صدرہسپتال ۔۔۔ بدنظمی سے کیوں نہ ڈر یں؟

طبعیت  کچھ ناساز تھی ا س لئے نومبر کی یخ بستہ صبح کو ہسپتال کو چل  دیا۔ ایس ایم ایچ ایس ہسپتال سری نگرکے صدردروازہ پر موٹرکاروں اور آٹو رکشاؤں کی بے ہنگم بھیڑ تو تھی ہی، لیکن رجسٹریشن ٹکٹ خریدنے کے کونٹرز پر لوگوں کا اژدھام تھا۔ میرے تو ہوش اُڑ گئے۔ قطار سے ڈر لگا سوچا ،واپس چلا جاؤں لیکن بیگم نے تنبیہ کی تھی کہ اس بار بھیڑ سے ڈر کر بھاگ کھڑے نہ ہونا۔ سردی تو خیر تھی ہی، لیکن قطارمیں  تادیرانتظار گویا رُوحانی عذاب تھا۔ جیسے تیسے ایک گھنٹہ بیس منٹ بعد سلاخوں والی اُس کھڑکی کے پاس پہنچا جس کے اُس پار کرسی پر بیٹھے صاحب نے پوچھا ’’نام ، عمر، درد ، سب بولو‘‘۔ ہم نے  جوابات دئے تو اس نے دس روپے کے عوض ہسپتال کا مخصوص نسخہ میرے ہاتھ تھما دیا۔ میں نے پوچھا اب کہاں جانا ہے؟ صاحب نے زبان ہلائے بغیر ہاتھ سے ایک سمت کی طرف اشارہ کیا۔ میں سمجھا تو نہیں ،البتہ شکر اللہ کا ایک مرحلہ طے ہوچکا تھا۔
ہسپتال کی نئی عمارت میں داخل ہوا تو دیکھا مریضوں اور تیمارداروں کے بے چین ٹولے کچھ اس طرح ادھر اُدھر بھاگم دوڑ میں تھے جیسے سمندر کی لہریں بپھر گئی ہوں۔ پوچھتے پاچھتے دھکے کھاتے بالآخر خود کو ایک کمرے کے باہر کھڑے چپراسی کے سامنے پایا۔ اُسے نسخہ دکھایا اور پوچھا اب کہاں جاؤں؟ صاحب بولے ابھی کہیں نہیں، پہلے نمبر ڈلوا کے آؤ۔ میں نے عرض کی کس جگہ ڈالونا ہے یہ نمبر؟ یہ صاحب بھی ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کسی اور کام میں مصروف ہوگئے۔ دس منٹ تلاش کے بعد میں ’’آقائے نمبرات‘‘ کے حضور میں تھا۔ انہوں نے ایک بیاض پر میرا نام اور نسخہ کی تفاصیل لکھ کر اس پہ کمرے کا نمبر لکھ دیا۔ کمرہ تلاش کیا ،لیکن یہاں باہر بھیڑ دیکھ کر پھر سکتے میں آگیا۔دروازے پر تعینات سفید اَپرن پہنی ایک خاتون پہرے دار نے رعب دار لہجے میں کہا :’’لائن میں بیٹھئے‘‘۔ اس کی تعمیل میں سر ہلایا، لیکن یہاں تو کرسیاں اور بنچ سب باری کے منتظر مریضوں سے بھرے پڑے تھے، لہٰذا  ناچیز کو لائن میں بیٹھنا نہیں بلکہ ایک بار پھر کھڑا رہنا تھا۔ اپنی باری کے طویل انتظار کے بعد کمرے میں داخل ہوا تو دل اطمینان سے لبریز ہوگیا۔ سینئر ڈاکٹر اپنے دو جونئر ڈاکٹروں کے ہمراہ نہایت جانفشانی سے مریضوںکا ملاحظہ کررہے تھے۔ میرا بھی باریک بینی سے معائنہ ملاحظہ کیا گیا اور کئی ٹیسٹ تجویز کئے گئے۔ ڈاکٹروں نے ہسپتال کی لیبارٹرری سے ٹیسٹ کرنے کے لئے تین الگ الگ فارم بھر کر دئے لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ میرا اصل سفر اب شروع ہورہا ہے۔ 
