قران مجید میں اللہ تعالیٰ کا مکرر ارشاد ہے کہ ’’اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ اور کئی مقامات پر ظالموں کی تشریح بھی کی گئی ہے۔ سورۃ فرقان کی اس آیت مبارکہ کے ساتھ سورۃ الشوریٰ کی ایک اور آیت پر غور کیجئے: ’’الزام تو اْن ہی پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں بغیر کسی حق کے (ناجائز) سرکشی کرتے ہیں۔‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ زمین کے خشک و تر میں جو بھی فساد برپا ہوتا ہے یہ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کرنی ہے۔ مذہبیت کا ڈھنڈورا بھلے ہی گلی گلی پیٹا جارہا ہو، مذہبی اخلاق سماج کے اجتماعی شعور کا حصہ نہیں بن پایا ہے اور نتیجہ یہ کہ انسان دوسرے انسانوں اور خود اپنے اوپر ظلم کی روش سے اجتناب نہیں کرتا۔
ظلم کی قرانی تعریف میں ہم اس کی تین شکلوں پر غور کریں گے۔
رشوت:
تمام مذاہب میں جعل سازی، دھوکہ دہی، حرام خوری اور استحصال کو اخلاقی جرائم میں شامل کیا گیا ہے۔ لیکن قرانی تعریف دیکھئے تو رشوت خوری ظلم ہے، اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ ہمارے یہاں رشوت کئی ناموں سے موسوم ہے۔ چائے پانی، کمیشن، بخشش، پرسنٹیج، کٹ وغیرہ۔ اگر کسی کام میں دفتری طوالت کو مختصر کرنا ہو تو رشوت ایک بظاہر جائز راستہ معلوم ہوتا ہے۔ اس مثال پر غور کریں۔ ایک صاحب کو مکان تعمیر کرنے کے لئے اجازت نامہ میونسپل حکام سے لینا ہے۔ وہ متعلقہ افسر کے پی اے کے پاس درخواست جمع کرتا ہے، پی اے صاحب کا کلرک بولتا ہے چند ہفتوں میں پتہ چلے گا، پھر سائل دفتر جاتے جاتے کئی جوتے گھِستا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت کے لئے مخصوص کمیٹی کا اجلاس نہیں ہوا ہے، مہینوں گذرتے ہیں، پھر کوئی رشتہ دار مشورہ دیتا ہے کہ مقامی وارڈ افسر کو کچھ پیسہ کھلاو کام ہوجائے گا، سائل مشورے پرعمل کرتا ہے ، ہفتہ دس دن میں کام ہوجاتا ہے۔ ہر محکمہ کا یہی حال ہے۔ ناجائز تجاوزات ہوں، چوری کے بجلی کنکشن ہوں، راشن گھاٹ سے بلیک میں بِکنے والے چاول ہوں، یا پھر اقربا پروری اور چور دروازے سے سرکاری محکموں میں ہونے والی تقرریاں۔ رشوت ایسا بھوت ہے، جو ہر جگہ تانڈو کرتا ہے اور لوگوں سے اکثر نقدی کی قربانی طلب کرتا ہے۔ عام طور پر ہم کہتے ہیں کہ رشوت کے خلاف مہم چلائیے، رشوت خوروں کو نوکریوں سے برطرف کیجیے، لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ سسٹم کو درست کیجئے تاکہ رشوت کی نوبت نہ پہنچے۔ کیا اعلی افسران نے جان بوجھ کو سسٹم کو اس قدر پیچیدہ بنا رکھا ہے تاکہ عام انسان اگر جائز راستہ اختیار کرے تو وہ افسرشاہی اور دفتری طوالت کی بھول بھلیوں میں کھوجائے اور بالاخر رشوت دینے پر ہی قانع رہے۔ جب نظام ایسا ہو تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ رشوت دینے والا بھی ویسا ہی مجرم ہے جیسا کہ لینے والا۔ موجودہ نظام میں دینے والا مظلوم ہے، لینے والا ظالم ہے۔ اسی ظلم کا ننگا ناچ ہمارے یہاں دہائیوں سے جاری ہے اور اس ناچ کی کمائی کھانے والے راشی افسر بڑی بڑی کوٹھیوں میں سکون کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ عام انسان دھکے کھا رہا ہے۔
