کے ڈی مینی
اقبال عظیم حقیقت میں عظیم تر شخصیت تھی ،جس نے اپنے ہم عصروں پر اپنی عظمت کی گہری چھاپ چھوڑی ہے ۔وہ ادبی ،اخلاقی اور دینی لحاظ سے قد آور ،مدبر ،قابل احترام مقرر اور قابل ِ عزت مفکر تھے۔اقبال عظیم کا اقبال جموں و کشمیر کے دونوں حصوں میں اُس کے چاہنے والوں کے ذہنوںپر ایک شامیانے کی طرح تنا تھا ۔کتھی رنگ کی شلوارقمیض اور خوبصورت واسکٹ پہنے والا یہ خوب رو شخص اپنے لوگوں اور قبیلے کی آن اور شان مانا جاتا تھا ۔ہشاش بشاش عظیم اقبال کا چہرہ اتنا سرخ تھا کہ جیسے اپنے باغ کے سیبوں کا سارا رنگ چُرا لیا ہو۔وہ اپنی تیز اور چمکتی ہوئی آنکھوں سے جس پر بھی نظر ڈالتے ،غالب آجایا کرتے تھے۔چہرے پرکھِلی کھِلی مسکراہٹ، جیسے جنگلی پھولوں کا حسن چُرالایا ہواور یہ مسکراہٹ دوسروں کے اندر دور دور تک مہکتی چلی جاتی تھی اور لوگ اُن کے گرویدہ ہوجاتے تھے ۔وہ شگفتہ بیان شخص جس سے بھی ملتا، اُس کے دل میں اپنا گھر بنا لیا کرتا تھا۔اُن کی باوقار آواز جب ریڈیو کشمیر سے گونجتی’’یوہ ریڈیو کشمیئر ایہہ‘‘تو جموں کشمیر کے آر پار چاہنے والوں کی سماعتوں میں رس گھولتی چلی جاتی تھی ۔چونکہ اقبال عظیم کی زندگی کا بڑا حصہ دربار عالیہ وانگت شریف کے نزدیک گذرا ،اس لئے اُن کی شخصیت پر روحانی جاہ و جلال ایسا تھا کہ جیسے اُن کے اندررومانی لاٹ جل رہی ہو ۔جس سے وہ لفظوں کی صورت میں دوسروں کو لاٹ لاٹ کردیا کرتے تھے۔شاید یہی لاٹ انہیں عام آدمی سے عظیم آدمی بنادیتی تھی۔آپ میں خلوص ایسا تھا کہ ہم عصروں کی خصلت ہی بدل دیتے تھے۔یہ صحیح ہے کہ آج وہ ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن اپنی ادبی کاوشوں اور سماجی کاموں کے باعث وہ چاہنے والوں کے ذہنوں میں ایک عرصے تک ستاروں کی طرح چمکتے دھمکتے رہیں گے۔
اقبال عظیم سے میری آخری ملاقات جولائی 2021میں اُن کے گھر وانگت میں ہوئی تھی۔اُس وقت وہ بستر علالت پرتھے اور بیماری نے اُن کے جسم کو کھوکھلا کیا ہوا تھا ،بھوک جواب دے چکی تھی ،خواہشیںزرد پتوں کی طرح جھڑ رہی تھیں لیکن اُن کی آنکھیں اُسی طرح چمکدار تھیں۔روایتی مسکراہٹ چہرے پر پھیلتی جارہی تھی لیکن زندگی کا چاند غروب ہونے کو تھا ،میں نے ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا :آپ ٹھیک ہوجائیں۔یہ سُن کر وہ بولے تو کچھ نہیں، فقظ مسکراہٹ اُن کے چہرے پر گہری ہوتی چلی گئی تھی۔اُن کی یہ تلخ مسکراہٹ دیکھ کر میرے آنسو نکلنے کو تھے،جذبات سے گلا رند چکا تھا، الفاط جیسے گم ہوچکے ہوں ۔اس لئے میں نے اجازت چاہی اور گھر کی سیڑھیاں اُتر کر باہر آگیا تھا ۔ہر بار اقبال عظیم مجھے چھوڑنے کے لئے سڑک تک آتے تھےلیکن اس بار وہ میرے ساتھ نہیں تھے ،بس اُن کی چمکدار آنکھیں اور کھلکھلاتی ہوئی مسکراہٹ میرے ساتھ تھی ۔دراصل یہ چمکدار آنکھیں اور کھلکھلاتی مسکراہٹ میں نے اپنے اندر جذب کرلی تھی اور آج بھی جب چاہتا ہوں ،یادوں کے دریچے سے جھانک کر اُنہیں دیکھ لیتا ہوں۔