فارم لے کر میں ’’بلاک ایفــ‘‘ میں داخل ہوا تو لیبارٹری کے دروازے پر تعینات ایک صاحب نے مجھے ایسے بھینچ دیاجیسے مجھے گہری نیند سے جگا رہا ہو۔میں نے کہا: بھئی مجھے ٹیسٹ کرانے ہیں۔ انہوں نے کہا :’’وہ تو ٹھیک ہے ،  لیکن ٹیسٹ کے لئے فیس بھرنی ہے۔‘‘پتہ چلا کہ  فیس کیلئے الگ کونٹر ہے۔ بہرحال فیس کونٹر پر پہنچا تو ایک بار پھر لمبی قطار میں خود کو کھڑے کھڑے کوستا رہا۔ باری آئی تو کونٹرکے اندر خاتون نے کہا کہ یہاں صرف ایک ٹیسٹ کی فیس لیں گے، باقی دوسرے کونٹر پر جمع کیجئے۔ میں نے شکرمان کر فیس بھردی اور دوسرے کونٹر پر بھی پہلی جیسی مصیبت جھیل کر فیس جمع کرائی ۔اب محسوس یہ کررہا تھا میں نے کوئی بڑا معرکہ طے کیا۔ لیبارٹری کے دروازے پر پہنچا تو صاحب نے ہنستے ہوئے بولا:’’ابھی نہیں بھئی ! یہ جو رسیدیں ہیں، ان پر نمبر ڈالئے۔ـ‘‘  ہدایت کے مطابق ایک کونٹر کی قطار پر پھر کھڑا ہوا، باری آئی تو صاحب بولتے ہیں: ’’ایک کا نمبر میں نے ڈال دیا ہے، باقی دو کے نمبر دوسرے کونٹر پر ڈلیں گے۔‘‘  ادھر بھوک کا سگنل ستانے لگا۔ میں نے ہمت نہ ہارتے ہوئے سب کچھ کیا ، جوں توں لیبارٹری میں داخلہ ملا۔ یہاں نہایت کم عمر زیرتربیت نرسنگ طالبات ہاتھوں میں سرینج لئے مریضوں کی رگوں پرہنرآزمائی میں مصروف پائیں۔ ایک بچی نے میرے بازو پر سوئی لگائی مگر ناکام، خون بہہ رہا ہے ، انہوں نے اشارے سے دوسرا بازو نکالنے کو کہا،اُدھر بھی نشانہ چوک گیا۔ دونوں بازوں لہولہان دیکھ ایک سینئر نے انہیں ڈانٹا اور خود میرے بازو سے پانچ ایم ایل خون نکال کر مجھے گویا بڑے عذاب سے آزاد کرایا۔ اب آخری مرحلہ اور زیادہ تکلیف دہ تھا۔ میں سوئیوں کے درد سے کراہ رہا تھا کہ میرا نام پکارا گیا۔ مجھے خون کی تین شیشیاں پکڑا دی گئیں، تینوں کو الگ الگ جگہوں پر رجسٹر کرانا تھا، میں نے جیسے تیسے یہ کام کیا۔ کچھ رپورٹس تو اُسی دن دوپہر کو ملیں لیکن کچھ تین دن بعد دی گئیں۔ شکر اللہ کا اب میری طبیعت بہتر ہے، ڈاکٹر صاحب نے دوا بھی پُرتاثیر دی تھی لیکن ہسپتال کے اندر کا سفر ایک تلخ یاد کی طرح میرے روح کو ڈس رہاہے۔ 
ہسپتال کے مختصر سفر کی یہ آپ بیتی بیان کرنے کا مقصد صحت ِعامہ کے ایک پہلو کی طرف ارباب ِاختیار اور حساس سماجی حلقوں کی توجہ مبذول کروانا ہے۔ ہمارے یہاں ہسپتالوں کا انفراسٹرکچر بھی بہتر ہورہا ہے اور ڈاکٹر و نیم طبی عملہ بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہاہے لیکن محض بہتر انتظامیہ کے فقدان اور ہستپالوں کے اندرcrowd mangement کی کمی نے ہمارے سرکاری ہیلتھ کیئر نظام کو داغ دار بنا دیا ہے۔ میں نے تو محض ایک صدر ہسپتال کا حال احوال بیان کیا، لیکن مجھے یقین ہے کہ اس تعلق سے حالات ہرجگہ کم و بیش یکساں ہیں۔ ضرورت  ا س امر کی ہے کہ ہسپتالوں کے اندر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ ایک کھڑکی single-windowسسٹم رائج کرایا جائے۔ مریضوں اور تیمار داروں کو کونٹر بہ کونٹر نچوانا کوئی نظام نہیں بلکہ بے ترتیبی ، کج فہمی اور بدنظمی کااچھوتانمونہ ہے جسے فوری طور ترک کرکے مریض دوست نظام العمل نافذ کرانا ہوگا تاکہ لوگ سرکاری ہسپتال اور اصطبل میں فرق کر سکیں ۔ 
رابطہ 9469679449
