طارق شبنم کی افسانوی دنیا میری بات

ڈاکٹر غلام نبی کمار

اردو افسانے کے لئے جس قدر جموں وکشمیر میں ماحول سازگار ہے،اس قدر اردو ناول کے تئیں ماحول اور وہ فضا نظر نہیں آتی۔اسباب جاننے کی ضرورت نہیں،کیونکہ یہ فطرت کا خاصہ ہے کہ ہمارے اکثر نوجوان اپنے بزرگوں کو جس راستے پر قدم جماتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اُسی راستے اور نقش قدم وہ بھی چلنا پسند کرتے ہیں۔بہرکیف مجموعی طور پر دیکھیں تو اس سے جموں و کشمیر میںافسانوی ادب کی پروازپر کوئی آنچ نہیں آئی۔بلکہ افسانوی ادب یہاں دن بہ دن پھل پھول رہا ہے۔جموں و کشمیر میں اردو افسانہ نگاری کے میدان میں طبع آزمائی کرنے والوں کا جمِ غفیر ہے۔پریم ناتھ پردیسی سے لے کر حامدی کاشمیری تک اور نور شاہ سے طارق شبنم تک افسانہ نگاروں کی ایک لمبی قطار ہے، جس میں نوجوان افسانہ نگاروں کی آمد سے توازن آتا جارہا ہے۔تاہم نوجوان نسل کی افسانوی تخلیقات کا کتابی صورت میں منظر عام پر نہ آنا لمحہ فکریہ ہے۔لیکن یہاں پر ایک اہم بات کا اظہارکرنا ہی پڑتا ہے کہ طارق شبنم جیسے افسانہ نگار آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں جو نہ صرف لکھنے پڑھنے کا ذوق رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنی تحریروں کو آئندہ نسل کے لیے ورثے کے طور پر محفوظ رکھنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔

راقم الحروف کی طارق شبنم کے ساتھ شناسائی کو تقریباً ایک دہائی گزری ہے۔ اس لیے اس قلیل عرصے میں جن تخلیق کاروں کو قومی سطح پر سرگرم عمل دیکھا ہے،ان میں ایک نام طارق شبنم کا بھی ہے۔جنہو ں نے اپنی تخلیقات کی اشاعت کے لیے اردو روزناموں اورموقر اردو رسالوں کو ذریعہ بنایا ہوا ہے۔اسی پر اکتفا نہیں ہوا تو موجودہ زمانے میں ہلچل پیدا کرنے والا فیس بک بھی ان کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکا۔جہاں موصوف نے ولراردو ادبی فورم کے ذریعے کووڈ کے دور میں مقامی اور قومی سطح پر افسانہ نگاروں کا ایک افسانوی ایونٹ قائم کرکے انھیںمتحرک اور فعال رکھا،بلکہ مبصرین کے لیے بھی غذا کا سامان مہیا کیا۔فیس بک پر منعقدہ دو برسوں تک مسلسل منعقد ہونے والے اس افسانوی ایونٹوں میںشائع ہوئے افسانوں کی دو کتب منظر عام پر آچکی ہیں جنہیں ادبی حلقوں میں کافی پزیر آئی ملی۔طارق شبنم صرف افسانے ہی نہیں لکھتے،بلکہ افسانوں پر بات کرنے کی مہارت بھی رکھتے ہیںاور یہ ہنر بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔

طارق شبنم کے افسانوں کا ایک مجموعہ’’گمشدہ دولت‘‘2020ء میں شائع ہوا۔ جس میں ان کے اٹھائیس افسانے شائع ہوئے ہیں۔اس کتاب کا پیش لفظ نور شاہ نے لکھا ہے اور اس کے علاوہ’’طارق شبنم ایک ہونہار افسانہ نگار‘‘کے بعنوان ڈاکٹر اشرف آثاری کا مضمون بھی اس میں شامل ہے۔طارق شبنم کی افسانہ نگاری پر کئی نوجوان اسکالروں نے تجزیاتی اور تنقیدی مضامین لکھے ہیں جس سے ان کی افسانوی جہت نمایاں ہوتی ہے۔طارق شبنم کے پہلے افسانوی مجموعے میں’’بے درد زمانہ، اندھیرے اجالے،صدمہ، آبرو، فریبی اُجالا، کہانی کا المیہ،دہشت کے سائے، اعتبار، انتظار، پشیمانی، شکست، اونچی اُڑان،مہربان کیسے کیسے، دھوپ چھاؤں، آخری جام،نسخہ کیمیا،وغیرہ افسانے شامل ہیں۔ان کے افسانوی موضوعات کے بارے میں کشمیر کے ایک بزرگ افسانہ نگار نور شاہ یوں رقمطراز ہیں:
’’طارق شبنم کے اکثر افسانوں کے موضوعات سماج کے درماندہ اور پسماندہ لوگوں کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں محبت کی چاشنی بھی ملتی ہے اور انسانی نفرتوں کی عکاسی بھی نظر آتی ہے۔ طارق شبنم کے اکثر افسانوں کے کردار کشمیر کی کھردری زمینی سطح سے ابھرتے ہیں۔کبھی کبھی ان کے افسانے پڑھ کر لگتا ہے جیسے وہ اپنے گھر کی کھڑکی سے باہر کی دنیا میں جھانک رہے ہوں، باہر بکھری ہوئی کہانیوں کو اپنی نظروں میںسمیٹنے کی کوشش کر رہے ہوں،حالات و واقعات کا جائزہ لے رہے ہوں،پھر وہ کھڑکی بند کرکے قلم اور کاغذ لے کر اپنے موضوعات میں رنگ بھرنے لگ جاتے ہیں‘‘۔ (گمشدہ دولت،ص7)

نور شاہ کی مذکورہ رائے بڑی اہمیت کی حامل ہے جس سے افسانہ نگار کے افسانوی موضوعات اوردائرہ کار کا اندازہ ہوتا ہے۔’بے درد زمانہ‘میں طارق شبنم نے ایک بے بس،سیدھی سادی،غریب خاندان کی مچھیرن( سندری) کی زبانی اپنے آس پاس موجود خود غرض، فریبی اور بے ضمیر لوگوں کی تصویر کشی کی ہے۔’اندھیرے اجالے‘ایک علامتی کہانی ہے جس کے پس پردہ کشمیر اور کشمیریوں کی ماضی کی کربناکی کی داستان پوشیدہ ہے۔’صدمہ‘ بھی اسی نوعیت کا افسانہ ہے ۔’کہانی کا المیہ‘دراصل دنیا میں آدم زاد کی بدخواہی،ریاکاری اور مکروفریبی کا المیہ ہے،’انتظار‘ میںامیری اور غریبی یعنی زندگی کے دو اہم پہلوؤں کو ابھارا گیا ہے۔’گمشدہ دولت‘ میں افسانہ نگارنے اُن حقیقتوں کو آشکار کرنے کی کوشش کی ہے جن سے دنیا اب بے بہرہ نظر آتی ہے،بڑی بڑی چاہتوں اور ارمانوں کی تکمیل میں انسان چھوٹی چھوٹی اور زندگی کی بنیادی خوشیوں سے محروم ہوگیا ہے،اس افسانے سے بہت سی گتھیاں سلجھتی ہیں۔’نسخہ کیمیا‘میں مصنف نے کورونا کے دنوں میں لاک ڈاؤن کے اثرات کو علامتی انداز میں بڑے خوبصورت اسلوب میں تحریرکیا ہے۔اس افسانے میں کرونا کے دوران لوگوں کو پیش آئی سختیوں اور تکالیف کی بہترین عکاسی کی گئی ہے ۔

طارق شبنم کے افسانوں کا بنیادی موضوع کشمیر اور کشمیریوں کے زندگی کے مسائل و مصائب ہیں۔انہو ں نے اپنے آس پڑوس کے ماحول اور سیاسی و سماجی تناظر میں انسانی زندگی کے نبض کو ٹٹولنے کی کامیاب سعیٔ بلیغ کی ہے۔ایک کہانی کار جس ماحول اور جن حالات میں سانس لیتا ہے اگر وہ اُس ماحول اور اُن حالات کی ترجمانی کرنے سے قاصر رہے تووہ کوئی آفاقی نظریہ پیش کرنے سے بھی محروم ہوسکتا ہے۔طارق شبنم کے ا فسانے ایک قاری کو زندگی کی ہوبہو تصویر دکھاتے ہیں۔جس طرح ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اسی طرح افسانہ نگار نے زندگی کے منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں کو پیش کیا ہے۔

