طوفانی بارش میں اُڑنے والےڈرونز !،بنتے ہوئے سیارے پر مالیکیولز دریافت

سائنس دان اب تک مختلف کاموں کے لیے بے شمار ڈرونز تیارکرچکے ہیں ۔اس ضمن میں عام ڈرونز سے مختلف ڈرون تیا ر کیا گیا ہے یہ ایم 300 آرٹی کے ڈرون نہ صرف اپنے ہی ہیلی پیڈ نما ڈاکنگ اسٹیشن سے پرواز کرتا ہے بلکہ تیز بارش اور بر فباری میں بھی اپنی ہموار پرواز جاری رکھتا ہے۔ یہ ڈرون صنعتی اور فضائی معیارات کے تحت بنایا گیا ہے۔ اس کو ڈی جے آئی کمپنی نے بنایا ہے۔ یہ مکمل طور پر واٹر پروف ہے جسے موسم سے بچاؤ کے لیے ہرطرف سے بند کیا گیا ہےکمپنی کے مطابق یہ نیا ڈرون تیزبارش، بلندی، طوفانی ہواؤں، برفباری اور ژالہ باری کے ساتھ ساتھ منفی 20 کی سردی اور 50 درجے کی گرمی میں آسانی سے کام کرسکتا ہے۔ گردوغبار اور پانی سے محفوظ اس ڈرون کی آئی پی 45 ریٹنگ ہے ۔یہ فولڈ ہونے والے ڈرون میں سب سے نمایاں اور بہترین مقام رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ چارج ہونے کے بعد یہ مسلسل 41 منٹ تک پرواز کرسکتا ہے۔دوسرا اہم پہلو روبوٹک ڈرون ان اے باکس ہے ،کیوں کہ اس ڈرون کے ساتھ ڈاکنگ اسٹیشن بھی موجود ہے جو اس کی پرواز کو مکمل طور پر خودکار بناتا ہے۔ یہ باکس اتنا چھوٹا ہے کہ ڈبل کیبن گاڑی میں آسانی سے رکھا جاسکتا ہے۔ ڈاکنگ اسٹیشن میں ایک چھوٹا موسمیاتی اسٹیشن ہے، کیمرے نصب ہیں، اینٹیناہے اور اس کی بیٹری 25 منٹ میں تیزی سے چارج ہوجاتی ہے۔ یہ سات کلومیٹر کے فاصلے تک ڈرون سے رابطے میں رہتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا خود کار نظام موثر اور بہتر ین ہے۔

اُدھریورپی ماہرین ِ فلکیات نے تشکیل کے مرحلے سے گزرتے ہوئے ایک سیارے کے گرد ایسے دو اہم سالمات (مالیکیولز) دریافت کیے ہیں جو زندگی کی تخلیق سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سالمات ڈائی میتھائل ایتھر اور میتھائل فارمیٹ ہیں جن میں بالترتیب 9 اور 8 ایٹم ہوتے ہیں۔

اگرچہ اب تک یہ دونوں سالمات مختلف ستاروں اور گرد و غبار کے وسیع و عریض خلائی بادلوں میں دیکھے جاچکے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ جب انہیں کسی ایسے سیارے پر دریافت کیا گیا ہے جو ابھی بننے کے مرحلے سے گزر رہا ہے اور فی الحال ایک چپٹی پلیٹ (ڈِسک) جیسی شکل میں ہے۔ ڈائی میتھائل ایتھر کا کیمیائی فارمولا CH3OCH3 ہے۔ میتھائل فارمیٹ کا کیمیائی فارمولا CH3OCHO ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح یہ 8 ایٹموں والا سالمہ ہے۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ دوسرے سیاروں کی طرح ہماری زمین بھی تقریباً 4.5 ارب سال پہلے ایک چپٹی پلیٹ جیسی شکل کی تھی، جس میں مختلف گیسوں اور گرد و غبار کے علاوہ ایسے سالمات (مالیکیولز) بھی موجود تھے جنہوں نے زمین کی تشکیل مکمل ہوجانے کے بعد یہاں زندگی کی ابتداء میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ڈائی میتھائل ایتھر اور میتھائل فارمیٹ بھی ایسے ہی دو مالیکیولز ہیں جو شکر کے علاوہ، زندگی کی بنیاد بننے والے کئی دوسرے سالموں کی تشکیل میں تعمیراتی اینٹوں کا کام کرسکتے ہیں۔انہیں ’’آئی آر ایس 48‘‘ نامی ستارے کے گرد بنتے ہوئے سیارے کی پلیٹ (پلینٹ فارمنگ ڈِسک) میں دریافت کیا گیا ہے۔ یہ ستارہ ہم سے 444 نوری سال دوری پر ’’حامل الحیہ‘‘ (اوفیوکس) نامی جھرمٹ میں واقع ہے۔ اگلے کروڑوں سال میں یہ پلیٹ بتدریج سمٹتے ہوئے ایک گولے میں تبدیل ہوجائے گی اور ٹھنڈی ہوتے ہوئے، بالآخر ہماری زمین جیسے سیارے کی شکل اختیار کرلے گی۔ ’’آئی آر ایس 48‘‘ کے گرد بنتے ہوئے سیاروں میں زندگی سے متعلق یہ دو اہم مالیکیولز ہالینڈ اور جرمنی کے ماہرین نے چلی میں واقع ’’اٹاکا لارج ملی میٹر سب ملی میٹر ایرے‘‘ (ALMA) کہلانے والی ریڈیو دوربینوں کی مدد سے دریافت کیے ہیں۔

کئی مہینوں کے محتاط اور تفصیلی مشاہدات و تجزیئے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ ’’آئی آر ایس 48‘‘ سے آنے والی ریڈیو لہروں میں ڈائی میتھائل ایتھر اور میتھائل فارمیٹ کی واضح علامات موجود ہیں۔ البتہ ان میں سے بھی ڈائی میتھائل ایتھر کی مقدار خاصی زیادہ دیکھی گئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین جیسا کوئی سیارہ اپنی تشکیل سے گزرنے کے دوران زندگی کو وجود بخشنے کےلیے بھی آہستگی سے تیار ہورہا ہوتا ہے۔