محمد ہاشم القاسمی
کتب لغت میں عدل کے معنی انصاف، نظیر، برابری، معتبر جاننا، موازنہ کرنا، دو حصوں کو برابر کرنا، سیدھا ہونا، دو حالتوں میں توسط اختیار کرنا اور استقامت کے لکھے ہیں۔ جبکہ عام اصطلاح میں قضاء کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سے مراد روز مرہ کے معاملات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے جج یا قاضی عدل و انصاف کے ساتھ حقوق عامہ کا یوں تحفظ کرے کہ کسی ایک کی بھی حق تلفی نہ ہو۔اسلام دین فطرت ہے جس کے جملہ افکار و اعمال فطرت سلیمہ کے اصولوں پر قائم کیے گئے ہیں۔ انسانی زندگی انفرادی اور اجتماعی امور سے عبارت ہے۔ ایک مثالی اور کامیاب معاشرے کی تکمیل میں اخوت و محبت، ایثار و قربانی، صلہ رحمی و بھائی چارگی، فیاضی و سخاوت، امانت داری و دیانتداری اور عدل و انصاف جیسے اہم عوامل شامل ہیں۔ کوئی قوم خواہ تہذیب و تمدن اور کلچر و سوسائٹی کے کسی بھی درجے میں ہو عدل و انصاف سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے لوٹ کھسوٹ، دنگا، فساد، افتراق و انتشار کی حالت کو اپنے لئے سرمایہ افتخار سمجھا ہو۔ اختلافات اور تنازعات انسانی طبعیت کا لازمی جزو ہیں، لیکن اس میں اگر کوئی ایسی طاقت کارفرماں نہ ہو جو طاقتور کو کمزور کا حق دبانے سے محفوظ رکھ سکے، اور ظالم کو اس کے ظلم سے نہ روک سکے تو اس کا نتیجہ یقیناً آپس کے انتشار و خلفشار اور بد نظمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور فتنہ و فساد قومی زندگی کے ہر عضو میں سرائیت کر جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے وحدت امت، ملکی سالمیت اور آپس میں ہم آہنگی کے لئے عدل و انصاف پر بہت زور دیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کی وضاحت کی گئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ہمیشہ عدل و انصاف کو بہت اہمیت دی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے ہر مہذب قوم اور معاشرے میں نظام عدلیہ کے وجود کو ضروری اور مہتم بالشان سمجھا گیا ہے۔ دنیاوی نظام میں ایک دوسرے کے حقوق کے تحفظ اور فرائض کی ادائیگی کے لئے جو نظام متعارف کرایا گیا ہے وہ عدل و انصاف ہے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی حیثیت اور ذمہ داری کے لحاظ سے عدل و انصاف کو اپنا لے تو معاشرہ کی اصلاح نہایت آسان ہے کیونکہ فرد سے ہی معاشرہ کی تکمیل ہوتی ہے۔ دین اسلام نے عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت دی ہے کیونکہ اس کے بغیر ایک صالح معاشرے کا قیام عمل میں نہیں آ سکتا۔ کسی بھی معاشرے میں خوشحالی، امن اور ارتقاء کے مراحل اسی وقت طے ہو سکتے ہیں جب وہاں عدل و انصاف موجود ہو۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش) کے سائے میں جگہ دے گا جس دن کہ اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (1) عادل بادشاہ ۔ (2) وہ جوان جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا ہو۔ (3) وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اَٹکا ہوا رہتا ہے۔ (4) ایسے دو آدمی جن کی محبت محض اللہ کی خاطر تھی، اسی کے لیے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے۔ (5) وہ آدمی جس کو کسی صاحبِ حسب و جمال عورت نے دعوت دی تو اس نے کہا مجھے خدا کا خوف ہے۔ (6) وہ آدمی جس نے اس قدر چھپا کر صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی۔ (7) وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو آنکھیں اُبل پڑیں۔
اسی طرح جب کسی سے بغض وعداوت ہو تو عدل وانصاف کے تقاضے عمومًا بالائے طاق رکھ دیئے جاتے ہیں اور اپنے حریف کو نیچا دکھا نے کے لیے آدمی ہر جائز و ناجائز حربہ تلاش کرتا ہے، لیکن احکم الحاکمین کی جانب سے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے موقع پر بھی عدل و انصاف کی ترازو ہاتھ سے نہ چھوڑیں، بلکہ ہر حال میں عدل وانصاف کو قائم رکھیں۔ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے چوری کی چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی، لوگوں نے کہا: رسول اللہ ؐ سے اسامہ کے سوا کون (اس کی سفارش سے متعلق گفتگو کرنے کی) ہمت کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہؓ سے لوگوں نے کہا تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات چیت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسامہ! بنی اسرائیل صرف اس وجہ سے ہلاک و برباد ہوئے کہ جب اُن میں سے کوئی اونچے طبقے کا آدمی کسی حد(سزا) کا مستحق ہوتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اس پر حد نافذ نہیں کرتے اور جب کوئی نچلے طبقے کا آدمی کسی حد کا مستحق ہوتا تو اسے نافذ کرتے، اگر (اس جگہ) فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘(تحفة الاشراف) ۔امام غزالی ؒ عدل سے مراد برابری کرنا بیان کرتے ہیں۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ ’’عدل کا پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور خالق و مالک کے درمیان عدل کرے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے نفس کے ساتھ عدل کرے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اپنے نفس اور دنیا کی تمام مخلوقات کے درمیان عدل کرے۔‘‘
