جس کا ڈر تھا بے درردی وہی بات ہوگئی۔ بانوئے کشمیر نے واویلا مچائی، کچھ آنسو بھی بہائے کہ یہ اس کا مستقل شغل ہے ۔جہاں بھی دکھوں کا دریا دیکھا، اس میں چند ایک آنسو اپنے بھی ملا دئے اور اعلان کردیا کہ ہر ایک کا غم نقلی ہے ، اگر کسی کاغم اصلی ہے تو وہ خود اس کا غم ہے۔باقی لوگ نقلی مال بیچتے ہیں اور گلسرین کے آنسوبہاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اصلی مال پر جی ایس ٹی بھی عائد ہوتا ہے یعنی اگر کسی آنسو کی قدر و قیمت اعلیٰ ہے تو بس اہل قلم دوات کے اور ان میں بھی خود بانوئے کشمیر کے ، مانو آنسو نہ ہوئے موتی ہوئے۔جبھی تو واشگاف اعلان کردیا کہ اپنی سوسائٹی میں کہیں نہ کہیں جھول ہے جس کا کوئی تول ہے نہ مول۔ اس کے پس و پیش اور چپ و راست میں مکھڑی کے جالے لٹک رہے ہیں جن میں بے قصور پھنس جاتے ہیں اور نکل نہیں پاتے۔ قلم والے مرد مومن نے قطبین کو ملا دیا تھا اور سیاست کا ایسا مادھو رام اور حسیب نے مل کر تراشا تھا کہ اہل کشمیر ہائے ہائے کرتے رہے کہ یہ کیسا ملن ہو گیا ۔مانا کہ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور پہلے ہی دن بھانپ لیا تھا کہ دوات کی روشنائی کنول چوس کر اپنی آبیاری کرے گا اور قلم خشکی کے سبب ناڑا لگانے کے کام آئے گا مگر کرسی کا ایسا لالچ دیکھو کہ اندھا کیا جانے بسنت کی بہار۔ کرسی کرسی کرتے کرتے کیچڑ میں ایسے پھنسے کہ اب تک نکلنا محال ہوا جا رہا ہے۔کنول کا پھول ہاتھ نہ لگا بس کیچڑ سے سیاسی وجود ہی لت پت ہوگیا۔خیر وہ تو بڑے مفتی کا فتویٰ تھا کہ ہم نے نئی تاریخ رقم کی ہے اور شمال جنوب کا ایسا میل کیا سمجھو فیویکول کا جوڑ ہے۔مطلب جوڑ ایسا کہ ایسا لگا یا جو ٹوٹے دلوں کے بغیر سب کچھ جوڑتا ہے۔بھائی صاحب !اپنے ٹوٹے دلوں کو جوڑنے کے لئے تو سیاست دانوں کو کرسی چاہئے وہ تو ہاتھ لگ ہی گئی یعنی اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں، سیاسی ساہوکار کو کیا چاہئے ایک کرسی، ایک گاڑی اور گاڑی کے آگے جھنڈا اور ساتھ میں ڈنڈا۔اب تو ڈندا بھی تبدیل ہو کر لوہے کا ہوگیا ہے جو منہ سے آگ اگلتا ہے،یعنی جھنڈے میں جو ڈنڈا ہے وہی سیاست کاروں کا ہے۔لوہا جب ساتھ ہو تو لوہے کے چنے بھی چبانا پڑتے ہیں ۔ایسے میں فتویٰ بھی نیا جاری کرنا پڑتا ہے ،اس کے لئے چھوٹا مفتی شامل حال ہے ۔ہاں ، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے جبھی تو نیا فتویٰ کچھ ایسا آیا کہ ہم نے سوچا امریکی تربیت کا کچھ اثر ضرور لیا ہے۔بے با کانہ کہہ ڈالا کہ ہم شریک ِجرم ہیں ۔صاف ظاہر ہے جو خون بہا اس سے ان کے ہاتھ رنگے ہیں جنہیں کوئی مگر مچھی آنسو دھو نہیں سکتے۔ یہ جو نیا فتویٰ آیا تو ہم سوچنے لگے کہ قطبین کا جوڑ کمزور پڑنے ہی لگا ہے آج نہیں تو کل ٹوٹ جائے گا۔دو تین دن کا وقت گزرا تو ہم سمجھے کہ فیویکول والا جوڑ اتنا مضبوط نہیں جتنا کرسی کے لالچ کا جوڑ ہے۔شریک جرم کہنے والے شرکت اقتدار قائم رکھ گئے۔