طبابت کا مقصد کمائی نہیں خدمت ہونا چاہئے

اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کچھ اس طرح  سے کی ہے کہ صحت مند ہونے کی صورت میں یہ دنیا کی طاقتور سے طاقتور شئے کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اگر صحت بگڑ جائے تو انسان محتاج اور مفلس بن جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جہاں بیماریاں پیدا کی ہیں وہیں ان بیماریوں کی دوا بھی پیدا کی ہے۔ رسول اللہ ؐنے فرمایا ہے کہ اللہ رب العزت نے بڑھاپے کے سوا ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔ پھر انسان اللہ کی عطا کردہ عقل و شعور اور سائنسی ٹیکنالوجی کی مدد سے ان ادویات کودریافت کر کے انہیں انسانیت کی بقا کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مختلف انسانوں کو مختلف مقامات سے نوازا گیا ہے ،جس کو جو مقام عطا کیا گیا ہے، اس پر اتنی ذمہ داریاں بھی ڈالی گئی ہیں اور اسی حساب سے انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔
 حدیث پاک میں آیا ہے کہ تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جس سے لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچے ۔دیکھا جائے تو ڈاکٹر سے ایک انسان کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہے ۔ایک ڈاکٹر اس وقت ایک انسان کی مدد کرتا ہے جب وہ سب سے زیادہ محتاج ہوتا ہے کیونکہ صحت کا بگڑنا انسان کو سب سے سے زیادہ محتاج اور بے بس بنا دیتا ہے۔صحت بگڑنے کی صورت میں انسان قدم قدم پر محتاجی محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر یا ایک معالج کو خیر الناس جیسے انعام سے نوازا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ ڈاکٹر صاحبان واقعی اس انعام اور لقب کے مستحق ہیں؟ آجکل کے ڈاکٹر صاحبان کے دو چہرے ہیں، ایک وہ جس کا استعمال وہ سرکاری ہسپتالوں میں کرتے ہیں جہاں وہ ایک بیمار سے مسکراتے ہوئے بات کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور جہاں ان کے ماتھے پر جھریوں کا جھرمٹ ہوتا ہے، جہاں وہ ایک ساتھ درجنوں بیماروں کو دیکھتے ہیں اور بہت جلدی میں رہتے ہیں ،کئی دفعہ بیمار اپنی بیماری سب کے سامنے کہنے سے شرماتا ہے اور بغیر اپنی بیماری کہے نکلنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اور ایک وہ چہرہ ہے جس کا استعمال ہمارے ڈاکٹر صاحبان اپنے نجی کلنکوں پر کرتے ہیں ،جہاں پر یہ ڈاکٹر مسکراتے ہوئے نظر آتے ہیں اور جہاں بہت زیادہ نظم و نسق کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ آخر ان ڈاکٹر صاحبان کے رویے میں اس قدر تبدیلی کیوں کر آتی ہے لیکن جواب ہم سب جانتے ہیں کہ وہاں یہ حضرات بیماروں سے فیس وصول کرتے ہیں ۔اسی لئے وہاں اس طرح کا رویہ اپنایا جاتا ہے ۔چاہے کسی بیمار نے دو دن پہلے ہی ٹیسٹ کیوں نہ کیے ہوں لیکن نجی کلینکوں پر یہ سارے ٹیسٹ دہرانے کے لیے کہا جاتا ہے بنا یہ دیکھے کہ بیمار کی مالی حالت کیا ہے اور اس کے بعد ہزار دو ہزار کی ادویات لکھ کر بیمار کی کمر توڑی جاتی ہے کیونکہ اکثر ڈاکٹر صاحبان ان ادویات کا کمیشن وصول کرتے ہیں حالانکہ معالج کا پیشہ پیسوں کے لیے نہیں بلکہ خدمت کے لئے اپنایا جاتا ہے لیکن موجودہ دور میں ہمارے ڈاکٹر صاحبان خدمت کا پہلو بھول ہی گئے ہیں۔
 ڈاکٹر ،جسے مسیحا سمجھا جاتا ہے، اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے؟ جو ڈاکٹر چھ گھنٹے تک سرکاری ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دے کر رات کے بارہ بارہ بجے تک اپنے نجی کلینکوں میںمصروف رہتے ہوں، ان سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ اگلے دن وہ پھر سے احسن طریقے سے سرکاری ہسپتالوں میں اپنے فرائض انجام دینگے کیونکہ کچھ بھی ہو ڈاکٹر بھی تو انسان ہی ہوتے ہیں اور انسانوں کے لیے آرام نہایت ضروری ہے تاکہ انسان بنا کسی رکاوٹ کے اپنا کام کریں۔ مسلسل کام کا ہی نتیجہ ہے کہ آئے دن ایسی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ ڈاکٹروں کی لاپرواہی سے بیمار کی جان چلی گئی۔ واضح رہے کہ ایسے واقعات زیادہ تر نجی ہسپتالوں میں رونما ہوتے ہیں ۔کبھی کبھی لگتا ہے کہ یہ ہسپتال نہیں ذبح خانے ہیں۔