طارق شبنم اردو افسانے کا ایک اہم نام ہے جنہو ں نے گذشتہ برسوں میں ادبی حلقوں میںاپنی ایک منفرد شاخت قائم کی ہے۔مستقل افسانہ لکھنے والوں میں ان کا نام احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ’بے سمت قافلے‘چوالیس افسانوں پر مشتمل ہے۔جس کے چند اہم افسانوں میں’ ’اُڑن طشتری،ڈینجر زون،پچھتاوا،میٹھا زہر،بے سمت قافلے،بے اعتنائی،لمحہ گریزاں،سوشل ڈسٹنس،بکھری کہانیاں‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان افسانوں کی تعداد سے طارق شبنم کی افسانہ لکھنے کی رفتار واضح ہوجاتی ہے۔’ٹھنڈا جہنم‘جومجموعہ’بے سمت قافلے‘کا پہلا افسانہ ہے ،میں سرحد پر تعینات فوجیوں کی زندگی اور ان کے حالات کو موضوع بنایا گیا ہے ،نیز ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران انھیں کس قدر ،تکلیفوں اورمسائل کا سامناکرنا پڑتا ہے،کی بھی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ ’اڑن طشتری‘ میں انسان کے فرسودہ اورروئے زمین پر انسان اور انسانی املاک کو تباہی وبربادی کے دہانے پر پہنچانے والے ذخیروں کا تذکرہ عمدہ طریقے سے کیا گیا ہے۔’ڈینجرزون‘افسانہ میں زمین پر آدم زاد کی نامرادیوں، سرزدخطاؤںاورغفلت شعاری کا ذکر ملتا ہے۔’بے سمت قافلے‘بھی ایک عمدہ افسانہ ہے جس میں ہنستی کھلتی بستی اور انسانوںجن میں عورتیں،مرد،بوڑھے،بچے اور جوان سب پر یکسر آسمان ٹوٹ پڑتا ہے،چند دردندہ صفت انسان جن کا نہ کوئی دین و ایمان ہوتا ہے اور نہ انسانیت نام کی کوئی چیز ،بلکہ وہ ہنستی کھلتی زندگیوں کے ساتھ کھیل کر اپنے مفاد کی سیڑھی بنا لیتے ہیں۔مجموعی اعتبار سے دیکھیں تو طارق شبنم نے اپنے افسانوں میںآپسی محبت اور بھائی چارے کوقائم رکھنے اورانسانی زندگی کی قدرو قیمت کا احساس دلانے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔وہ اپنے اکثر افسانوں میں انسانی جانوں کے زیاں پر افسوس کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔طارق شبنم نے انسانیت سے عاری سماجی ٹھیکداروں پرسخت طنز کے وار کیے ہیں۔جو بظاہر دکھنے میں آدم کی اولاد لگتے ہیں لیکن کرتوت ان کے اتنے بھیانک اور خوف ناک ہوتے ہیں کہ جس سے اولادآدم بھی شرمندہ ہوں۔

طارق شبنم کے بیشتر افسانوں نے کشمیر کی سرزمین پر جنم لیا ہے،بعض کا موضوع افراد وکردارکا انفرادی کرب ہے جوزمینی لوگوں کے رویوں سے وجود میں آیا ہے۔بعض کا موضوع آفاقی ہے جس نے دنیا کی پوری دھرتی کوبیک وقت نہ صرف متاثر کیا بلکہ حیران و شش و پنج میں مبتلا کر دیا۔’سوشل ڈسٹنس‘اور’نسخہ کیمیا‘اسی نوعیت کی کہانیاں ہیں ۔افسانہ کے لئے موضوع کا اختراع کیسا کرنا ہے ، اسے کہانی کا روپ کیسا دینا ہے اورپھر اس میںفنی اور تکنیکی اعتبارسے ہنرمندی کے ساتھ کیسے جان بخشنی ہے،انھیں اس کابہ خوبی علم ہے۔گویاان کے افسانے یہ احساس دلاتے ہیں کہ افسانہ نگار کو اپنے سماج اور معاشرے کی ہر ہلچل پر گہری نظر ہے۔

طارق شبنم کا افسانوی مجموعہ’بے سمت قافلے‘ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے جو نہ صرف جموں و کشمیر میں اردو افسانے کی روایت کو آگے بڑھانے کی ایک کڑی ثابت ہوگا بلکہ اس سے اردو افسانہ کی دنیا میں زرخیزی اور استحکام کا پیغام بھی ملے گا۔
[email protected]