شریک ندامت شریک ملامت بنے رہے۔ شرمندگی کے احساس کو ضمیر پر زیرو ڈگری ریگ مال چلا کر صاف کر گئے۔ادھر جو لال سنگھ کا چہرہ شرمندگی سے لال ہوگیا اور چندر پرکاش کی گنگا الٹی بہنے لگی تو بانوئے کشمیر نے اسے اپنی جیت کے کھاتے میں ڈال دیا ۔پھر کیا تھا قلم دوات والے بھی خوشی سے ناچنے لگے مانو کہہ رہے ہوں جو ہم سے ٹکرائے گا پاش پاش ہوجائے گا،یعنی سیاسی دھمال کرتے ہوئے فیر ویو گیسٹ ہائوس سے بیج بہاڑہ تک بیانات کی قندیل روشن کردی اوردو وزراء کے استعفے کو اپنی جیت جتا کر غازہ سمجھ کر سیاسی قلا بازیوں کے بازار حسن میں اپنا جلوہ بکھیرنے لگے۔
اچھا تو ہم چلتے ہیں
چہرے پر پائوڈر ملتے ہیں
برادر اصغر کے فتویٰ کو پڑھنے کے بعد یعنی شریک جرم ہوکر بھی بانوئے کشمیر گورنر سے ملاقی ہوئی ۔یہ پتہ لگانے کہ کہیں کرسی کھسکتی تو نہیں جا رہی۔حالانکہ کنول برداروں کو بھی ملک کشمیر کی گدی جانے کتنے ہوَن اور کتنی تپسیا کر نے کے بعد ہی ہاتھ آئی ہے اور وہ کسی بھی صورت اسے گنوانا نہیں چاہتے ،پھر بھی کیا پتہ دلی دربار سے کوئی ایسا سندیسہ آیا ہو کہ اب کنول برادری کو قلم برداروں کی ضرورت نہیں رہی۔ادھرراجیہ پال سے ہدایت ملی کہ آصفہ کیس میں روزانہ ٹرائل چلایا جائے۔اس نے تو آصفہ کیس میں کہا تھا پر ادھر یہ ملک کشمیر سمجھ بیٹھیں۔سنا ہے کہہ ڈالا کہ اہل کشمیر کی ٹرائل کے لئے جھنڈے، ڈنڈے ،بندوق، پیلٹ سب کچھ ہے اور ان سے جو بچ کر نکلے ان کے لئے پی ایس اے موجود ہے کہ چھ مہینے سورج کی روشنی کے دیدار نہیں کرواتا۔پھر جو کورٹ کی وساطت بچ نکلتا ہے وہ دروازے سے نکلے تو کھڑکی سے واپس اندر پہنچ جاتا ہے ۔اندر آکر مغالطے میں پڑ جاتا ہے ع
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
یہ کنول بردار بھی جانے کس مٹی کے مادھو بنے ہیں کہ انہیں ہر چیز اپنی دکھائی دیتی ہے۔تاج محل شاہ جہاں نے نہیں بنایا یعنی بادشاہ نے جو محبت کی داستان کوئی بائیس سال میں لکھی انہیں شک ہی نہیں یقین ہے کہ وہ پہلے مندر تھا جس میں وہ پہلے آرتی اُتارتے تھے اور بادشاہ تو بعد میں اپنی ملکہ کی آرتی اُتارنے لگا ۔بقول بھکت جن جامع مسجد بھی یمنا مندر تھا اور لال قلعہ بھی کسی بھکت کی تعمیر ہے۔چلو ہم تو چپ تھے کہ مسلم اقلیت پر حملہ کرنا وہ اپنا پیدایشی حق سمجھتے ہیں لیکن اب تو سائینسی معلومات پر بھی حق جتانے لگے بلکہ ترشول سے سیئنسی سیف میں سیند لگا کر زعفرانی چیتھڑ وںمیں لپیٹ کر اپنا مال ہے اپنا مال ہے دھونی رما بیٹھے ۔تریپورہ کے وزیر اعلیٰ نے نیا انکشاف کردیا کہ انٹرنیٹ اورفیس بک وغیرہ رامائن کے زمانے میں موجود تھا۔یہ مارک زیکربرگ بے چارہ ابھی امریکی قانون سازوں کے سامنے بیان دینے سے فارغ بھی نہیں ہوا تھا کہ بھارت ورش کے زعفرانی دشت آسنوں نے اپنا حق جتانا شروع کیا اور اس کی ملکیت پر ہاتھ ڈال کر کہہ دیا کہ بھائی صاحب آ پ کے پاس جو فیس بک جائیداد کے مالکانہ حقوق سے متعلق کاغذات ہیں وہ جعلی ہیں اور ان پر کسی ایسی عدالت کی مہر ثبت نہیں جس میں جج صاحب چھوٹی چڑی پہنے اور ناگپوری تلک ماتھے پر سجائے ہو۔