عطا عابدی کی کہانی | ’’مناظرے مذکر و مونث کے‘‘ تجزیہ

ادیبہ حیات شفاء

عطا عابدی وہ نام ہے جس سے اردو ادب سے واقفیت رکھنے والا ہر انسان واقف ہے اور ان کا نام کسی تعارف کا محتا ج نہیں۔ وہ تقریباً چار دہائیوں سےاردو ادب کی خدمات انجام دے رہےہیں۔ وہ اپنی تحریر کی بنا پر ہمیشہ اردو ادب سے دادو تحسین وصولتے رہے ہیں۔ اکثروبیشتران کی تحریریںاخبارات ورسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں۔وہ ایک اعلیٰ درجے کے شاعر ہی نہیںبلکہ ایک بہترین ادیب بھی ہیں۔اب تک ان کی کم و بیش ڈیڑھ درجن کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں،جنہیں اردو دنیا میں کافی سراہا گیا اور خوب پذیرائی کی گئی ۔ان کی کتابوں میں ،آئینہ ٔ عقیدت(۱۹۸۷)، عکس عقیدت(۲۰۰۲)، بیاض(۲۰۰۳)، مطالعے سے آگے(۲۰۰۶)، افکار عقیدت(۲۰۰۷)، نوشت نوا(۲۰۰۹)، زندگی زندگی اور زندگی(۲۰۱۰)، مناظرے مذکرومونث کے(۲۰۱۲)،خوشبو خوشبو نظمیںاپنی(۲۰۱۲)، شعر اساس تنقید(۲۰۱۵)،دریچے سے(۲۰۱۶)، سقوط ماسکواور ترقی پسندادب (۲۰۱۸)،بچوں کی کتابیں :تعارف و تذکرہ (۲۰۲۲)، بہار کے اردو ادبی رسائل(۲۰۲۲)،لمحات فکر(۲۰۲۴)، کافی اہمیت کی حامل ہیں۔کئی کتاب ترتیب شدہ ہیں اور اشاعت کے مرحلےمیں ہیں۔

کئی کتابیں ان کی خدمات پر ترتیب پائی ہیں جیسے ڈاکٹر ریحان قادری کی کتاب’ شعروشناخت ‘ اور ڈاکٹر منور راہی کی کتاب ’عطا عابدی اور ادب اطفال۔ ڈاکٹر عطا عابدی کے تعلق سے ڈاکٹر اویناش امن کی دو کتابیں ’ دھوپ کے نوالے‘(ہندی) اور ’ التفات و اعتراف‘ پریس میں ہے۔ڈاکٹر ممتاز فرخ، ثناءاللہ ثناؔ دوگھروی اور ڈاکٹر ریحان قادری کی دیگر کتابیں زیر ترتیب ہیں۔ان کی ادبی خدمات کے لیے انہیں وقتاً فوقتاً مختلف اداروں کے ذریعہ اعزازات و انعامات سے بھی نوازا گیا، جن میں ۱۹۸۹ میں ادارہ بابی پیلی بھیت کا پہلا طرحی غزلیہ انعام ،۱۹۹۳ میں راوی لندن کا پہلا نعتیہ انعام۱۹۹۳ میں ،جریدہ ٹائمز دہلی کا مضمون نگاری کا تیسرا انعام ۱۹۹۵ء میں، راشٹریہ سہارا نوئیڈا کا موضوعی افسانوی مقابلہ میں دوسرا انعام،شاداں فاروقی ایوارڈ، (بزم ا دب دربھنگہ)، نقی احمد ارشاد ایوارڈ اور احمد جمال پاشا ایوارڈ(بہار اردو اکادمی، ۲۰۱۳، ۲۰۱۴ء)، اکبر رضا جمشید اردو زبان و ادب ایوارڈ،پٹنہ(۲۰۱۹)،ڈاکٹر محمد مسلم ایوارڈ(اے ایم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ دربھنگہ) او رکلیم اللہ کلیم دوست پوری ایوارڈ،پٹنہ(۲۰۲۱ء)، زیب النساءزیبی ادبی ایوارڈ (۲۰۲۴)قابل ذکر ہیں۔

