کے لیے بھی ضروری ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب عورتیں علم دین حاصل کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کریں کیوں کہ تحصیل علم مرد عورت دونوں کے لیے ضروری ہے۔
کولگام، کشمیر