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ’’ عدل و انصاف ہی پر دین ودنیا کی فلاح کا دار و مدار ہے اور بغیر عدل کے فلاح دارین کا حصول ناممکن ہے۔ سیاست شریعہ کی عمارت دو ستونوں پر قائم ہے ایک ہے مناصب اور عہدے اہل تر لوگوں کو دینا اور دوسرا ہے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا۔‘‘بنی نوع انسان ایک پر امن اور اصلاحی معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں کر سکتے جب تک دین اسلام کی تعلیمات کو سیکھ کر اپنی حیات کو اللہ کے پیارے رسولؐ کی حیات طیبہ کے سانچے میں نہ ڈھال لیں کیونکہ حضور نبی اکرمؐ کی اتباع ہی میں انسان کی اصلاح اور کامیابی کا راز مضمر ہے۔ دنیا کے نظام کو بہتر اور صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لئے عدل و انصاف کا قیام نہایت ضروری ہے اور اگر اس سے منہ موڑ لیا جائے تو معاشرتی، سماجی، معاشی، مذہبی اور سیاسی زندگی دشوار ترین ہو جائے گی جس سے ہر طرف انارکی پھیلے گی۔ دنیا میں قوموں اور ملکوں کی تباہی کے اسباب اور کسی مملکت کی تباہی و بربادی کے عوامل کا جائزہ لیا جائے تو دو بنیادی چیزیں سامنے آئیں گی۔ (1)قوم کا فسق وفجور اور (2) حکمرانوں کا ظلم وعدوان۔ جب کوئی قوم خدا فراموشی کی روش اختیار کرتی ہے اور اللہ کے بنائے قوانین سے سرکشی کرتی ہے اور فسق ومعصیت کے نشہ میں بدمست ہوکر حلال وحرام اور جائز و ناجائز کے حدود علانیہ توڑنے لگتی ہے تو ان پر جفا کیش اور جابر و ظالم حاکم مسلَّط کردیئے جاتے ہیں۔ کا ئنات کا نظام دراصل عدل و انصاف ہی سے وابستہ ہے، نظامِ عالم کے لیے عدل وانصاف سے بڑھ کر اور کوئی چیز ضروری نہیں۔ بلاشبہ عادل حکمران کا وجود اس عالم کے لیے سایۂ رحمت ہے اور کسی عدل کش حاکم کا تسلُّط عذابِ الٰہی ہے، جو بندوں کی نا فرمانیوں کی پاداش میں ان پر نازل کیا جاتا ہے، درحقیقت کا ئنات کا حقیقی تصرف و اقتدار اللہ رب العالمین کے ہاتھ میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو چندے مہلت دیتا ہے، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے نہیں چھوڑتا۔ یہی وجہ ہے کہ ظالم حکمران زیادہ دیر تک مسندِ اقتدار پر نہیں رہ سکتا، بلکہ دوسروں کے لیے درسِ عبرت بن کر بہت جلد رخصت ہوجاتا ہے۔ تاریک دور کے فرعون وہامان اور شداد ونمرود کو جانے دیجئے، ماضی قریب میں اسٹالن، ہٹلر اور مسولینی وغیرہ کا عبرت ناک حشر کس نے نہیں دیکھا یا نہیں پڑھا اور برطانیہ کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔ وہ ظالم جس کی بادشاہی میں آفتاب غروب نہیں ہوتا تھا، آج سمٹ کر ایک چھوٹے سے جز یرے میں پناہ گز ین ہے. آج سے چودہ سو سال قبل جب دنیا ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی، طاقتور کمزوروں کو اپنا غلام بنایا کرتے تھے، عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی تھی، کفر و ضلالت اور جہالت کی تاریکیوں میں پوری دنیا گھری ہوئی تھی تو بطحا کی وادی سے رشد و ہدایت اور عدل و انصاف کا ایک ایسا سورج نمودار ہوا، جس نے اپنے نور کے کرنوں اور عدل و انصاف سے پوری دنیا کو روشن کر دیا اور پوری دنیا کے انسانیت کو عروج کے اس مقام پر فائز کر دیا جس کی نظیر تاریخ عالم میں کہیں نہیں نظر آتی۔
اسی طرح حضرت عمر بن خطاب ؓ کا عدل و انصاف اسلامی تاریخ میں ایک مستقل باب اور مستقل موضوع ہے، جن کے ہاں امیر و غریب ، آقا و غلام سب عدل کے ترازو میں برابر ہوتے تھے، عدل و انصاف میں دوست و دشمن، اپنوں اور غیروں کی کوئی تمیز نہیں ہوتی تھی، یہی وجہ تھی کہ جب حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں مدینہ منورہ میں زلزلہ آیا تو حضرت عمرؓ نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی مگر زمین کی جنبش بدستور باقی تھی، آپ کے ہاتھ میں درّہ تھا، وہ زمین پر مارا اور زمین سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا:اے زمین! اللہ کے حکم سے ساکت ہوجا ! ٹھہر جا! پھر فرمایا ،’’ کیا عمر نے تجھ پر عدل و انصاف کو قائم نہیں کیا؟‘‘ بس! یہ کہنا تھا کہ زمین ساکت ہوگئی اور زلزلہ ختم ہوگیا۔ یہ ہے عدل و انصاف کی طاقت اور اس کی برکت۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حصہ کا پورا پورا عدل و انصاف کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
رابطہ۔9933598528
[email protected]
������������������