اقبال عظیم کی پیدائش گیارہ اپریل 1945کو وانگت میں ہوئی ۔آپ کے والد صاحب کا نام چوہدری محمد اکبر تھا ،جن کی شادی دربار لار شریف کے ولی حضرت میاں نظام الدین کی صاحب زادی سے ہوئی تھی۔اس لئے اقبال صاحب کے خاندان دربار عالیہ کے ساتھ نزدیکی اور بڑے خوشگوار تعلقات رہے ہیں ۔چونکہ آپ کے والد کا تعلق علاقہ نوشہرہ کے گائوںلمبیڑی سے بھی تھا اور وہاں گھر بھی تھا ،اس لئے اقبال صاحب کے لڑکپن ،بچپن اور جوانی کی پہلی بہاریں وانگت کے علاقہ لمبیڑی میں بھی گزری ہیں ۔ابتدائی تعلیم پہلے وانگت سے شروع ہوئی پھر لمبیڑی میں جاری رہی اور پھر اورینٹل کالج سرینگر میں حاصل کی لیکن اقبال صاحب کا رجحان درسی تعلیم کے علاوہ مادری زبان گوجری کی طرف بھی تھا اور اکثر دربار عالیہ سے گوجری زبان وادب کی کتابیں لے کر پڑھتے تھے۔
یہ غالباً 1976-77کا دور تھا ،اُس دور میں سروری کسانہ گجر دیس اخبارنکال رہے تھے ۔یہ اخبار گجروں کی آواز مانی جاتی تھی ۔اقبال عظیم نے پہلے اس اخبار میں لکھنا شروع کیا اورپھر اس کی ادارت سے بھی وابستہ رہے۔اسی دور میں پونچھ کے چوٹی کے گوجری شاعر اور ادیب نسیم پونچھی سرحد پار سے واپس آچکے تھے اور اپنی شاعری کی کتاب’’ نیں سلکھنا‘‘ مرتب کرنے کی جستجو میں سروری کسانہ کے پاس پہنچے ،جہاں اُن کی ملاقات اقبال عظیم سے ہوئی ۔یہ شائد گوجری کی کشش ہی تھی جس نے اقبال عظیم اور نسیم پونچھی کی واقفیت کو گہری دوستی میں بدل دیا۔’’نیں سُلکھنا‘‘ کو منظر عام پر لانے میں چوہدری اقبال کا بڑا ہاتھ رہا تھا ،جنہوں نےنسیم پونچھی کو گوجری کا پہلا صاحبِ کتاب بنانے میں بھر پور معاونت کی تھی اور خود بھی لگا تارشاعری ،مقالے اور کہانیاں لکھنے لگے جو اکثر گجر دیس کی زینت بنتی تھیں۔اسی دور میں 1967میں حضرت میاں بشیر احمد صاحب کنگن سے ایم ایل اے منتخب ہوئے اور اُن کے دہلی میں دورے شروع ہوگئے جہاں وہ اپنے لوگوں کی بہتری کے لئے منصوبوں کو منظور کروانے کی جدو جہد میں محو تھے۔1969میں میاں صاحب نے ہندوستان کے وزیر اطلاعات مسٹر کیسکرسے ملے اور سرینگر ریڈیو سے گوجری کا پروگرام نشر کرنےکے لئے کہا تو اُنہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ سرینگر میں ہوگا۔چنانچہ کیسکر صاحب سرینگر آئےاور میاں صاحب کی دعوت پر وانگت بھی گئے ،جہاں انہوں نے اعلان کیا کہ جلد ہی گوجری پروگرام نشر ہونے لگیں گے۔اُن کے دورے کے ساتھ ہی اقبال عظیم کی زیر نگرانی گوجری گیت ریکارڈ ہونے اور نشر ہونے شروع ہوگئے لیکن روزانہ گوجری پروگرام نہ چل سکا۔
1970میں اندر کمار گجرال وزیر اطلاعات نے تو میاں صاحب کی استدعا پر گوجری کا پروگرام نشر کرنے کے لئے اُس وقت کے سرینگر اسٹیشن کے ڈائریکٹر نند لعل چاولہ کی صدارت میں تین ممبری کمیٹی بنائی ،جس میں میاں صاحب اور اقبال عظیم شامل تھے ۔اس کمیٹی کی سفارش پر 1970میں سرینگر ریڈیو سے گوجری پروگرام نشر کرنے کی اجازت مل گئی لیکن چاولہ صاحب نے حضرت میاں صاحب سے کہا کہ اگر آپ گوجری زبان اور ادب کا فروغ چاہتے ہیں تو مجھے اقبال عظیم کی خدمات درکار ہوں گی۔