شہر سرینگرتیز رفتاری کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے اور اس کی آبادی میں جس انداز سے اضافہ ہورہا ہے ،اُسی انداز سے اس شہر کے مسائل میں بھی بڑھوتری ہورہی ہے۔ان مسائل کو حل کرنے کے لئے سرکاری انتظامیہ کو جس تجزیے اور جس پیمانے پر منصوبہ بندی ،پروگرامز ،اور حکمتِ عملی کے تحت اقدامات اٹھانے کی ضرورت تھی اور ہے ،اُن کا کہیں نام و نشان تک نظر نہیں آرہا ہے۔وہی پرانی گھِسی پٹی منصوبہ بندی ،وہی پرانا بوسیدہ پروگرام ،وہی زنگ آلودہ نظام اور ناقص حکمت ِعملی کے تحت وہی روایتی کام ہر طرف عام ہیںجو پچھلے تین چار عشروں سے تواتر کے ساتھ خام اور ناکام ثابت ہوتے چلے آئےہیں۔شہر سرینگر میں آلودگی کی حدیں دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔مختلف جگہوں پر کچرے اور کوڑے کے ڈھیر پڑے ہوئے ہوتے ہیں،گندگی اور غلاظت سے پیدا ہونے والی عفونیت عوام کے لئے حفظان صحت کا مسئلہ کھڑا کررہی ہے۔مختلف علاقوں میں ناکارہ ڈرنیج سسٹم ،خستہ حال ڈرینوں اور بنا ڈھکن کے مین ہولوں ،ٹوٹے پھوٹے فٹ پاتھوں اور کھنڈرات میں تبدیل شدہ سڑکوں اور گلی کوچوں سے شہری عوام پہلے مختلف مسائل و مشکلات سے دوچار ہیںاور اب موسم سرما میں ہونے والی بارشوں اور برف باری سے ان علاقوں کی حالت ِ زار مزید ابتر ہونے کے امکانات ہیں۔جبکہ بعض نشیبی علاقوں میں نکاسِ آب عدم دستیابی کے باعث گندے پانی کے جوہڑ نمایاں طور پر اُبھر آئیں گے،جو بعد ازاں گرمیوں میں ناسور کی شکل اختیار کرکے فضا اور ماحول کو مزید آلودہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ویسے بھی شہری عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ شائدسرکاری انتظامیہ سول لائنز ائریا اور اسکے اِردگرد کچھ علاقوں کو شہر سرینگر سمجھ رہی ہے،اس لئے شہرِ سرینگر کے دیگر علاقوں کے مسائل حل کرنے اور عوامی بہبود کے کاموں کو نظر انداز کررہی ہے۔اہم نوعیت کے شہری مسائل حل کرنے میں بہتر دلچسپی نہیں لے رہی ہے۔شہر سرینگر میں گاڑیوں میں اضافے اور مختلف علاقوں میں شکست حال سڑکوں سے اٹھنے والا دھول و دھواںاور گرد و غبار بھی آلودگی میں اضافہ کرتا رہتا ہے،جس سے نہ صرف بیماریاں عام ہوجاتی ہیں بلکہ اس صورت حال سے عوام الناس خاص طور پر دکاندار طبقہ جسمانی اور اقتصادی طور پر بُری طرح متاثر ہوجاتا ہے۔بہت سے علاقوں میں تجاوزات قائم کرنے کا سلسلہ اس حد تک جا پہنچا ہے کہ فٹ پاتھ تو درکنار سڑک پر بھی پیدل چلنے والوں کے لئے جگہ نہیں ملتی۔تجاوزات کا یہ منظر جہاں شہر کے معروف مارکیٹوں اور مصروف بازاروں میں جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے ،وہاں تجاوزات کی خطرناک صورت حال ایسے علاقوں میں دیکھی جاتی ہے جہاںبڑی بڑی مسافر گاڑیوں کی آمدورفت محدود پیمانے پر رہتی ہے۔زیادہ تر دکاندار اپنی دکانوں سے زیادہ سڑکوں پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں،جس کے نتیجے میں ان سڑکوں سے منسلک ڈرینوں ،فٹ پاتھوں اور نالیوں کی صفائی بھی نہیں ہوپاتی اور سارا کوڑا کرکٹ ،گندگی اور غلاظت سڑکوں پر ہی پڑی رہتی ہے۔اس سلسلے میں سرکاری انتظامیہ اور متعلقہ حکام کی غیر ذمہ دارانہ اور خود غرضانہ پالیسی سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یا تو متعلقہ حکام کو کوئی وجود ہی نہیں یا پھر ذاتی مفادات کی آڑ میں اس صورت حال کو حرفِ نظر کیا جارہا ہے۔پائین شہر تو حکومتی اداروں کی مسلسل غفلت اور عوام کی خود غرضی اور بے حسی کے سبب اُجڑتا جارہا ہے۔بیشتر سڑکیں ،گلی کوچے ،پارک،نزول اور سرکاری زمین متعلقہ محکمہ کے اہلکاروں کی مفاد پرستانہ پالیسی کے تحت خود غرض اور بے ضمیر لوگوں کے ناجائز قبضے میں جارہی ہیں۔جس کے نتیجے میں لوگوں کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔آلودگی بڑھتی جارہی ہے،ماحول پراگندہ ہورہا ہے اور فضا کثیف بن رہی ہے۔وجہ صاف ہے کہ نہ تو شہریوں کی حفظان صحت کا خیال رکھنے والا کوئی محکمہ ہے اور نہ لوگوں کو آلودگی سے بچانے کے لئے کسی سخت قانون کے نفاذ کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے اور صورت حال میں ماحولیاتی بہتری اور صفائی کا مسئلہ تواتر کے ساتھ جُوں کا تُوں رہتا ہے۔