عالم اُردو کی عصری پہچان

 افواہ تھی کہ میری طبیعت خراب ہے
لوگوں نے پوچھ پوچھ کے بیمار کر دیا
دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا
مشاعروں کی جان' منفرد لب و لہجہ کے مالک' ممتاز نغمہ نگار راحت اندوری عالمگیر سطح پہ زندگی کے مختلف پہلوئوں سے اُبھرنے والے جذبات کو شاعری کی مالا میں پروئے لفظوں کی خنکار سے قارئین کو مدہوش کرتا دلوں کے بھید کھولتے ،قہقہے لگاتے ہمیشہ دلوں پہ راج کرتے نظر آئینگے۔راحت اندوری عصرِ حاضر میں اُردو کے باکمال شاعروں میں سے تھے۔ وہ نہ صرف شاعروں اور اردو زبان والوں کے لئے محبت کا عکس تھے بلکہ عام لوگ جن کا شاعری اور اردو زبان سے دور تک کا بھی واسطہ نہیں بھی انہیں سننا پسند کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں ایسا جادو تھا جو  سپیرے کی بین کی دھن کی طرح سامعین کو اپنی اور راغب کر کے اس طرح مدہوش کر دیتا تھا کہ وہ جھوم جھوم کے ایک ایک لفظ پر واہ واہ کرتے نظر آتے تھے۔
انہوں نے اپنی شاعری میں مختلف موضوعات کو جگہ دی۔ مزاحیہ شاعری کے ساتھ ساتھ سنجیدہ شاعری کا اسلوب اختیار کیا اور اس میں اپنا ایک اہم مقام بنا لیا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے صرف مسکراہٹیں ہی نہیں دیں بلکہ مذہب اور تہذیب کی ترقی کے ہر پہلو کو دوسروں تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی، جس سے ان کی غزل میں گہرائی اور تہہ داری آتی گئی۔ ان کی ایک خاص بات جو انہیں دوسرے شاعروں سے ممتاز کرتی ہے وہ بیان میں سادگی،کلام میں صفائی اور عام فہم الفاظ کا استعمال تھا۔
زندگی گزار لی جائے یہ فن نہیں ہو سکتا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی کو اسکی اصل حقیقت کے مطابق سمجھ کر گزارا جائے۔ راحت صاحب کی شاعری میں یہ پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے زندگی صرف گزاری ہی نہیں بلکہ زندگی کے چھوٹے بڑے الجھے مرحلوں کو اس کے اصول و ضوابط کے مطابق سمجھا اور جانا تھا اور اس کی تلخ حقیقتوں کو واضح طور پر بیان کرتے تھے… ؎
اب اپنی روح کے چھالوں کا کچھ حساب کروں
میں چاہتا تھا چراغوں کو آفتاب کروں
یہ زندگی جو مجھے قرض دار کرتی ہے
کہیں اکیلے میں مل جائے تو حساب کروں
بقول دانش اثری: – 
’’ وہ برسرعام کہتے تھے کہ میں ہر طرح کی شاعری کر سکتا ہوں اور شاعری کے نام پر چورن بیچ سکتا ہوں۔ اس بات میں مجھے صداقت نظر آتی ہے کیونکہ مشاعروں میں پڑھا جانے والا کلام عوامی ذوق کے مطابق اور ادبی معیار سے کافی کم تر ہوتا تھا اور پوری غزل میں کبھی کبھار ایک آدھا شعر ہی ڈھنگ کا نظر آتا تھا. لیکن راحت صاحب کی وہ شاعری، جسے وہ مشاعروں میں شاذونادر پڑھتے تھے، غضب کی چیز ہے آپ ان کی کتابیں اٹھا لیں اور وہاں راحت اندوری کو دیکھیں تو آپ کو احساس ہوگا یہ تو کوئی اور ہی راحت ہیں جن سے آج تک آپ ناواقف تھے۔ ان کی کتابیں بتاتی ہیں کہ ان کی شاعری میں جو ادبی چاشنی ہے جو رموز و اسرار پوشیدہ ہیں' جو زندگی کا گہرا فلسفہ ہے، اصل میں انہیں کا خاصہ تھا.. ‘‘
راحت اندوری صاحب کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ وہ کسی بھی باطل طاقت کو للکارنے کی ہمت رکھتے تھے۔ دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر شعر کہتے تھے ۔ ان کی غزل کے یہ شعر ملاحظہ فرمائیں  ؎
 آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہیں
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
نام راحت اللہ اور تخلص راحت۔ یکم جنوری 1950 کو اندور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم نیوٹن اسکول اندور میں حاصل کی۔ 1973 میں بیچلر س کی تعلیم مکمل کی اور1975 عیسوی میں برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد مدھیہ پردیش کے مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
شاعری کے حوالے سے ان کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں؛
’’ دھوپ دھوپ ‘‘ ’’ میرے بعد ‘‘پانچواں ‘‘ ’’ درویش ‘‘ ’’ رات بدل گئی ‘‘  ’’ ناراض‘‘ ’’ وجود ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں. اس کے علاوہ انہوں نے بہت سی فلموں کے لئے گیت لکھے، جن میں ’’ سر‘‘  جہنم'  خوددار'  مینا بھائی'  مشن کشمیر میناکشی' عشق اور قریب وغیرہ شامل ہیں…
   شاعری کا یہ پرنور ستار 11 اگست 2020 عیسوی کو کرونا وائرس اور دل کا دورہ پڑنے سے 70 سال کی عمر میں اندور کے اربندو اسپتال میں انکے انتقال کی خبر سن کر مملکتوں کی سرحدوں سے ماوریٰ دنیائے اُردو پر ماتم کی لہر چھا گئی۔
میں جب مر جاؤں تو میری ایک پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ دینا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ یہ حادثہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو ایک روز مرنے والاتھا۔۔۔۔۔۔
���
شوپیان کشمیر،ریسرچ سکالر، ونوبا بھاوے یونیورسٹی،موبائل نمبر؛9906700711