عالمی وباء میں احساس ِقفس | مجھے چھوڑ دے میرے حال پر تیرا کیا بھروسہ ہے چارہ گر

دراصل پوری دنیا کیلئے ایک پیغام ہے، ایسا پیغام کہ جسے ہضم کرنا بھی سخت مشکل ہے۔ اس نوعیت کا پیغام جو ہماری توجہ عالمی بحران کی طرف مائل کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دسمبر 2019میں جیسے چین کے شہر'' ووہان ''سے ایک پرُ خطر خط موصول ہوا ۔ اس خط میںمہلک وبائی مرض یعنی کاروناوائرس کا وجود ظاہر ہوجاتا ہے۔ یہ خط نہیں بلکہ آیک آزمائش‘  ہاںہم سب لوگوں کیلئے ایک آزمائش ہے۔ 
کوروناوائرس کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2لاکھ کے آس پاس تک پہنچ گئی ہے۔ اس وبائی مرض کی وجہ سے متاثریں کی تعداد بیس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ایسے حالات رونما ہوئے ہیں کہ لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کیا کیا جائے۔ ہر طرف اداسی اور عالمی سطح پر سماجی نظام درہم برہم ہوا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (World Health Organization)کے مطابق کوروناوائرس سوائن فلو سے دس گنا مہلک ہے۔ اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ بیماری کتنی خطرناک ہے اور اس بیماری نے اثرزدہ لوگوں کو کتنا پریشان کیا ہوگا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جو ڈاکٹر صاحبان ان بیماروں کے علاج و معالجہ کے لئے لیل و نہار خدمات انجام دے رہے ہیںان کی حالت بھی کیا ہوگی۔ 
کوروناوائرس نے نہ صرف سماجی نظام کو درہم برہم کیا بلکہ کاروباری حالات بھی خستہ ہو گئے۔ کاروبار کی حالت اتنی خراب ہے گویا یوں معلوم ہوتا ہے کہ کاروبار خود ہم سے کہہ رہا ہے : اے لوگو! میں نے کیا جرم کیا ہے؟ مجھے کس جرم کی بنا پر ان سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا؟
جہاں تک تعلیمی نظام کا تعلق ہے تو وہ بھی پستیوں میںڈھوباہوا ہے۔ یونیسکو (UNIESCO) کے مطابق کوروناوائرس کی وجہ سے دنیا بھرمیں250ارب طلباء درس وتدریس سے منقطع  ہوئے ہیں۔ اس بے بسی کے عالم میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں ۔ تعلیمی بحران کی زد میں ایک سو اٹھاسی ممالک ہیں جن میں ہندوستان بھی شامل ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے جو بندشیں عائد کی گئیں اس کی وجہ سے دنیا کے91 فی صدطلباء پر منفی اثر پڑا۔ 
ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخباروں میں روز یہی سننا اور دیکھنا پڑتا ہے کہ آج اتنے لوگ کوروناوائرس کی زد میںآگئیں ۔ اِس ضلع سے اتنے مثبت کیسز اور اُس ضلع سے اتنے سامنے آگئے۔ اس کی وجہ سے ذہنی پریشانیوں میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب دینا کے کسی بھی کونے سے یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ اتنے لوگ جان بحق ہوگئے تو دل و دماغ کے ساتھ ساتھ روح بھی کانپ اٹھتاہے۔ دل کے کتنے مریض ان دنوں اضطرابی حالات میں زندگی بسر کررہے ہوں گے۔ قلبی امراض عالمی سطح پر موت کی سب سے بڑی وجہ مانی جاتی ہے۔یہی وہ مرض ہے کہ جو ایک سال میں تقریباَ17ملین لوگوں کو موت کی نیند سلادیتا ہے۔ اس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کورونا وائرس کا اثر ان مریضوں کے لئے کتنا خطرناک ہے ۔
یہ وبائی حالات ہر ملک کے لیے دردِ سر یا دردِ جگر سے کم نہیں لیکن کئی ملکوں میں وباء نے جو صورت اختیار کی ہے وہ نہایت ہی تباہ کن صورت ہے۔ ایسے ممالک جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت آگے نکل چکے ہیں اور اپنی اس امتیازی خصوصیت پہ نازاں ہیںآج مصائب و الم میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ مغرب اس وقت پکّے ہوئے پھل کی مانند ہے ، جو کسی وقت بھی گرنے والا ہے۔۱نسان یہ کہنے پہ مجبور ہوتا ہے کہ سائنس آسمان کی بلندیوں تک بھی کیوں نہ پہنچے، پھر بھی دیگر اشیاء کی طرح بے ثباتی میں مستثنیٰ نہیں۔
ہمارے جموںو کشمیر کا بھی بہت برا حال ہے ۔ 17 اپریل تک5لوگوں کی جان چلی گئی اور350لوگ اس کی زد میں آچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرنے والوں کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں اور جو ابھی بیماری کی حالت میںہیں،انہیں شفائے کاملہ دیں۔
بہر حال یہاں بھی لاک ڈائون کا سلسلہ جاری ہے۔ اسکول،کالج اور یونیورسٹیاں بھی بند۔کاروبار کا کیا کہنا وہ چشمِ صافی میں غوطہ زن ہوکر خود بہ خود محصور ہو چکا ہے۔خیر یہ تو ہونا ہی تھا،اب خیالوں میں الجھنے سے کیا فائدہ۔ لیکن جس چیز سے دل میں خلش ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان ابتر حالات میں بھی کشمیریوں کے لئے صرف دو چیزیں میسّر ہیں: ایک اپنے غم اور دکھوں کو سہنا اور دوسرا دنیا کی افسردگیوں کو برادشت کرنا۔ ہم ان مشکل حالات میں بھی اپنے جذبات و احساسات کو دنیا کے دیگر لوگوں کے ساتھ مئوثر انداز میں پیش نہیں کرسکتے۔ یہاں پچھلے آٹھ ماہ سے انٹرنیٹ بھی بیماری کے عالم میں مدہوش ہے۔ معلوم نہیں اب کون سی دوائی درکار ہے کہ جس سے پھر ایک بار 4G کے آثار نمودار ہوجائیں۔اب جس طرح کے بھی حالات ہوں، ہمیں مقابلہ کرنا ہی پڑے گا۔ڈاکٹر صاحبان کو ہی دیکھ لیجئے، کتنی کوشش کی لیکن کس نے غور کیا؟ پرائیویٹ اسکول ا یسوسی ایشن نے بھی کوشش کی اور سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیالیکن اقدامات اٹھانے سے پہلے ہی پابندی میں اور اضافہ ہوا۔ اب27 اپریل تک کوئی دوائی کام نہیں کرے گی:
مجھے چھوڑ دے میرے حال پر تیرا کیا بھروسہ ہے چارہ گر
یہ تری نوازش مختصر میر ا درد اور بڑھا نہ دے 
 
مدرّس، انٹرنیشنل اسلامک اسکول پیرباغ ،ہمہامہ