مارک کی یہ حالت دیکھ کر ہم بھی شش و پنج میں پڑ گئے کہ ہو نہ ہو ناگپوری فیملی کی بات میں دم ہو۔کتابیں کھنگالیں تو ہوش اُڑ گئے کہ مانا کہ بھارت ور ش میں پاخانے نہیں تھے اور اسی لئے انگریزوں نے ریلوے لائینیں بچھا دیں کہ صبح صبح لوگ ہلکا ہونے انہی لائینوں پر اپنی لائنیں لگا دیں ۔اس پر طرہ یہ کہ اب کی بار مودی سرکار نے سب سے پہلا کام یہی کیا کہ ریلوے لائینوں کو اس گھس پیٹھ سے نجات دلا دی اور سوچھ بھارت کا نعرہ بلند کردیا ۔یہ اور بات ہے کہ چھوٹے مودی نے یہ کام پنجاب نیشنل بنک میں گھس کر ہیرے جواہر کا جھاڑو پھیر کر خزانہ صاف کردیا۔اور بھکت جنوں کی یہ بات کیسے جھٹلائیں کہ بارہویں صدی تک بھارت میں نیوکلیائی ہتھیار، وائی فائی ، انٹر نٹ سب کچھ تھا ،پر اس کے بعد باہری حملہ آور آئے ۔کہیں خلجی کہیں بابر نے قبضہ جمایا تو بھکت جنوں کی اپنی ٹیکنالوجی ہاتھ سے گئی۔ دروغ بر گردن راوی جس نے یہ اطلاع دی کہ جو ڈرون آ ج کل امریکی پاکستان افغانستان میں دوڑاتے ہیں وہ بھارت میں ڈرون آچاریہ نے صدیوں پہلے ایجاد کر دئے تھے اور صدیوں پہلے جو انٹر نیٹ رائج تھا اسے دیوی کے نام پر اندرا نیٹ کہا جاتا تھا۔فیس بک تو دوستی کرنے کا سوشل نیٹ ورک ہے اور اسے پہلے زمانے میں بھارت کے نواسی رام جی مترتا یوجنا کہتے تھے ۔ہو نہ ہو اسی یوجنا کے ذریعے ویلن راؤن نے سیتا میا سے سادھو سنیاسی کے روپ میںدوستی کرلی اور پھر دھوکے سے بلا کر اغواء کرلیا۔ایسا بھی کیا کہ بھکت جنوں کے واٹ از اَپ کے ذریعے ہی ہنومان کو سندیسہ ملا اور وہ پورا پہاڑ لے کر حاضر ہوا کہ مائی باپ خود دیکھ لو کون سا پودا اور کس جگہ ہے تو پرکھ لو۔ایک سوال تو پھر بھی من میں ابھرتا ہے بلکہ کچوکے لگاتا ہے کہ دریودھن اور یدھشٹر سامنے بیٹھ کر کیوں جوا کھیلتے رہے ۔ وہ تو آرام سے آن لائن کھیل سکتے تھے جیسے آج کل گھر بیٹھے بھی کھیلا جاتا ہے۔ ہو نہ ہو یہی کچھ مودی مہاراج کے من میں سمایا ہوا ہے کہ لندن میں تقریر کرتے ہوئے اپنے بھکت جنوں کو اپنے وَش میں کرلیا اور یہ مٹھی بھر پیڈ سنیاسی راگ ہر ہر مودی الاپتے رہے۔اس دوران مہاراج نے سرجیکل اسٹرائک کافسانہ چھوٹی مونچھ کو تاؤدیتے ہوئے چھیڑا : یہ مابدولت چھپن انچ چھاتی وا لا ہی تھا جس نے گھنٹوں پاکستانیوں کے فون گھمائے تا کہ یہ کہہ سکیں ہم نے سرحد پار ہو امیں مکے مارے لاتیں دیں ،اب اپنے فوجیوں کی لاشیں اُٹھا لے جائو مگر فون نہ لگا ، بک بک کر تا رہا اس سمے اُپ بھوگتا کا فون آوٹ آف ریچ یا سوئچ آف ہے، مہربانی کر کے اگلی صدی تک انتظار کیجئے یا لائین پر بنے رہئے۔ ہم نے فون نہ چھوڑا، یہاں تک لندن آگئے اورآپ کو یہ ماجرا سنارہے ہیں ۔ مہاراج پرتھوی راج ! یہ ہوئی نا مردوں والی بات ، مگر ذرا یہ راز بھی کھولئے اگر سرجیکل اسٹرائک پاکستانی علاقے میں ہوئی تو پاکستانی فوجیوں کی لاشیں ہندوستانی علاقوں میں کیسے گریں ؟ کہیں یہ ویدک زمانے کا کوئی چمتکار تو نہیں ؟خیر مودی مہاراج بڑے دیالو ہے کہ پار کولاشیں لے جانے کے لئے فون کرتے رہے۔