ملاوٹ:
یہ تو بدترین ظلم ہے۔ اکثر میں کہتا رہا ہوں کہ مذہبی طبقہ اجتماعات میں بھیڑ کو یا مخصوص فکر کے ساتھ وابستگیوں میں اضافہ کو اپنی کامیابی تصور کرتا ہے۔ تبلیغ کا بنیادی ہدف سماج کے انفرادی اور اجتماعی شعور کو بیدار کرکے اس میں مطلوب اصلاح ہوتا ہے۔ یہی پیغمبرانہ ایجنڈا ہے۔ اگر پچاس سال تک وعظ و تبلیغ کے بعد بھی بازار میں ملاوٹی اشیا بکتی ہیں تو جان لیجئے کہ وعظ و تبلیغ بے کار گیا ہے۔ ہر جمعہ کو مساجد اور خانقاہوں میں جو بھیڑ ہوتی ہے اْن میں مرغ فروش، قصائی، کرانہ والے، اور دوسری اشیائے خوردنی بیچنے والے بھی ہوتے ہیں۔ کیا ملاوٹ کا ناسور ختم ہوگیا؟ بالکل نہیں ہوا۔ کیونکہ ہمارے موضوعات اکثر طلسماتی قصوں اور دیومالائی کہانیوں کے گرد گھومتے ہیں۔ حد ہے کہ ظالم کو اکثر معلوم ہی نہیں کہ وہ ظلم کررہا ہے۔ دالیں ہوں، سرخ مرچ ہو، ہلدی ہو، تیل ہو سب میں ملاوٹ ہے۔ ماہرین طب کشمیر میں بیماریوں کے پھیلاو کے لئے ملاوٹ کو اولین وجوہات میں گردانتے ہیں۔ ہم یہ ظلم کیوں کررہے ہیں؟ قوانین کی حالت دیکھئیے۔ کوئی باضمیر گاہک اگر شکایت بھی کرے اور چند سو روپے جرمانہ ادا کرکے ملاوٹ کرنے والا ظالم انسان چھوٹ جاتا ہے۔ ہمارے یہاں تو میوہ فروش مسلمان اپنے بیٹے کو تربیت دیتے وقت کہتا ہے کہ پہلے بوسیدہ اور خراب میوہ نکالو، ٹھیک حالت میں جو ہے وہ کل بک جائے گا۔ تیل خاکی کو پیٹرول ملایا جاتا ہے، انجن اوئل کو تیل خوردنی میں۔ ہمارے یہاں فوڈ کنٹرول محکمہ ہے، میونسپلٹی ہے۔ کبھی کبھار ایک چیکنگ مہم ہوتی ہے اور اخبارات میں ڈول پیٹا جاتا ہے۔ ہر طرف ظلم۔ ملاوٹ کرنے والا ظالم، اْسے چھوٹ دینے والا ظالم، قوانین کو نافذ کرنے کے بجائے فائلوں میں دبانے والا ظالم، ظلم سے آنکھ چْرانے ولا ظالم۔ ظلم ہی ظلم ہے۔ اور پھر ہم کہتے ہیں کہ کشمیر میں کینسر اور دوسرے مہلک امراض کیوں پھیل رہے ہیں۔ ہم ظلم اور ظالم کو پہچان نہیں پاتے تو سازش کی تھیوری اپناتے ہیں، اغیار کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں، لیکن گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے ہیں، ہم خود ظالم ہیں اور اللہ کی نگاہ میں نہایت ناپسندیدہ ہیں۔ بڑے بڑے جانورون کی قربانی، حج و عمرہ پر لاکھوں کا مصرف، کوٹھیوں کی بیرونی سجاوٹ پر پانی کی طرح پیسہ بہانا، شادیوں پر حشمت کی نمود وغیرہ۔ یہ سب ظلم پر پردہ ڈالنے والے اعمال ہیں۔ ظلم کو پہچانئے، ظالم کو پہچانئے۔ ظالم کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ جب قوانین سے اعتبار اْٹھ جائے تو انسان مذہب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہاں کی اکثریت مسلمان ہے اور قران مجید نے سماجی اور انفرادی اخلاق کے لافانی اصول وضع کئے ہیں۔ اگر ہم واقعی اللہ کو راضی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ظلم سے توبہ کرنی ہوگی، کیونکہ اللہ ظالوں کو پسند نہیں کرتا۔