 اس سب کا ایک ہی علاج ہے کہ ہمارے ڈاکٹر صاحبان کو سرکاری نوکری پر ہی اکتفا کر لینا چاہیے کیونکہ انہیں اس کام کے لئے اچھی خاصی تنخواہ دی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر یہ ڈاکٹر صاحب نجی پریکٹس نہ کریں گے تو عوام کو بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس نجی پریکٹس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ اس میں صرف اور صرف کاروبار اور پیسوں کا پہلو غالب آ جاتا ہے جبکہ خدمت اور ہمدردی کا پہلو ختم ہو جاتا ہے اور یہ ڈاکٹر صاحبان اپنی پوری توجہ اپنے نجی کلینکوں پر ہی مبذول کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معمولی سی جراحی کے لیے سرکار ہسپتالوں میں چھ چھ مہینوں کا وقت دیا جاتا ہے جبکہ نجی ہسپتالوں میں بڑی سے بڑی سرجری بغیر کسی تامل کے موٹی رقم کے عوض کی جاتی ہے۔ سرکاری ہسپتال میں جس سرجری کے لیے ایک ٹیم ہوتی ہے، نجی ہسپتالوں میں وہی سرجری ایک ڈاکٹر اکیلے کرتا ہے۔ اتنا ہی نہیں نقلی ادویات کا جو کاروبار عروج پر ہے، اس میں بھی براہ راست یا بلاوسطہ طور پر ہمارے ڈاکٹر صاحبان کا ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ ادویات تو ڈاکٹر صاحبان ہی لکھتے ہیں ،وہ چاہیں تو نقلی ادویات کے اس کاروبار کو ختم کر سکتے ہیں جو انسانی جانوں کی قیمت پر کیا جاتاہے۔
 آخر ہمارا ضمیر کب بیدار ہو گا ؟اور کب ہمارے ڈاکٹر صاحبان سمجھیں گے کہ ان کے پیشے میں پیسوں سے زیادہ خدمت کی اہمیت ہونی چاہیے؟ ہمارے ڈاکٹر صاحبان کتنی خدمت کرتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج سے دو مہینہ پہلے جب کرونا کی وجہ سے ہسپتال جانا مشکل تھا تو راقم نے تقریباً ایک درجن ڈاکٹروں سے فون پر طبی رائے لینے کی کوشش کی لیکن آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ کسی بھی ڈاکٹر صاحب نے نہ ہی فون اٹھانے کی اور نہ ہی مسیج کا جواب دینے کی زحمت گوارا کی۔ شاید اس لیے کہ یہ کام انہیں فیس کے بغیر کرنا تھا جس کے لیے وہ قطعی طور پر تیار نہیں تھے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جہاں یمن کے ایک ڈاکٹر صاحب نے اپنی گاڑی پر لکھ دیا تھا کہ اگر آپ کو طبی رائے مطلوب ہے تو آپ مجھے روک سکتے ہیں ۔اس طرح کا ضمیر ہم میں کب بیدار ہو گا جب ہم یہ سمجھ پائیں کہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہے بلکہ لوگوں کے کام آنا ہمارا فرض ہے جیسا کہ اوپر حدیث پاک میں فرمایا گیا بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے کام آئے ۔
جہاں تک جموں و کشمیر کی بات ہے ،یہاں کے اکثر ڈاکٹر صاحبان قابل اور ذہین ہیں۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں اور آئے روز انہیں مختلف انعامات سے نوازا جاتا ہے ۔حالیہ کرونا وائرس کے دوران بھی ڈاکٹروں کے کام کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے سماج میں نیک، ہمدرد، اور خدمت گزار ڈاکٹروں کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسے بھی ڈاکٹر صاحبان ہیں جو فون پر بھی بیمار کو سنتے ہیں اور مشورہ دیتے ہیں ۔اس کے لیے ان کا فون نمبر ہونا ضروری ہے نہ کہ جان پہچان لیکن ایسے ڈاکٹر صاحبان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔
ڈاکٹر صاحبان کے اس معزز طبقے سے میری ایک ہی گزارش ہے کہ خدا را اس غریب عوام پر ترس کھا ئیے۔ اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بیماروں کی خدمت کیجئے کیونکہ اس کے عوض آپ کو اللہ کے دربار میں اجر عظیم ملنے والاہے۔اس انعام اور اجر کے آگے یہاں کی دولت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ مفت میں لوگوں کا علاج کیجئے بلکہ اس میں اعتدال رکھنا ضروری ہے ۔بیمار کی مالی حالت کا لحاظ رکھتے ہوئے ادویات کم اور معیاری تجویز کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ضروری ٹیسٹ کروانے سے اجتناب کیا جائے ۔مزید یہ کہ کوشش کیجئے کہ خندہ پیشانی اور مسکراتے ہوئے بیماروں سے پیش آئیں جس کی بہت زیادہ کمی محسوس کی جا رہی ہے تاکہ بیمار آپ کو دیکھ کر ہی راحت کی سانس لے کیونکہ وہ بیمار بھی بالکل آپ ہی طرح ایک انسان ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اس کی طبیعت بگڑ چکی ہوتی ہے جو کسی کی بھی اور کسی بھی وقت بگڑ سکتی ہے۔ ہم سب کو ہر وقت یہ بات ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ ہم سب کو اللہ رب العزت کے دربار میں اپنی ہر عمل کا حساب دینا ہے ۔بقول شاعر  ؎
دور دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو 
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
پتہ۔اویل نورآباد،کولگام کشمیر، ای میل۔[email protected]