عام آدمی حیران وپریشاں۔۔۔ کیوں؟

۔1947 میں ہندوستان سیاسی طور آزاد ہوا اور ہر ہندوستانی کی یہی توقع تھی اور یہی خواب تھا کہ اب ملک میں سیاسی انتشار، بد امنی، مار دھاڑ، افلاس، تنگ دستی ، جہالت ، بے روزگاری، امراض، لوٹ کھسوٹ سے نجات ملے گی اور سرکاری دفاتر سے رشوت خوری ، بد نظمی،اقرباء پروری وغیرہ دور ہو جائے گی ، انسانی بھائی چارہ کا بول بالا ہو گا اور ملک تعمیر ترقی ،مفاہمت ویکجہتی میں آگے بڑھے گا مگر افسوس کہ ستر برس گزرنے کے باوجود عام ہندوستانی کی حالت ابھی بھی لکیر کی فقیر کی بنی ہوئی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں 45کروڑ رہنے والے خط افلاس کے نیچے زندگی بسر کر تے ہیں ۔ ایسے بد نصیب ہندوستانیوں کو نہ دو وقت کی روٹی میسر ہے اور نہ ہی ان کے سروں پر معقول چھت ہے۔ دس کروڑ نو جوان بے روزگار پڑے ہیں۔ ملک میں جگہ جگہ لا قانونیت ہے، گو رکھشا کے نام پر طوفان بدتمیزی بپا ہے ، مار دھاڑ، قتل و غارت ڈاکہ زنی، لوٹ کھسوٹ، عورتوں کو اغواء کر کے ان کی عصمتیں تار تار کرنے کے بعد قتل کرنا معمول بن چکا ہے ۔ تاجر وں کو دن دھاڑے لوٹا جا تا ہے اور کہیں کہیں ان کو تاوان مانگ کر مار بھی دیا جارہا ہے۔ سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں رشوت خوری عام ہے۔ ضروری اشیاء کے قیمتوں میں ہوشر با اضافہ سے عام ہندوستانی کی مہنگائی سے کمر ٹوٹ چکی ہے۔ ملک بھر میں انصاف فراہم کرنے کے لئے دھرا معیار اپنا یا جارہا ہے۔اس وجہ عام مظلوم ہندوستانی کو انصاف فراہم نہیں ہو رہا ہے۔ ملک کے کسانوں کی حالت ابتر ہے تب ہی تو وہ آئے دن خود کشیاں کرتے ہیں۔ نکسل واد کی وجہ سے درجن سے زائد ریاستوں میں دہشت گردانہ ماحول رقص نیم بسمل کرتا نظر آرہا ہے اور سارے ملک میں عدم تحفظ جان مال و عصمت کے ماحول نے گھر کر رکھ دیا ہے۔ ہند پاک سرحدوں پر آر پار رہنے والے کسان اور نگرانی کیلئے تعینات سپاہی دوطرفہ گولہ باری سے بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ غرض اس و قت سارے ملک کے اطراف اکناف میں زندگی بسر کرنے کے لئے ماحول سازگار نہیں ہے۔ یہ سب کیوں ہورہاہے؟ اس پر تھوڑا بہت عقل وفہم اور غیر جانب دارانہ غو روفکر کی ضرورت ہے ۔
مئی2014 میں مرکز میں بی جے پی سرکار نریندر مودی کی قیادت میں بر سر اقتدارآ گئی اور ہندوستانی عوام نے’’اچھے دنوں کے خواب ‘‘میں بہک کرمودی کو بھر پور تعاون دیا۔ یہ نعرہ بھی اس سیاسی تبدیلی کا بڑامحرک بنا :’’ سب کا ساتھ سب کاوکا س‘‘ ۔