بھارت میں حکومت کو مسلما نوںکی رتی بھر بھی فکر لاحق نہیں ۔ان کی تعلیم، احساس ِ تحفظ، سماجی بہبود، صحت مندی ، معاشی خوش حالی اور عزتِ نفس وغیرہ سے عملاًاس کاکوئی لینا دینا نہیں ۔اس کے برعکس محسوس یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی تما م تر توجہ بلکہ پہلی اور آخری ترجیح مسلمانوں کے عقائد، کھان پان ، پوشاک ، فیملی لاز جیسے نان ایشوز پر مرکوز ہے۔ گھر واپسی اور گائے کے ذبیحہ پر ممانعت اسی سلسلے کی دوکڑیاں ہیں ۔ اس کے بین بین مسلمانوں کے عائلی قوانین بھی بلاوجہ لائم لائٹ میں لائے جارہے ہیںاور تاثر یہ دیا جارہاہے گویا شادی شدہ مسلم خواتین کو اپنے شوہر ستا رہے ہیں ،ان کی حق تلفی کر رہے ہیں اور’’طلاق ثلاثہ‘‘ کے خنجر سے ذبح کر رہے ہیں جس پر بھاجپا حکومت کو ’’بھاری چنتا ‘‘ ہے۔ چناںچہ بعض مسلم خواتین کو عدالت عظمیٰ کے سامنے لا کھڑا کرکے میڈیا کو یہ کام سونپا گیا کہ مسلم معاشرے میںخواتین کے حقو ق پر شب خون مارا جارہاہے ۔ اس فرضی کہانی کو تا دیر اُچھا ل کر بالآخر پر سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بنچ نے تین دو کی اکثریتی رائے سے فیصلہ صادر کیا کہ چھ ماہ تک سہ طلاق پر پابندی عائد ہے اور اس وقفے میں حکومت اس بابت قانون وضع کرے ۔اس فیصلے کے ساتھ ہی عوامی حلقوں بحث ومباحثہ شروع ہوا۔ہر طرف سے ایسا چرچا ہو رہا ہے گویا بھارت کی ’’مظلوم مسلم ناری‘‘ کو آزادی مل گئی۔ایک طرف بی جے پی اُچھل رہی ہے کہ اُس کے دور حکومت میں یہ مسئلہ سلجھ گیا تو دوسری طرف عورتوں کو مبارک باد دی جارہی ہے کہ وہ اب آزاد ہیں۔در اصل موجودہ حکومت کو ’’طلاق ثلاثہ‘‘ پر پابندی لگانا مقصود نہیں بلکہ عوام کا دھیان اصل معاشی مسائل اوراخلاقی بحرانوںسے ہٹانا ہے۔ ذرا سوچئے یوپی میں آکسیجن کی عدم دستیابی کی وجہ ہے 70؍سے زائد بچوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سے قبل کہ تحقیقاتی عمل میں دراز قد کے لوگوں کے گریبان تک ہاتھ آجائے ؛ حکومت نے بھلائی اسی میں سمجھی کہ کوئی چرچے والا مسئلہ اُٹھا یا جائے۔ دوسری طرف بہارمیں سیلاب سے 341لوگوں کی موت ہوئی جسے یک چشمی میڈیا عوام کی نظروں سے اوجھل رکھاہواہے۔ بہار کے عوام نالاں ہیں کہ ابھی بنیادی چیزیں فراہم نہیں کی گئی ہیں اورحکومت ہے کہ چین کی بانسری بجاکر اپنی کامیابی کے خیالی قلعے فتح کرر ہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نوٹ بندی کے زیر اثرجی ڈی پی میں دو فی صد تخفیف کا انکشاف بھا جپاکے ’’اچھے دنوں ‘‘ کو ایک سنہرا سپنا بتا رہاہے۔
بھارت عورتوں کے کن حقوق کی بات کرتا ہے؟ کس نوع کی ناانصافی کی بات کرتا ہے؟کس طرح کے صنفی امتیازات پیدا کرنے کی بات کرتا ہے؟ بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاںرحم ِمادر میں لڑکیوں کے قتل نے کئی دہائیوں سے بھارتی سماج اور ثقافتی تانے بانے کا شیرازہ بکھر کر رکھ دیا ہے۔امریکی اخبار’’ہفنگٹن پوسٹ‘‘ میں شائع ہوئے ایک تحقیقاتی مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ گذشتہ سے 40سالوں میں لاکھوں لڑکیاں بھارتی سماج سے غائب کر دی گئیں۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق 6سال سے کم عمر لڑکیوں کی تعداد انتہائی کم ہو گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میںگذشتہ ایک عشرے میں 80لاکھ لڑکیوں کو دنیا میں آنے سے قبل ہی قتل کر دیا گیا ہے۔ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میںگذشتہ صدی میں 5کروڑ لڑکیوں کو رحم مادر میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔UNESCOکی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ 20سالوں کے درمیان مختلف طریقوں سے 10ملین بیٹیوں کو قبل از پیدائش یا بعد از پیدائش قتل کیا گیا ہے۔حال ہی میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ بھارت میں جنس کے تعین کے بعد روزانہ 2000بیٹیاں پیدا ہونے سے پہلے اسقاط حمل کے ذریعے ضائع کر دی جاتی ہیں۔ کیا یہ عورت ذات سے نا انصافی نہیں ہے؟ کیا اسے صنفی امتیاز نہیں کہہ سکتے؟کیا یہ عورتوں کے حقوق کی پامالی نہیں ہے؟ اگر بھارت ’’طلاق ثلاثہ‘‘پر پابندی لگانے کو مساوات مردوزن کا نام دیتا ہے تو 2011ء کی مردم شماری کے مطابق 6 تا 8سال تک کی لڑکیوں کی آبادی میں غیر ملکی اعتبار سے 72لاکھ کا فرق کیوں بتایا جارہا ہے؟کیا رحم مادر میں لڑکیوں کے قتل کو روکنا تکریم نسواں میں شامل نہیں ہے؟ اب اگر بھارت میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی، ناانصافی، حقوق کی پامالی کاکچا چٹھا کھولا جائے تونیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کی 86فی صد وارداتوں میں متاثرہ خواتین کے رشتے دار، پڑوسی، دفاتر میں کام کرنے والے یا پھر اُن کے افسران ملوث ہوتے ہیں۔ کیا ایسے افراد کی اس ذہنی گندگی کو دور کرنا ملکی ترقی میں شامل نہیں ہے؟ گذشتہ ایک ڈیڑھ دہائی کے دوران بھارت میں خواتین پر تشدد، زیادتی، اغوا اور شوہروں کے ظلم کا نشانہ بنانے کی3 لاکھ 70ہزار سے زائد شکایتیں درج کرائی گئیں ہیں۔ جس میںاب 9فی صد اضافہ بھی ہوا ہے۔ اگر ملکی ترقی مقصود ہے تو اس طرح کی شکایات میں 9فی صد کا اضافہ کیسے ہوا؟سرکاری ریکارڈ کے مطابق سال 2014ء میںبھارت میںزنا بالجبر کی 33707شکایتیں درج کرائی گئیں۔ بھارت کے دارلحکومت نئی دہلی میں سب سے زیادہ 1813 واقعات درج ہوئے اور ممبئی 607 واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھا۔ تحقیق کے مطابق بھارت میں جنسی زیادتیوں کا نشانہ بننے والی 14102(تقریبا 38فی صد) خواتین ایسی تھیں جن کی عمر واردات کے وقت 18سال سے بھی کم تھی۔ دہلی میں خواتین کی تعداد 90لاکھ 80ہزار ہے اور اس حساب سے 2015ء میں یہاں عصمت دری کے مقدمات کی شرح 24فی صد رہی۔ مدھیہ پردیش میں 2015ء میں سب سے زیادہ 4335مقدمات درج ہوئے ہیں۔جناب! طلاق ثلاثہ تو دور کی بات ہے اس سے قبل اُن معصوم لڑکیوں کو انصاف دلانے کی بات کیجیے جن کے مقدمات عدالتوں میں دھول چاٹ رہے ہیں۔ بھارت میں عورت ذات پر ہورہے ظلم و تشدد،زیادتی، عصمت دری اور رحم مادر میں پلنے والی بیٹی کے قتل کے خلاف ٹھوس اقدامات اُٹھائے اور بنے بنائے قوانین کو نافذ کیا جائے ۔
بھارت ایک ایسا دیش ہے جو دیویوں کی پرستش کر کے دیویوں سے مرادیں طلب کرتا ہے یعنی بھارت میںدیویوں کو خدا کا روپ دیا جاتا ہے، جن میں بھگوتی درگا، ماں ویشنو دیوی،ماں چنت پورنی،ماں کالی،ماں سروتی،ماں لکشمی ایسی دیویاں ہیں جن کو بھارت میں پوجا جاتا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ بھارت میں جو مرتبہ عورت کو دیا جاتا ہے دنیا میں کہیں اور نہیں دیا جاتا ہے مگر جب حقائق پر سے پردہ اُٹھ جاتا ہے تو بھارت کی وہ دیوی جس کو خدائیت کا درجہ حاصل ہے ،سیکولر ازم اور مساوات مر وزن کے کھوکھلے نعرے لگانے والوں کا اصل چہرہ بابا گرمیت سنگھ اور بابا آسارام جیسے کرداروں سے سامنے آرہاہے ۔ ان ڈھونگی لوگوں اور راج نیتاؤں کے حوالے سے لرزہ خیزجنسی زیادتیوں کی داستانیں دنیا کے سامنے آچکی ہیں۔جنسی زیادتیوں میں بھارت نے نیو یارک، لندن، پیرس اور بیجنگ کو بھی پیچھے چھوڑا ہے۔ جیسا کہ اوپر کی سطور میں کہا گیا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کی 86فی صد وارداتوں میں متاثرہ خواتین کے رشتے دار،پڑوسی،دفاتر میں کام کرنے والے یا پھر اُن کے Bossesملوث ہوتے ہیں۔ گذشتہ ایک ڈیڑھ دہائی کے دوران بھارت میں خواتین پر تشدد، زیادتی، اغواء اور شوہروں کے دست ِتظلم کا نشانہ بنانے کی3 لاکھ 70ہزار سے زائد شکایتیں درج کرائی گئی ہیںجس میںاب 9فی صد اضافہ بھی ہوا ہے۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق سال 2014ء میںبھارت میںزنا بالجبر کی 33707شکایتیں درج کرائی گئیں۔ بھارت کے دارلحکومت نئی دہلی میںسب سے زیادہ 1813 واقعات درج ہوئے اور ممبئی 607 واقعات کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھا۔ تحقیق کے مطابق بھارت میں جنسی زیادتیوں کا نشانہ بننے والی 14102(تقریبا 38فی صد) خواتین ایسی تھیں جن کی عمر واردات کے وقت 18سال سے بھی کم تھی۔
ستمبر ۲۰۱۶ء میں نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق ہندوستان میں عصمت دری کے 34651واقعات درج کیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں 6سال سے 60سے زائد عمر تک کی عورتیں شامل ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ 18سے 30سال کی عمر کی عورتوں کی تعداد زیادہ ہے،جن سے عصمت دری کے واقعات پیش آئے ہیں، یہ تعداد 17000بنتی ہے۔کل تعداد یعنی34651 میں 33098 واقعات ایسے ہیں جو عصمت دری کے معاملات کے تحت درج ہوئے ہیں۔جس کی شرح 95.5بنتی ہے۔اس رپورٹ میں مدھیہ پردیش اور دہلی بقیہ تمام ریاستوں میں سر فہرست ہے۔مدھیہ پردیش میں 4391عصمت دری کے واقعات درج ہوئے ہیں۔ جب کہ2199 واقعات دہلی میں درج کیے گئے ہیں۔2015 میں عورتوں کے خلاف جرائم(جنسی تشدد، جنسی استحصال، جنسی زیادتی) کی تعداد3.27لاکھ ہے۔ جس میں 1.3لاکھ واقعات صرف عورتوں کے جنسی تشدد پر مشتمل ہیں؛ جس میں 1.2لاکھ واقعات بقیہ تمام ریاستوںپر مشتمل ہیںاور 9445 union territoriesمیں پیش آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2015میں بھارت میں عصمت دری کے جو واقعات درج ہوئے ہیں اُن میں مہاراشٹرا میں 4144،راجستھان میں 3644،اُتر پردیش میں 3025واقعات پیش آئے ہیں۔ جب کہ اُڈیشہ میں2251،آسام میں1733،چھتیس گڑھ میں1560،کیرلا میں1256،ہریانہ میں1070اور بہار میں 1041 واقعات رونما ہوئے۔
اب جہاں تک عورتوں کے ساتھ جنسی استحصال کا تعلق ہے ۔مہاراشٹر میں16989،مدھیہ پردیش میں12887،اُترپریش میں11343، اُڈیشہ میں9359،راجستھان میں8873،آندھرا پردیش میں8049،تلنگانہ میں6044وقعات درج ہوئے ہیں۔ جب کہ چھتیس گڑھ میں ان کی تعداد3500،گجرات 1743اور بہار میں1738 ہے۔آسام میں سب سے زیادہ6636 ہے۔ پنجاب میں2164،تامل ناڑو میں1633،ہماچل اور اُتراکھنڈ میں بالترتیب623,737ہے۔دہلی میں9104کیس درج ہوئے ہیں۔