انہوں نے نہ صرف بڑوں کے لیے ادب تخلیق کیا بلکہ ادب اطفال میں بھی ان کا بڑا کام ہے۔ان میں ’ خوشبو خوشبو نظمیں اپنی‘(نظموں کا مجموعہ ہے) اور ’ مناظرے مذکرے و مونث کے‘(کہانیوں کا مجموعہ ہے) ہیں۔بچوں کے لیے لکھی گئی ان کتابوں میںبچوں کی تعلیم و تربیت کا خوب لحاظ رکھا گیا ہے۔پیش نظر کتاب’مناظرے مذکرو مونث کے ‘ پیش لفظ کے ساتھ ساتھ چھ کہانیوں اور دو نظموں پر مشتمل ہے ۔اس کتاب کی شروعات ’روداد چمن‘(پیش لفظ ) سے کی گئی ہے، جس میں عطا عابدی نے اس کتاب ، بچوں کے ادب اور بچوں کے تعلق سے بہت کچھ کہا ہے،جس میں وہ ادب اطفال کے تعلق سے کافی متفکر نظر آتے ہیں، کیوں کہ آج جو بچے ہیں وہی کل ہو کر بہت کچھ بنیں گے ، قوم کو سنبھالیں گے اس لیے بچوں کی اچھی تعلیم اور تربیت ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں:’’ہم اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بجا طور پر فکر مند رہتے ہیں اور مطلوبہ تقاضوں کی تکمیل کےلیے ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اجتماعی و ادبی سطح پر عموماً ہمارا رویہ اس سنجیدگی کا مظہر نہیں ہوتاجو ہونا چا ہئے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے سماجی و ادبی وسیلوں میں بچوں کی اخلاقی تعلیم و تربیت ترجیحی حیثیت رکھتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔بعض لوگ ادب میںسماج کے ذکر سے ہی ناک بھنو چڑھانے لگتےہیں تو بعضوں کو سماجی سروکار سے دلچسپی کا رزیاں معلوم ہوتی ہے۔ دراصل وہ اپنی ذات سے باہر نکلنا نہیں چاہتےہیں کہ وہاں کئی سخت مقام آتے ہیں۔‘‘ (صفحہ:۵۔۶)

بچوں کے ادب کے تعلق سے عطا عابدی کا نظریہ ہے کہ بچوں کا ادب تخلیق کرناکوئی معمولی یا آسان کام نہیں ہے اور جولوگ بھی ادب اطفال کی تخلیق کو بڑوں کے ادب سے کم تر یا دوسرے درجے کا ادب سمجھتے ہیںتو وہ دراصل بچوں کے ادب سے صحیح طور سے واقف نہیں ہوتے ہیں۔جب کوئی ادب اطفال کی تخلیق کرتا ہے تو اسے اس بات کو دھیان میں رکھنا ہوتا ہے کہ انہیں اپنی تخلیق کےذریعہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی خاصی توجہ دینی پڑتی ہے اور اس بات پر بھی غوروفکر کرنا ہوتا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد بچوں پر کیسا اثر پڑے گا یا بچے ان سےکیا سیکھیں گےاوران سب باتوں کے لیے ہمیں خود کو بھی بچوں کی سطح پر جا کر سوچنا پڑتا ہے۔کیونکہ جب ہم خود حسد، جھوٹ ، فریب جیسی چیزیںاپنے اندر کھیں گےتو ہم اپنے بچوں کو کیا سکھائیں گے۔

عطا عابدی کو بچوں کی تعلیم و تربیت کا پورا پورا خیال ہے اس لیے انہوں نے بچوں کے لیے بہت کچھ کہا ہے اوراس لیے بچوں کے لیے کہانیوں کی کتاب ’ مناظرے مذکر و مونث کے سامنے آسکی۔’مناظرے مذکرو مونث کے‘ میں شامل پہلی کہانی ’ فیصلہ‘ کےعنوان سے ہے۔یہ ایک بڑی ہی پیاری اور سبق آموز کہانی ہے۔اس کہانی سے کہانی کاربچوںکو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کس طرح حسن و خوبی سے کسی بھی معاملے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔اس میں انہوںنے حضرت علیٰؓ کا واقعہ پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ انہوں نے کس آسانی سے ایک پیچیدہ معاملہ کواپنی ذہانت کی بنا پر حسن و خوبی سے حل کیا ہے۔حضرت علیؓ اپنی ذہانت کی بنا پر بڑے بڑے اورپیچیدہ معاملوں کوبھی بہت آسانی سے حل کردیتے تھے۔

کتاب میں شامل دوسری کہانی ’اختر کی پنسل ‘ ہے ۔ یہ بھی بہت سبق دینے والی کہانی ہے جس میں کہانی کار نے بچوں کو بتایا ہے کہ کبھی بھی کسی شخص کو لے کر بدگمان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ جب ہم کسی کے تعلق سےبدگمان ہوتے ہیں تو ہمیں ساری چیزیں مشکوک نظرآتی ہیں ،ہمیں اس شخص کی ساری حرکات و سکنات مشکوک اورہر عمل ایک سازش معلوم ہوتی ہے۔اس لیے ہمیں ہمیشہ آپس میں خوش گمان ہوناچاہئے تاکہ شک و شبہ کی جگہ اعتبار و اعتماد قائم ہوسکے اور اگر غلطی سے کبھی کو ئی بدگمانی پیدا ہوجائےتو اسے جلد از جلد دور کرلینا چاہئے ،تاکہ اس کے برے نتیجے سامنے نہ آسکیں۔

