ضرورت مندوں کی دلجوئی | حکومت اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو

وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب میں کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کیلئے لاک ڈائون میں 3مئی تک توسیع کرنے کے دوران برملا کہا کہ انہیں عوامی مشکلات کا ادراک ہے اور20اپریل کے بعد صورتحال کا جائزہ لیکر کچھ سرگرمیاں بحال کرنے کی مشروط اجازت دی جائے گی۔وزیراعظم کے اس اعلان کے بعد آج وزارت داخلہ کی جانب سے باضابطہ طور ایک تفصیلی حکم نامہ آفات سماوی سے نمٹنے کے قومی قانون کے تحت جاری کیا جس میں چند نرمیوں کا ذکر ہے۔اس حکم نامہ میں جن چید ہ سرگرمیوںکی بحالی کا ذکر ہے ،وہ ویسے بھی کم و بیش بحال ہی تھیں۔جیسے کریانہ ،سبزی اوردودھ کی دکانیںوغیرہ۔اب گوشت ،مرغ اور مچھلی فروخت کرنے کی بھی اجازت ملے گی۔اسی طرح تعمیراتی ورکروں کا کسی حد تک خیال رکھ کر طبی ڈھانچہ کی تعمیر کی اجازت دی گئی ہے ،نیز چند دیگر شعبہ جات میں انفرادی کام کرنے کی بھی اجازت دینے کے علاوہ خصوصی اقتصادی زونوں میں اور شہروں سے باہر کارخانے چلانے کو بھی ہری جھنڈی دکھائی گئی ہے تاہم ریل بس اور ہوائی سفر بدستور بند رہے گا۔
بادی النظر میں یہ چند راحتی اقدامات اچھے لگتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے غریب طبقہ کا بھلا ہونے والا نہیں ہے ۔ملک میں یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے 30کروڑ رلوگوں ،جنہیں عرف عام میں دہاڑی دار مزدور کہا جاتا ہے اور جو یومیہ مزدوری کرکے ہی اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالتے ہیں ،کولاک ڈائون کی وجہ سے جانوں کے لالے پڑے ہیں۔تعمیراتی ورکروںکی تعداد کروڑوں میںہے اور صرف طبی ڈھانچہ کی تعمیر ان سب لوگوں کو روزگارفراہم  نہیں کرسکتا ۔اسی طرح دیگر سیکٹروں میں بھی کروڑوں کی تعداد میںلوگ کام کررہے ہیں جن کا روزگار اس وقت ختم یا بری طرح متاثر ہوچکا ہے ۔چند روز قبل ایک قومی انگریزی روزنامہ میں یہ پریشان کن رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ موجودہ لاک ڈائون کی وجہ سے 15کروڑ لوگ نجی سیکٹر میں روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ظاہر ہے یہ اعداد وشمار صرف ان نجی سیکٹر ملازمین سے متعلق تھے جو کہیں رجسٹر ہیں حالانکہ غیر رجسٹر شدہ نجی ملازمین کی تعداد رجسٹر شدہ ملازمین سے کہیں زیادہ ہے اور اب اگر غیر رجسٹر شدہ نجی ملازمین کو اس فہرست میں شامل کیاجائے تو یہ تعداد15کروڑ وسے بڑھ کر کہاں تک پہنچ جائے گی ،تصور کرنا بھی مشکل نہیں ہے ۔
جموںوکشمیر میں بھی ایسے لوگوںکی کمی نہیںہے جن کا گزارا یومیہ مزدوری پر ہی چلتا تھا اور آج و ہ نان شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں۔اسی طرح یہاں نجی سیکٹر کے ملازمین کے تارے بھی گردش میں ہیں ۔بے شک مرکزی حکومت نے نجی سیکٹر سے کہاتھا کہ وہ ملازمین کو نہ نکالیں اور نہ ہی ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کریں تاہم زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں۔حالات کے توسط سے تنخواہوں میں کٹوتی کرنا تو پھر بھی کسی حد تک ٹھیک تھالیکن یہاں تو لوگوںکو نوکریوں سے مسلسل فارغ کیاجارہا ہے اور جب نوکریاں فراہم کرنے والوں کے عذرات سنتے ہیں تو وہ بھی کسی حد تک صحیح ہی ہوتے ہیںکیونکہ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ان کے یونٹ بند پڑے ہیں،سیل نہ ہونے کی وجہ سے ذرائع آمدن بند ہیں لیکن بنیادی اخراجات جاری ہیں۔ اب جب آمدن نہ ہو اور اوپر سے اخراجات بھی چل رہے ہوں تو بھلا ایسے چھوٹے پیمانے کے تجارتی و صنعتی یونٹوں کے مالکان اپنے ملازمین کو کیسے رکھ پائیں گے ۔یہ تومعاملے کا ایک پہلو ہوا ،تاہم اس صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ غیر معمولی صورتحال میں عملے کی بنیادی ضروریات کی بھرپائی تجارتی اصولوں اور سماجی انصاف کا تقاضہ ہے۔ ظاہر سی بات ہےکہ حالات ایک جیسے نہیں رہیں گے اور معمولات کی بحالی پر یہی لوگ مزید جانفشانی سے کام لے کر پیش آمدہ نقصانات کی بھرپائی کرنے کے پابند ہیں۔ لہذا تجارتی و صنعتی سیکٹروں کےارباب بست و کشاد کو بھی صورتحال کےمد نظر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
موجودہ بحرانی صورتحال میںلاک ڈائون ناگزیر ہے اور حکومت دی گئی چند مشروط نرمیوںکے علاوہ مزید نرمیاں برتنے کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے ،لہٰذا ایسے حالات میں سماج کے تمام طبقوں کو اپنی ذمہ داریوںکا احسا س کرنا ہے اور ایسے لوگوں کی مدد کرنی ہے۔جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو اگر وہ ان لوگوں کیلئے فی الوقت ظاہراور جائز وجوہات کی بناء پر روزگار کا بندوبست نہیں کرسکتی ہے تو کم از کم ان کیلئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرے ۔کہنے تو تو بہت کچھ کہاجارہا ہے او ر لنگروں کے فوٹو اور ویڈیو بھی دکھائے جارہے ہیں لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ حالات کے ستائے یہ ضرورتمند لوگ اس وقت اگر کچھ کھا پی رہے بھی ہیں تو اس کیلئے وہ حکومت کے نہیں بلکہ عام لوگوںکے مرہون منت ہیں جنہوںنے اپنی سطح پر ا سکا نظام کیاہوا ہے ۔حکومت کو چاہئے وہ زبانی جمع خرچ کی بجائے اس بے کس طبقہ کی عملی مدد کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ رات کو کوئی خالی پیٹ نہ سوئے ۔