اس طرح ملک بھر میں خواتین کے خلاف جرائم کے جو تمام تر واقعات پیش آئے، ان میں 40فیصد واقعات چار ریاستوں اتر پردیش،مغربی بنگال،مہاراشٹر اور راجستھان کے کھاتے میں درج ہوئے۔ اسی طرح ملک بھر میں عصمت دری کے کل 34651واقعات ہوئے۔پورے ملک میں عصمت ریزی کے کل واقعات میں بالترتیب12.7 فیصد اور 12فیصد کے ساتھ مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرپہلے اور دوسرے نمبر پر رہے۔جبکہ راجستھان اور اتر پردیش 10.5 فیصد اور 8.7فیصد کے ساتھ تیسرے اور چوتھے مقام پر نظر آئے۔اس طرح ملک بھر میں عصمت ریزی کے جو واقعات پیش آئے ان میں 43فیصدواقعات مذکورہ چار ریاستوں مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، راجستھان اور اتر پردیش میں پیش آئے۔ قومی دارالسلطنت دہلی نے،جسے بعض مرتبہ ریپ کی راجدھانی بھی کہا جاتا ہے،بدقسمتی سے 2015 میں بھی اپنی شرمناک پوزیشن برقرار رکھی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق 2015میں دہلی میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ رہی اور ہر گزشتہ سال کے مقابلے عصمت دری کے واقعات گھٹنے کے بجائے بڑھتے ہی رہے۔ 2013میں دہلی میں عصمت دری کے 1441واقعات درج کئے گئے تھے جو کہ 2014میں بڑھ کر 1813تک پہنچ گئے اور 2015کے اعدادوشمار بتارہے ہیں کہ قومی راجدھانی میں عصمت ریزی کے 2199واقعات پیش آئے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ مقامی خواتین ہی نہیں بلکہ بیرنی ممالک سے آنے والی سیاح خواتین بھی آئے دن بھارت میں جنسی درندگی کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔ سال 2015ء کے آغاز میں ایک امریکی سیاح خاتون کو دھرم شالہ میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کے بعد ایک امریکی فیشن میگزینMOREنے بھارت کو ایک شرمناک لقب ’’بھارت دنیا کا جنسی دارالحکومت ‘‘سے نوازا ہے۔ اسی نوع کا ایک اور واقعہ ہے کہ امریکہ سے بھارت آئی ایک طالبہ نے کھلے الفاظ میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ’’بھارت سیاحوں کے لیے جنت ہے مگرخواتین کے لیے جہنم‘‘ ہے ۔ یہ الفاظ اُس نے بھارت کا دورہ کرنے کے بعد لکھے تھے۔بھارت میں عام خواتین کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو کہ بھارتی اخبارات میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوئی خبر نہ آتی ہو۔تحقیق کے مطابق بھارت میں خواتین سیاحوں کی آمد میں 35فی صد کمی واقع ہو ئی ہے۔نیشنل کرائم ریکارڑ بیورو کے مطابق بھارت میں روزانہ اوسطاًجنسی زیادتی کے 92مقدمے درج ہوتے ہیں۔ یہ ہے بھارتی ناری کی اصل داستان۔ طلاق ثلاثہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، لیکن جنسی زیادتیوں کی شرح میں روز افزوں اضافہ یقینا پریشان کن ہے ،جس کے لیے حکومت کو سخت اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے نہ کہ مسلم خواتین کے مسئلے کو خواہ مخواہ اچھال کر یکساں سوال کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کر نے میں اپنی انرجی ضائع کر نی چاہیے ۔ خود مسلم اقلیت کو بھی چاہیے کہ اپنے گھر کی خبر لے کر ملّی سطح پر طلاق ثلاثہ سمیت حقوقِ نسواں کے حوالے سے ایک واضح شرعی نقطہ ٔ نظر اختیار کر کے ا صلاحِ احوال کی جانب اپنی توجہ دیں تاکہ اغیار کو ہمارے نجی مسائل میں ٹانگ اڑانے کا جواز نہ ملے ۔
رابطہ :پی۔ایچ۔ڈی اسکالر،یونیورسٹی آف حیدرآباد
ای میل[email protected]
���������