صلہ رحمی زندگی گزارنے کا سنہری اصول

(اپنے رشتوں کو تازہ رکھو خواہ سلام ہی کے ذریعے سے۔الحدیث)
 
 سماجی ہم آہنگی (Social  harmony )کو استحکام عطا کرنے میں صلہ رحمی(Kindness)مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔زندگی گزارنے کے اس سنہری اصول کو اپنانے کا حکم قران ا ور احادیث میں کئی جگہ بلیغ اسلوب میں آیا ہے۔جیسا کہ مذکورہ حدیث میں حکیمانہ انداز سے سمجھایا گیا ہے کہ ’’اپنے رشتوں کو تازہ رکھو خواہ سلام ہی کے ذریعے سے۔‘‘بظاہر سلام کرنا ایک خوبصورت عادت یا رسم معلوم ہوتا ہے تاہم اگر اس کے سماجی اور محبانہ تعلقات کی معنوی اہمیت اور لطافت پر غور کریں تو خندہ پیشانی سے سلام کرنا تعلقات میں محبت،رشتوں میں الفت پیدا کرنے اور کبھی کبھی دل کی کدورت کو دور کرنے کا ایک موثر وسیلہ نظر آتا ہے۔اس لئے رشتوں کو تازگی بخشنے میں سلام کرنے یا سلام کو رواج دینے کی حکمت آمیزبات بتائی گئی ہے۔بندہ جب السلام علیکم کہتا ہے تو ایک تو وہ ثواب کا حقدار بن جاتا ہے تاہم سماجی ہم آہنگی اور انسانی رشتوں کو خوشگوار رکھنے میں اپنا اخلاقی کردار بھی نبھاتا ہے کیونکہ السلام علیکم کہتے ہوئے وہ دوسرے بندے کو محبت کے ساتھ سلامتی کی دعا بھی دیتا ہے۔اس لئے رشتوں کو تازہ رکھنے کے لئے اگر انسان کچھ زیادہ نہ کرسکے تو کم از کم سلام کرنے سے اچھی پہل تو کرسکتا ہے اور آج کی اس سائبر لائف میں اس حدیث شریف پر عمل کرنے کا ایک بہترین وسیلہ موبائل فون بھی ہے۔اگر کال کرنے کی فرصت نہ ہو یا بار بار کال کرنا معیوب لگے تو حسب مناسب مسیج کے ذریعے بھی یہ اخلاقی ذمہ داری ادا کی جاسکتی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں حقوق و فرائض  کا ایک مناسب ومعقول نظام (Balanced Syestem )پیش ہوا ہے۔جس میں صلہ رحمی کو ترجیحات میںرکھا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے :اس اللہ سے درو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔ رشتے داری اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔سورۃ النسااور اسی طرح حدیث شریف میں صلہ رحمی کی اہمیت‘برکت اور ضرورت سے متعلق کہا گیا ہے کہ :’’ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو ‘اس کی موت میں تاخیراور عمر میں اضافہ ہو تو اسے چاہئے صلہ رحمی کرے۔‘‘(مسلم)
نفسیاتی طور پرصلہ رحمی ایک مشفقانہ یا مترحمانہ رویہ( Compassionate attitude ) ہے۔ جس کا لب لباب (Compendium)یہ ہے کہ انسانوں کے اندر زندگی گزرنے کا مشفقانہ و مترحمانہ شعور(Compassionate sense ) بیدار ہوجائے ‘تاکہ سماجی ہم آہنگی کا ہمدردانہ ماحول( environment Sympathetic ) پروان چڑھ جائے۔
اسلامی تعلیمات میں صلہ رحمی کا جو پیغام ملتا ہے اس میں حسن سلوک کا پہلا مرحلہ والدین سے مشخص رکھا گیا ہے۔اس کے بعد رشتہ داروں،ہمسایوں اور پھر ہر ایک شناسا و غیر شناسا سے صلہ رحمی کرنے کا انسانیت کا پیام سنایا گیا ہے۔اس پر علیحدہ علیحدہ روشنی ڈالی جاسکتی ہے تاہم زیر تحریر کالم میں صلہ رحمی کے بنیادی مفہوم و مقاصد کی تفہیم ہی زیر نظر ہے۔ جب شخصی سطح سے لیکر عالمی سطح پر صلہ رحمی کی اہمیت پر غور کریں تو جتنا یہ ایک فرد کے لئے ضروری ہے اتنا ہی ایک گھر،بستی،سماج ،ملک اور پوری دنیا کے لئے لازمی ہے۔اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ:’’صلہ رحمی شان خداوندی ہے‘‘(  Kindness is the grace of Good) ادبی تناظر میں دیکھیں توصلہ رحمی سے متعلق ادباء اور شعراء نے بہت کچھ لکھ کر اس اہم انسانی مسئلہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔مثلاََشیخ سعدی شیرازی کی شہرۂ آفاق کتاب’’گلستان ‘‘ کے یہ اشعار دیکھیں،جو اپنی معنویت اور انسانی درد وہمدردی اور عالم امن عامہ کے پیغام کے پیش نظر اقوام متحدہ کے کانفرنس ہال کی دیوار پر بھی موجود ہیں۔
بنی آدم اعضاے یک دیگرند
(بنی نوع انسان  باہم  ایک  دوسرے کے اعضا ہی)
کہ  در آفرینش ز یک  جوہرند
( ان کی تخلیق ایک ہی جوہر سے ہوئی ہے)
چو عضوے بدرد آورد روزگار
(اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے)
دگر عضو ہا را نماند قرار
(تو دوسرے اعضا بھی بے قرار ہوجاتے ہیں)
  صلہ رحمی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں اور اس جذبے کو لسانی اور عملی طور پر پھیلائیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ صلہ رحمی کی جڑیں نئے نئے پودوں کی ضامن ہوتی ہیں۔
رابطہ :وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر،موبائل نمبر7006544358
برقی پتہ۔
������