ہر ہندوستانی ان دنوں یہی تو قع رکھتا تھا کہ اب ملک میں قانون، انصاف اور بھائی چارہ کی بالا دستی قائم ہوگی، بھرشٹاچار کا خاتمہ ہوگا، تعمیر وترقی کا دور دورہ ہوگا تاکہ عوام الناس کو اپنی زندگی آزادانہ فضا میں بسر کرنے کے لئے معقول اور موزون ساز گار ماحول ملے مگر افسوس یہاں حکومتی سطح پر غیر ضروری معاملات جیسے تین طلاق، گائو کشی، بابری مسجد رام مندر تنازعہ اور یوگا پر سیاست کا بازار گرمایا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کو درپیش معاشی وسماجی مسائل کو حل کرنے کیلئے سرکار کے پا س مہلت ہی نہ رہی بلکہ متعلقہ دفاتر کے منتظمین کا دھیان بھی اس انوکھے طرزسیاست سے بُری طرح اثر انداز ہوا۔ تین طلاق معاملہ مسلمانوں کا شرعی معاملہ ہے جس میں ریاست کا کوئی عمل دخل نہیں۔ طلاق کے معاملے میں الہامی کتاب قرآن مجید اور احادیث رسول ﷺ میں صاف الفاظ میں مبنی بر انصاف خدائی ہدایات اورا ن کی توضیحات درج ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کو اگر کوئی حرکت نا پسندیدہ ہے، وہ ہے طلاق مگر بعض کڑوی شرائط کے ساتھ اس کی مشروط اور محدود اجازت مسلمانوں کو دی گئی ہے ۔ دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ،اس کے قوانین میں دنیا کی کوئی طاقت تبدیلی نہیں کر سکتی ہے۔ اگر کوئی مسلمان جہالت کے باعث، شراب کے نشہ میں، لالچ یا لا علمی وغیرہ میں بھٹک کر اپنی بیوی کو طلاق طلاق طلاق کہے، تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اسلام و شریعت کے قوانین میں کوئی کمی یا نعوذباللہ کجی ہے، کجی اور کمی توانسانوں میں ہے نہ کہ اللہ کے اٹل اور منصفانہ قانون میں۔ یہ صحیح ہے کہ بسااوقات طلاق شدہ مسلم عورت کی زندگی بر باد ہو کر رہتی ہے، اس لئے کہ ا س بد نصیب عورت کے ساتھ پورا پورا عدل نہیں ہو تا لیکن اس کے لئے علما ئے دین اور سماجی رہنما ذمہ دار اور مکلف ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ تین طلاق پر روک لگانے کی ضرورت نہیں ہے خاص کر جب ملک میں رہنے والے مسلمانوں نے ایک ہو کر اور بیک آوازمودی سرکار کو اس معاملہ میں مداخلت نہ کرنے کا الٹی میٹم  دیا۔ا لبتہ طلاق شدہ عورتیں در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور نہ ہوں ،اس کیلئے ضروری مسلمانوں کو اپنے معاشرے کے اندر اصلاحی اقدامات اُٹھانے کی اشد ضرورت سے ا نکار کی مجال نہیں ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں کچھ اقدامات یہ ہو سکتے ہیں (ا) طلاق کے معاملات کو خوش اسلوبی سے نپٹانے کے لئے فاسٹ ٹریک شرعی عدالتو ں(Fast track courts) کا قیام عمل میں لایا جائے ،ایسی عدالتوں میں اسلام اور شریعت کا باریک بینی سے علمیت اور معاصرسماجی حالات جانکاری رکھنے والوں کو بہ حیثیت منصف تعینات کیا جائے اور ہر ایسا معاملہ زیادہ سے زیادہ ایک سال کی مدت میں طے ہونا ضروری ہو نا چاہئے اور طلاق شدہ عورت کے مقدمہ کی پیروی کے لئے مفت قانونی معاونت فراہم ہونی چاہئے ۔ (۲)  ایسا مسلمان مرد جو جہالت، شراب کے نشہ، جہیز، خود غرضی، لاعلمی وغیرہ جیسی حرکت میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے، ایسے شخص کے ساتھ سماجی ، دینی طور ترک موالات کر نے کی ضرورت ہے (۳) مسلم علمائے دین، مسلم تنظیمیں مسلم پرسنل لا بورڈ وغیرہ اس بدعت کو روک لگانے کے لئے ملک بھر کے مسلمانوں کو ضروری تعلیمات و بیداری مہم سے آگاہی دیں۔ مشاہدے میں آتا ہے کہ کہیں کہیں نام نہاد مسلم نیم حکیم مولوی صاحبان طلاق کے معاملات میں نا انصافی یا عدم واقفیت سے کام لیتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات بلا ضرورت طلاق کے نفس ِ مضمون پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ ایسے نیم حکیموں پر مستند علمائے کرام کی طرف سے روک لگانے کی ضرورت ہے (۴) نادار وبے سہارا طلاق شدہ عورتوں کو زندگی بسر کرنے کیلئے معاشرتی سطح پرمالی معاونت ماہانہ طور فراہم کرنے کیلئے رضاکارانہ فنڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی بد نصیب عورتوں کا استحصال نہ ہو جائے۔ بہر حال یہ معاملہ بھاجپا کے سیاسی منشور کا حصہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ اسے ملکی سطح پر اقلیتوں کو خوف کی لاٹھی سے ہانکنے کا حربہ کے طور آزمارہی ہے جس میں مودی سرکار چوبیس کروڑ مسلم آبادی سے مات کھائے گی ،انشاء اللہ۔
بابری مسجد رام مندر تنازعہ پر بھاجپا کی طرف سے حسب دستور غیر ضروری سیاست ہو رہی ہے۔ زمینی حقایق اور ریونیور ریکارڈ س کے طور پہ ثابت نہیں ہو سکا ہے کہ بابری مسجد کو رام مندر مسمار کر کے یا رام جنم بھومی کی اراضی پر تعمیر کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ اگر سرکاری اور نیم سرکاری طور تنکے کے برابر یہ شہادت موصول ہوئی ہوتی کہ بابری مسجد رام مندر کو مسمار کر کے یا رام جنم بھومی کی اراضی پر تعمیر کی گئی تھی تو رام مندر کب کا تعمیر کیا گیا ہوتا۔ تب ہی تو سپریم کورٹ نے مسلمانوںا ور ہندؤوں کو یہ تنازعہ با ہمی طور مفاہمت اور صلح سمجھوتے سے حل کرنے کی وکالت کی ہے اور بیرون ازعدالت باہمی تصفیہ کی صلاح دی ہے۔ اب انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ بابری مسجد کو اپنی جگہ نئے سرے سے تعمیر کیا جائے ا ور رام مندر کو بابری مسجد کے احاطے سے باہر تعمیر کر کے ملک میں انصاف و قانون کی بالا دستی قائم کی جائے تاکہ امن پسند اور انصاف نواز عوام کو ذہنی کوفت و خوف سے نجات حاصل ہو جائے لیکن مودی سرکار ووٹ بنک سیاست کے نقطہ نظر سے اس مسئلے کو الجھانے سے ہی اپنا مطلب نکا لتی ہے ۔ 