خونِ ناحق:
قران مجید گواہ ہے کہ ایک معصوم انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اغیار نے جو بھی ظلم کیا اْس کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور وہ ظالموں کا محاسبہ بھی کرے گا۔ لیکن جب کوئی سماج برادرکشی پر اْترتا ہے تو خون ناحق کا ظلم اجتماعی ضمیر کو بے حِس کردیتا ہے۔گزشتہ تیس سال میں خونِ ناحق کا بازار گرم ہے۔ نوجوانوں ،ججوں، وکیلوں، ڈاکٹروں، سیاستدانوں، فن کاروں، انجنئیروں، پولیس والوں یہاں تک مزدوروں کا خون وادی کشمیر کی دھرتی کو لال کرتا رہا ہے۔ قران کی نظر میں خونِ ناحق ظلمِ عظیم ہے، کیونکہ جب کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی کی جان لے سکتا ہے تو گویا وہ اللہ کا خود شریک بن جاتا ہے اور شرک کو قران مجید نے ظلمِ عظیم کہا ہے۔ اس ظلم عظیم کے دْور رس نتائج نکلتے ہیں، پورا سماج قبائلی سوچ اختیار کرتا ہے، اور انتقام گیری کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ دْنیا نے فتنوں کے کئی ادوار دیکھے ہیں اور فتنوں کے دوران غیبی ہاتھوں سے گردنیں کاٹی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے یہاں اب جرائم کا گراف کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے، حالانکہ ہنگامی حالات میں صلح رحمی اور انصاف کے جذبات کو غوغاہونا چاہیے تھا۔ بیوی اپنے آشنا سے مل کر خاوند کا قتل کرتی ہے، ڈیڑھ فٹ زمین کے لئے لڑکا اپنے ہی چچا کو جان سے مار دیتا ہے، سوتیلی ماں معصوم بیٹی کو نوچ کھاتی ہے۔ شوپیان میں فرضی تصادم کا معاملہ چشم کشا ہے۔ سرکاری ہو یا غیر سرکاری، نظریاتی ہو یا غیرنظریاتی ، لوگ مارے جارہے ہیں۔ جواں سال وکیل بابر قادری کا قتل ہوا، کوئی نہیں کہتا ہے، کیوں ہوا، کس نے کیا؟ انصاف کا پورا نظام بہتان تراشی اور جھوٹی گواہی پر مشتمل ہے۔ ظلم ہی ظلم۔
حاصل کلام:
ظلم کی تینوں شکلیں یعنی رشوت، ملاوٹ اور خونِ ناحق نے ہمارے معاشروں کو دھیک کی طرح چاٹ رہی ہیں اور ہم بے بس اور بے جان ہیں۔ جب کوئی معاشرہ خودغرضی، انا پرستی، لالچ، اقربا پروری، رشوت، لوٹ کھسوٹ، ملاوٹ اور خون ناحق کے جرثوموں سے مسموم ہوجائے، تو سمجھ لیجئے کہ قوم کی اجتماعی موت ہوجاتی ہے۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔ بات کرو تو گولی، بات نہ کرو تو گولی، لگتا ہے کہ ملک الموت کشمیر میں لمبی چھٹیاں گزار رہا ہے، سرزمین قبرستان بن رہی ہے اور پیڑپودوں پر خوف کے پتے اور ظلم کے پھل لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے میرے بندو ! میں اپنی ذات پر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور مین نے اس کو تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیا ہے، لہٰذا تم لوگ ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘
(رابطہ9469679449 ،