بھارت ورش کے لوگ بھی سیدھے سادھے ہیں کہ کبھی اندرا کی جے جے کار کر کے اس کے منہ پر مکھی بیٹھنے نہیں دیتے کہ وہ درگا ماتا ہے اور اب تو ناگپوری یوجنا کے پسر پروردہ مودی کے بارے میں منہ کھولنے والوں کو دیش دروہی جتاتے ہیں ۔جب ہم سب کا ساتھ والے زمرے میں شامل نہیںتھے تو ہمیں اچھے دن آنے والے نعرے سے روشناس کرایا گیا ۔ہم تو بلیوں اچھلنے لگے کہ ہم ساتھ اور وکاس کے گھوڑے پر سوار ہو کر اونچا اڑنے والے ہیںلیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ وکاس سے پہلے ہمارے لال ٹماٹر دس روپے، ساگِ مفلساں آٹھ روپے اور امبری سیب سو پچاس روپے فی کلو بکتے ،اب اتنا وکاس ہوگا کہ ان کے نرخ اوپر اور غریبی کی سطح سے نیچے والی جنتا اور نیچے۔ا سے کہتے ہیں خدا دے بندہ لے۔اب یہ جو وکاس کا نیا منتر الٹ پلٹ کے دیکھا تو پتہ چلا کہ امیر راجہ کی غر یب پرجا بنگڑے دالے ، خوشیاں منائے ، پٹاخے پھوڑے کہ کم ازکم اس کا نہیں غریب سبزیوں کا وکاس توہو گیا اور وہ امبانی کی طرح امیر ی کی سطح سے بھی آگئے ہوئے۔اپنا غریب ڈیزل بھی خط افلاس سے نیچے تھا لیکن بھلے ہی بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمت کم ہوئی لیکن اپنے اچھے دنوں کا نعرہ سن کر وہ بھی امیر پٹرول کا درجہ پا گیا۔ مطلب سب کا وکاس ہوگیا کہ غریب کے اے ٹی ایم پر سرجیکل اسٹرائیک ہوئی اور بچارے کا ساراپیسہ اشیائے ضروریہ نے ڈکارلئے ۔مودی سرکار کی اس کرم فرمائی کی نکتہ چینی کے کیا معنی جب لوگ اچانک ان چار برسوں میں بہت بہت بہت امیر ہوگئے ، یہ اور بات ہے کہ لوگوں کی نوکریاں پہلے ہی چلی گئیں اور نئی جابس کا کوئی اَتہ پتہ نہیں ۔البتہ مودی سرکار کوئی صدیوں پہلے کی ٹیکنالوجی استعمال کرواکے ایک سوکروڑ پچیس دیش واسی نہال ہیں کہ سنہرے سپنوںکے خزانے سے دھڑا دھڑ پیسہ نکال رہے ہیں اور بارزارِ وکاس پر خرچ کر رہے ہیں ۔ادھر سرکار نے بھی ا زراہِ کرم اعلان کردیا کہ پیسے کی کمی کو روکنے کے لئے ہم اور کرنسی چھاپیں گے ، گویا ریزرو بنک نہ ہوا محلے کے نانوائی کی دکان ہوئی ۔خریداروں کی لمبی لائن جو دیکھی اور آٹا گوندھا، اور خمیر ملائی اور روٹیاں تندور میں سینک لی ، معاملہ گول، کھیل ختم پیسہ ہضم۔ اب کی بار مودی سرکار کا پندرہ لاکھ کا وعدہ پورا نہ سہی مگر۲۰۱۹ء میں یہ سپنا ساکار ہو گا ۔ فی ا لحال ہر سیکنڈ آنکھ مارنے والے جنم جنم سے کنگال بابا رام دیو کا وکاس سچ مچ ہوگیا کہ اس کی پتنجلی پر ٹیکس چھوٹ کا اعلان ہو گیا ۔عام لوگوں کو تو پندرہ پندرہ لاکھ نہ بھی ملے مگر بابا کو تو کئی پندرہ پندرہ کروڑ کی راحت ملی !! اچھے دن ہیں مودی سرکار کے درباریوں کے لئے!!!
(رابط[email protected]/9419009169 )