چنانچہ اقبال عظیم کا آڈیشن ہو اتو آپ کو گوجری زبان کے علاوہ اردو،انگریزی اور پنجابی زبانوں کی نشریات میں بھی شامل کرلیا گیا ۔اور پھر وہ دن آگیا جب 7 اگست 1970کو ریڈیو کشمیر سے چوہدری اقبال عظیم کی گوجری زبان میں آواز گونجی ’’یوہ ریڈیو کشمیر ایہہ ہن تم اقبال عظیم تیں خبر سنو‘‘ اُس کے بعد اقبال عظیم کی باوقار آواز اور خوبصوت لہجہ گھر گھر گونجنے لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ نہایت مقبول صدا کار بن گئے۔اسی دوران چوہدری نسیم پونچھی بھی ریڈیو کشمیر سرینگر میں آگئے اور دونوں کی گہری دوستی گجری زبان کے فروغ میں معاون ثابت ہونے لگی۔لیکن کچھ عرصہ کے بعد کسی حاسد نے نسیم پونچھی کے خلاف ریڈیو میں شکایت کردی ،جس کے باعث نسیم پونچھی کو ریڈیو سے سبکدوش کردیا گیا ۔نسیم پونچھی کی برخواستگی سے اقبال عظیم کو اتنا رنج ہو اکہ انہوں نے بھی ریڈیو کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔اسی دوران 1974میںحضرت میاں صاحب نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو راجوری مدعو کیا اور جلسے میں گجر قبایل کی پسماندگی کا ذکر کرلیا ۔اندرا جی نے میاں صاحب سے کہا کہ وہ پرپوزل لے کر دہلی آئیں اور پھر کچھ عرصہ بعد گجر قبایل کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے 13 کروڑ رروپے منظور کئے ۔میاں صاحب نے اس رقم میں سے کچھ رقم کلچرل اکیڈمی کو دلوادی تاکہ گوجری و پہاڑی زبانوں کے فروغ کے لئے کام ہوسکے۔چناچہ چوہدری اقبال عظیم اور نسیم پونچھی کو کلچرل اکیڈمی میں تعینات کردیا گیا ۔اکیڈیمی میں چوہدری اقبال عظیم نے گوجری زبان ادب اور ورثے کو فروغ دینے کے لئے جم کر کام کیا ۔پوری ریاست کے دورے کئے،گوجری شاعروں اور ادیبوں کو ڈھونڈ نکالا ۔گوجری فوک کی حوصلہ افزائی کی اور جہاںشیرازہ ،گوجری لوک کہانی و گوجری کی ڈکشنری بنانے میں اہم کام کیاوہیں گائو ں گائوں جاکر محفل مشاعرہ ،محفل مقالہ اور گوجری لوک گیتوں کو منظر عام پر لانے میں معاون ثابت ہوئے۔اسی دوران میری ملاقات چوہدری اقبال عظیم سے ہوئی۔غالباً یہ 1980کی بات ہے ۔مجھے گوجری زبان میں لکھتے ہوئےتقریباً چھ برس ہوچکے تھے ۔حالانکہ میں ریاستی سطح کی کانفرنسوں میں شرکت کرچکا تھا لیکن اقبال عظیم سے واقفیت نہ تھی ۔پھر ایک دن چوہدری اقبال عظیم کی چٹھی ملی،مجھے چنڈک پونچھ میں منعقدہ ہونے والے گوجری مشاعرے میں مدعو کیا گیا تھا ۔بڑے شوق سے غزل لکھی اور مشاعرے میں پڑھی ،غزل کا مطلع تھا: ’’اس برّیا جدھ کوئی گیت سناویہ گو ۔یاد تری کو برچھو سینے لاویہ گو‘‘یوں تو مشاعرے میں بہت داد ملی لیکن پرگرام کے اختتام پر اقبال عظیم نے کہا کہ کے ڈی مینی کی یہ غزل نہ صرف اس مشاعرے کا حاصل ہے بلکہ گوجری شاعری میں جدید غزل کے طور پر ایک اضافہ ہے۔پھر انہوں نے مجھے کہا کہ آپ گوجری میں لکھیں اور ہم اُس کو چھاپیں گے۔اس طرح میرے لئے گوجری زبان میں لکھنے کے دروازے کھل گئے اور میرے اور اقبال کے درمیان دوستی نے ڈیرہ ڈال دیا ۔
