! ظاہر و باطن میں تفریق، قول و فعل میں تضاد

وادی ٔکشمیرکی یہ بھی ایک بد قسمتی ہےکہ یہاں کے مسلم معاشرے کے ظاہر و باطن میں تفریق اور قول و فعل میں تضاد کا مظاہرہ عام ہورہا ہے۔معاشرے کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو پسِ پشت ڈال کر زیادہ تر لوگ شادی بیاہ کے معاملات کو جہیز کے لین دین ،نمود و نمائش اور بے جااسراف کی شکل دے رہے ہیں۔جو لوگ عام طور پر جہیز ،نمودو نمائش اور بےجا اسراف کے خلاف بلند بانگ دعوے کرتے ہیں ،وہی لوگ عملی طور پر اپنے دعووں کو جھوٹا ثابت کرتے چلے جارہے ہیں۔حالانکہ جن مسائل کو معاشرے کو کھوکھلا کردیا ہے ،اُن کو بالائے طاق رکھ کرہمارا مسلم معاشرہ اپنی بے حِسی کا کھلم کھلا مظاہرہ کرہا ہے۔ اس غلط اور جاہلانہ طرز عمل پر افسوس کریں یا ماتم ،کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ معاشرے کے تانے بانے بکھرنے کے بعد بھی کوئی سنبھلنے کا نام نہیں لیتااورفضول خرچی اور نمود و نمائش ،بے جا اسراف و رسومات ِ بَد پر فخرمحسوس کررہا ہے۔تمام دینی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر شادی کی تقریبات میںتقریباً سبھی معاملات میںوہ کچھ کیا جاتا ہے کہ یہود بھی شرما جائے۔یہ صورت حال متوسط طبقے اور عام لوگوں کے لئے بھی ایک مجبوری بن گئی ہے۔ اہم مسئلہ نہ صرف جہیز کا ہے بلکہ شاہانہ لوازمات اورنمود و نمائش کا بھی ہے ،جو وباء کی طرح پھیل گیا ہے۔جن کی عدم دستیابی کے باعث عام سلیقہ مند ،پڑھی لکھی ،خوبرو اور خوبصورت دوشیزائیں،دُلہن بننے کے خواب آنکھوں میں سجائے اندر ہی اندر گھٹتی ، گلتی جارہی ہیں۔کیونکہ کیا مہذب ،کیا غیر مہذب ،کیا عالم ،کیا عام آدمی سرمایہ داریت کے جراثیم معاشرے میں سرایت کرگئے ہیں اور لڑکے والے زیادہ سے زیادہ حصولِ منافع کے لئے سرگرداں ہیں۔ویسے بھی ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو دیکھنے میں انتہائی بامروت و دین دار ہیں اور اٹھتے بیٹھتے آیاتِ قرآنی اور احادیث نبویؐ بیان کرتے نہیں تھکتے ہیں، لیکن جب اُن کے اپنےبیٹوں اور بیٹیوںکی شادی کا معاملہ ہو تو ساری آیتیں اور احادیث یکدم بھُلادیتے ہیں۔گویا ہمارے مسلم معاشرے میں دوغلا پَن بڑے پیمانے پر فروغ پا چکا ہے اور یہ ایک ایسا بنیادی مسئلہ ہے جو ہمارے ہاں لڑکیوں کی شادی میں رکاوٹ اور جہیز اور دوسرے لوازمات کے مطالبات میں اضافہ کا سبب بنا ہوا ہے۔بدعتوں ،رسم و رواج ،جہیز ،بڑی بڑی دعوتوں اور نمود و نمائش کا ایک بڑا سبب وہ پیسہ بھی ہے جو یہاں کے لوگوں کو آسانی سے حاصل ہوتا ہے ۔سرکاری رقومات میں لوٹ کھسوٹ،رشوت ستانی ،بدعنوانی ،حد سے زیادہ منافع خوری ،ہیرا پھیری ،چوری چکاری ،غیر قانونی اور غیر اخلاقی دھندوں سے جو بہت زیادہ پیسہ کم سے کم وقت میں حاصل کیا جارہا ہے، وہ انہی حرام کاموں پر ہی صرف کیا جارہا ہے۔چونکہ ہمارے امراء طبقے نے اپنی امارت اور نام نہاد دولتیوں نے اپنی شہرت کو ظاہر کرنے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے نام پر شادیوں میں حد سے زیادہ جہیز کا لین دین اور نمود و نمائش کرتے ہوئے معاشرے میں جو غلط تطہیر قائم کردی ہے اُس سے معاشرے کا محروم طبقہ بُری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ جہاں تک ہمارے یہاں مذہب بیزاری کا تعلق ہے تو اس کا ایک سبب اہل مذہب کے قول اور فعل کا تضاد ہے، اکثرکی زندگی میں طاقت اور دولت ہی مرکز بنی ہوئی ہے۔حضرت رسول اکرمؐ کا تواتر کے ساتھ ذکر کرتے رہتے ہیں مگر زندگی میں اسوئہ رسولؐ کی ایک جھلک بھی نظر نہیں آتی ہے۔جھوٹ بولنا،کم تولنا ،سخت خُوہونااور ایک دوسرے پر بالا دستی دکھانا ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔ آج بھی معاشرے کا وہ طبقہ جن کے پاس لین دین کے لئے مال و اسباب اور پیسہ نہیں ،حیران و پریشان ہے۔جہیز کے ناسور او شادیوں میں حد سے زیادہ نمودو نمائش ،رسومات ِبد اور فضول خرچی کے سدباب کے لئے اب لکھنے سے بھی کچھ حاصل ہونے والا نہیں،تاہم اگر ہم معاشرے کے لوگ خود اپنے آپ کا اصلاح کرنے پر آمادہ ہوجائیں ،مسلمان ہونے کے ناطے دین اسلام کی تعلیم کو مدنظر رکھ کر سادگی ،میانہ روی اور قناعت پر راضی ہوجائیں ،قول و فعل کے تضاد کو مٹائیں اور اپنے ظاہر و باطن کو یکساں بناکر عزم و استقلال کے ساتھ متفقہ طور پر کچھ کرکے دکھائیں تو بہت حد تک معاشرے میں بہتری کا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔غریب اور متوسط طبقوں کی لڑکیوں کے ہاتھوں میں مہندی لگ جائے گی اورمایوس و مغموم لڑکیوں کا دُلن بننے کا خواب بھی پورا ہوجائے گا۔