تیسری کہانی ’ تسلیمن چاچا‘ ہے ۔ یہ بھی بہت اچھی اوربچوں کی تربیت سے تعلق رکھنے والی کہانی ہے، جس میں بچوںکو تسلیمن چاچا کی کہانی خود ان کی زبانی بیان کی گئی ہے۔تسلیمن چاچا یہ بتانےکی کوشش کرتےہیں کہ’’ ہم لوگوں کا یہ وقت بہت قیمتی ہے۔اس وقت کا غلط استعمال عمر بھر کی پشیمانی اور پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔اس قیمتی کا وقت کا ہمیشہ صحیح صحیح استعمال کریں گے توآپ کامیاب انسان بنیں گے۔‘‘

اس طرح ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کہانی میں بچوںکو باتو ں باتوں میں وقت کا صحیح استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور جو بچے وقت کا صحیح استعمال نہیں کریں گے ان کا بھی حال تسلیمن چاچا جیسا ہی ہوگا۔
اگلی کہانی ’ مناظرے مذکرو مونث‘ کے ہے۔ اس کہانی کو بچوں کےروبرو ایک حسیں خواب کی مانند پیش کیا گیا ہے۔ اس میںمذکر و مونث کے بیچ اپنے خوبصورت الفاظ کو لے کر بحث ہورہی ہے۔ دونوں خود کو ایک دوسرے سے اعلیٰ ، ا فضل اور اچھامانتے ہیں اور خود کوایک دوسرےسے اوپر بتانےکی کوشش کرتے نظرآتے ہیں۔یہ کہانی بھی بچوں کے لیے بہت مفید ہے، جس میں انہیں بغیر رَٹے رٹائے باتوں بات میںبچوں کو بہت سے سارےکارآمد اور مفید الفاظ کی تذکر و تانیث یاد ہوجاتی ہے۔یہ اس کہانی کی خاص بات ہے۔کتاب میں شامل کہانی ’سبق‘ بھی بہت عمدہ کہانی ہے ،جس بچوںکو ایک اچھا سبق ملتا ہے۔یہ کہانی بچوں کو یہ بتاتی ہے کہ ہم بیشک دوسروں کو فریب دے سکتے ہیں ، دوسروں کو دھوکے میں رکھ سکتے ہیںلیکن کبھی بھی ہمارا ضمیر ہمیں دھوکےمیں نہیں رکھ سکتا۔وہ ہمیشہ ہی ہمیں ہماری غلطیوں اور فریب کے سبب لعن طعن کرے گا ۔اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’ کھوکھلی بنیادوں پرکھڑی عمارتیں چاہے کتنی خوبصورت یا مضبوط کیوں نہ ہواس کا انہدام اک دن ہونا یقینی ہے۔‘‘کتاب میں ایک منظوم کہانی بھی شامل کی گئی ہے جس کا عنوان ہے ’ غرور کا انجام‘۔اس منظوم کہانی میں بھی بچوں کی تفریح کے ساتھ اس کے لیے سبق بھی ہے۔وہ سبق یہ ہے کہ ہمیں کبھی غرور نہیں کرنا چاہئے۔غرور کرنے والےکا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔غرور کی وجہ سےلوگ ہمیشہ اکیلے رہ جاتے ہیں۔دوست ، احباب ، پڑوسی ، رشتہ دار، بزرگ ،بچے سبھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اس لیے ہمیں کبھی بھی غرور نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ غرور ہمیں اسی طرح راکھ کردیتا ہے جس طرح آگ سوکھی ہوئی لکڑی کو جلا ڈالتی ہے۔

’ کامیابی کی کنجی‘ ایک ڈرامہ ہے۔یہ بھی بہت مزیدار ہے۔اس سے بچوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ محنت او رلگن ہی سب کچھ ہے۔علم کسی کی میراث نہیں ہےجوجیسی محنت کرتا ہے ویساہی پھل پاتا ہے۔ہم اگر کسی کو ہرانا چاہتے ہیں تو ہم اسے محنت کرنے سے روک کر نہیں ہرا سکتے ہیں بلکہ ہم اس سے زیادہ محنت کرکے ہی اسے ہرا سکتےہیں۔

کتاب کے اخیر میں پہیلی ہے وہ بھی نظموں میں ہے اور اس کا جواب بھی نظموں میں ہی ہے۔بہت مزیدار ہے۔ اس میں بھی بچوں کو بہت مزا آتا ہے اور پہیلی کا جواب بھی شعروں میں ہی دیا گیا ہے یہ عطا عابدی کا کمال ہے۔اس کے بالکل آخر میں کئی لوگوں کی رائے شامل کی گئی ہے۔مجموعی طور سےیہ کتاب بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے بہت مفید ہے۔یہ کتاب بچوں کو تفریح کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سکھاتی ہے۔اس کتاب کو اردو پڑھنے والے بچے کے پاس ہونا چاہئے تاکہ بچہ اس سےسیکھ سکے اور فیض حاصل کرسکے۔
[email protected]