 اسی طرح گاؤ کشی پر قانون قدرت کئی ہزارسال سے موجود ہے۔ا س وقت ملک میں کروڑوں گائیں موجود ہیں۔بحوالہ سرکاری اعداد شمار جب ایک گائے بوڑھی ، لا عز اور بے سود و بے بہبود ہو جاتی ہے تو ایسی گائیوں کی رکھوالی کی قیمت اور جنجھٹ کوئی نہیں بر داشت کر تا ۔ ایسی گائیںسڑکوں کو چوں اور پار کوں کی زینت بن کر خوراک کی تلاش میں بھوکے پیٹ دربدرگھومتی رہتی ہیں اور ہرکوئی ا نہیں دھتکارتا ہے۔ اگر ملک بھر میں صرف سال دو فیصدی گائیں لقمہ اجل ہو جاتی ہیں تو کم سے کم پچاس لاکھ مری پڑے گائیوں کے انبار جمع ہو ں گے جس کی وجہ سے ماحول زہرآلودہ ہو گااور جگہ جگہ گند گی اور بدبو کے ڈھیر نمودار ہوں گے۔ اس طرح مری ہوئی گائیوں کی بے حرمتی ہو گی اور ملک کو نہ صرف اربوںروپیہ کا نقصان ہوگا بلکہ لوگوں کی ایک معتدبہ تعداد بے کار ہو جائے گی، اس لئے ایسی گائیوں کا صحیح استعمال کرنے کے لئے موزون پالیسی مرتب کر کے عملائی جاتی لیکن مودی سرکار کوئی سائینٹفک پالیسی مر تب کر نے میں ناکام ہوکر گئو رکشکوں کے غنڈے اور قاتل ٹولے منظم کر کے مسلمانوں پر اپنی ناکا می کا نزلہ مذہبی جنون کے نام پر اُبھار رہی ہے ۔
ہندوستان آزاد ہوا تو ملک کا آئین سکولر اصولوں پر قائم ہوا۔ا س ملک میں ہر رہنے و الا شخص یہاں کا اصلی باشندہ ہے۔ا سلئے اس ملک کو اقتصادی، سیاسی و ٹیکنالوجی طور مضبوط بنانے کے لئے انسانی بھائی چارہ کو نا تسخیر بنانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں رہنے والے ا قلیتی فرقوں خاص کر مسلمانوںاور دلتوں کے ساتھ حسن سلوک روا رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے ، ان کو درپیش جملہ مسائل کا ازالہ کرنے کیلئے ضروری اقدامات لازم وملزوم ہیں ۔ ملک میں یکسان قانون اور برابر ی والا انصاف مہیا کرنا بی جے پی سرکار کی ذمہ داری ہے مگر یہ اس ذمہ داری کے اُلٹ میں جارہی ہے ۔ مشاہدے میں آتا ہے کہ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے ساتھ انصاف فراہم کرنے کے لئے دوہرا معیار اپنا یا جارہاہے، تب ہی بابری مسجد کو غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر ذمہ داری و زور زبردستی سے شہید کر کے ہندوستان بھر میںامن واخوت کا ماحول بر باد کرنے والے گناہ گار کا رسیوک ابھی بھی پچیس سال گزرنے کے باوجود آزادی سے گھوم پھر رہے ہیں۔ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے بجائے بھاجپا ان کی پیٹھ ٹھونک رہی ہے ۔ بابری مسجد کو گرانے کے بعد ملک میں تشدد و مار دھاڑ کا ماحول قائم ہوا۔ سینکڑوں معصوم لوگ جان بحق ہو گئے۔ اربوں روپیہ مالیت کی سرکاری و غیر سرکاری املاکیں تباہ و برباد ہوئیں مگر ملوثین کو قانون کے لمبے ہاتھوں سے ابھی تک خراش بھی نہ آئی بلکہ وہ سیاست کے مہارتھی بھی بنے بیٹھے ہیں۔ا س کے بر عکس ممبئی بم دھماکوں میں ملوث مجرمان کو موت کی سزا سنا دی گئی اور یعقوب میمن کو پھانسی پر لٹکانے کے لئے ملک کی عدالت عظمیٰ نے دفتری اوقات کے بعد رات کے دوران اجلاس بلا کر ان کی پھانسی کی سزا پر مہر ثبت کی ۔ ان حقایق کے پیش نظر یہ الزام حکمرانوں پر عائدہونا کہ ملک میں انصاف فراہم کرنے کے دھرے معیار کام کر رہے ہیں، بالکل صحیح اور برحق ہے۔ بھاجپااگر اپنی دوسالہ مدت کار میںہندوستان کے عام انسانی کو زندگی بسر کرنے کیلئے ساز گار ماحول دے ، دہشت گردی اور غنڈہ گردی کا ماحول ختم کرکے ا قلیتوں کو تحفظ دے ، ان کے مذہبی معاملات میں دخل دینا بند کرے، ہر شہری کو ترقی کے برابر مواقع دے ، پار سے امن مذاکرات اور کشمیر حل کی بات چیت شروع کرے ، اسلحہ کی دوڑ میں پڑنے کی بجائے عوامی سرمایہ کو صرف عوام کی تعلیم ، صحت اور خوراک میں خرچ کرے اور سب سے بڑھ کر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بڑھاوادینے کے لئے پیش قدمی کرے ، تب ہی جدید ہندوستان دُنیا میں اقتصادی معاشی، سیاسی ، انسانی، بھائی چارہ ، ٹیکنالوجی کے میدانوں میںایک باعزت، مستحکم اور مضبوط طاقت کی جگہ حاصل کر سکتا ہے اور دنیا میں اپنی گنگا جمنی تہذیب یا جیو اور جینے دو کے اصول کی اہمیت منواسکتا ہے ۔ اس ملک میں امن شانتی قائم کرنا بے ھد ضرری ہے، ورنہ اگر یہاںکے لوگ بدستور آپسی رسہ کشی ، تعصب اور نفرت کے جہنم زارمیں ظلم و تشدد کی حکمرانی میں جئیں اور مریں تو یہ ملک کی سا لمیت اور وحدت کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔ نیز یاد رکھئے کہ مسئلہ کشمیر ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ ریاست جموں و کشمیر ہندوستان کا کبھی اٹوٹ انگ نہیں تھی بلکہ ستر سال قبل کے بعض عیاروعیاش ہندوستانی سیاست کاروں اور حکمرانوں نے جعلسازی و مکاری سے یہاں فوجی مداخلت کر کے اپنا غیر جمہوری تسلط جما یا ۔اہل کشمیر نے ہی نہیں بلکہ اقوام عالم نے بھی کبھی اسے برحق تسلیم نہ کیا ۔ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے نہ صرف ریاست کو بلکہ سارے ہندوپاک میں ممکنہ جوہری جنگ کے خوف نے گھیر ے رکھ دیا ہے۔ ا س وقت نہ صرف ملک بلکہ کشمیر میں عام انسان کی زندگی کے لئے ساز گار ماحول موجود نہیں بلکہ فوجیوں سمیت سرحدکے دونوں اطراف رہنے والے کسان اور رہائشی گولہ باری کی زد میں آ تے جارہے ہیں۔ اس لئے بھی مسئلہ کشمیر کا حل کرنا نا گزیر بن چکا ہے تاکہ یہ مارا ماری ختم ہو۔ چونکہ یہ پیچیدہ مسلٔہ راتوں رات حل نہیں ہو سکتا ہے، اس لئے عبوری دور کے لئے یا جب تک کشمیر کاحتمی فیصلہ نہ ہو ہندوستان کی مرکزی سرکار کو (ا)  1952 میں طے شدہ دہلی اگریمنٹ کے تحت ریاست کو حاصل آٹو نامی فی الفور بحال کی جائے۔ (۲)ریاست میں نافذ کالے قوانین کا لعدم قرار دئے جائیں۔(۳)ریاست کے تمام محب وطن لوگ جو ہندوستان اور جموں کشمیر کے قید خانوں میں بند پڑے ہیں ، ان کو بلاشرط رہا کیا جائے اور ان کے خلاف مقدمات واپس لئے جائیں۔ (۴)ریاست کے شہروں، قصبوں اور دیہات سے ہندوستانی سپاہیوں  اور نیم فوجیوںکو واپس بیرکوں میں بلا یا جائے تاکہ عام کشمیری کو امن و اطمینان کا سانس لینے کا موقع فراہم ہو۔ 
فون نمبر  9858434696