جب تک اقبال عظیم زندہ رہے دل و جان سے دربار عالیہ سے وابستہ رہے۔حضرت بابا میاں بشیر صاحب آپ کی بہت عزت کرتے تھے اور عام طور وہ دربار کے معاملوں میں آپ سے مشورہ لیتے تھے۔اقبال عظیم دربار عالیہ پر ہونے والے جرگوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔انہیں باضابطہ مدعو کیا جاتا تھا ۔ان جرگوں میں ڈھوکوں ،مرگوں ،بہکوں ،خاندانوں کے معاملات پر بحث ہوتی تھی ۔مذہبی ،سماجی اور انسانی مسئلوں پر بات ہوتی اور پھر فیصلے ہوتے تھے۔چوہدری اقبال کو میاں صاحب کی طرف سے منعقدکردہ روحانی محفلوں میں شرکت کا بھی شرف حاصل رہا ہے۔وہ روحانی کرامات کے بارے میں بتایا کرتے تھے کہ کرامات فطرت کی طرف سے عنایت کردہ ہتھیار ہے۔جب انسان کے لئے سارے راستے بند ہوجاتے ہیں اور فطرت کے اصولوں کے مطابق لڑائی نہیں جیتی جاسکتی تو اولیائے وقت روحانی کشف سے کرامت کے ذریعے اُن کا حل نکالتے ہیں،دربار عالیہ کی طرف سے مجھے حضرت میاں صاحب کی طرف سے دربار کی تاریخ لکھنے کا حکم ملا تو میرے پاس اقبال عظیم کے سوا کوئی نہ تھا۔اُس ڈھائی برس کے دور میں جہاں حضرت میاں نے مجھے وقت دیا ،محبت دی اور اپنی شفقتوں سے نوازا اور دربار عالیہ کی تاریخ کو سناتے رہے ،وہیں چوہدری اقبال عظیم نے ہر طرح سے میری پذیرائی کی۔اپنے زریں خیالات اور قبائل کی روایات سے روشناس کرایا، وہیں کتاب کی ایڈیٹنگ میں بھرپور تعاون دیا اور پھر کتاب کا نام ’’متاع فقرودانش‘‘بھی اُ ن ہی رکھا تھا ،جسے حضرت میاں صاحب اور صاحبزادے میاں الطاف صاحب نے قبول کیا تھا۔
اقبال عظیم نے شاعری کی تین کتابیں لکھی ہیں ۔پہلی کتاب’’ریجھ کو لمیں‘‘، دوسری ’’پیاب‘‘ گوجری میں لکھی ہیں جبکہ تیسری کتاب’’کُلی نی فقی دے و چوں‘‘پنجابی میں لکھی ہے۔وہ پہاڑی زبان میں بھی شاعری کیا کرتے تھے۔اقبال صاحب نے دربار عالیہ سے شائع ہونے والی تقریباً تمام کتابوں کی معاونت کی ہے جبکہ کلچرل اکادمی میں گوجری زبان اور ورثے کو سمجھالینے کا جو کام آپ نے کیا ہے ،اُس کا کوئی جواب نہیں ہے۔زندگی کے آخری دنوں میں اقبال عظیم نے جہاں ایک خوبصورت اور قابل دید مکان بنایا، وہیں اپنی زمین میں سیبوں کا وسیع باغ بھی قائم کیا۔وہ اپنے گھر میں اپنی مرضی کی خوشحال زندگی گزارتے تھے۔انہیں زندگی سے کوئی شکایت نہ تھی ۔لمبی بیماری کے بعد آخری بار جب میں نے انہیں دیکھا تو اُس وقت اُن کے چہرے پر کوئی ملال نہ تھا ۔اُن کے داماد منشا خاکی، جو اُن کے ساتھ ہی رہتے تھے ، نے بتایا کہ زندگی کے آخری دنوں میں وہ بہت پُر سکون رہتے تھے ۔10 دسمبر سے اُن کا بلڈ پریشر بڑھنے اور گھٹنے لگا تو عیادت کے لئے دوسرے داماد سُور صاحب بھی آگئے اور باقی خاندان کے لوگ جن میں عبدالغنی عارف بھی شامل ہیں، پہنچ گئے۔چنانچہ 12 جون صبح تین بجے اُن کا بلڈ پریشر بہت کم ہوگیا اور پھر وہ سنبھل نہ پائے اور جہاں فانی سے رخصت ہوگئے ۔یوں تو اس دنیا ئے فانی میں لوگ آتے اور جاتےرہیں لیکن اس شخص نے جس جرأت ،بانکپن ،خلوص ،محبت اور محبت سے سرشار زندگی گزاری ، ایک عرصے تک اُن کے مربی انہیں یاد رکھیں گے۔
(وارڈ نمبر۔,17پونچھ ،جموں)