اسلام،دین فطرت ہے، جوپوری انسانیت کی ہرشعبے میں مکمل رہنمائی کرتا ہے، اس کی پاکیزہ تعلیمات جہاں عقائد وعبادات ،معاشرت ومعاملات اور اخلاق وآداب کے تمام پہلوؤں کوجامع ہیں،وہیں حفظان صحت اور تندرستی کے معاملے میں بھی اسلام کی معتدل ہدایات موجود ہیں،جن پر عمل پیرا ہوکر ہم نہ صرف صحت مند زندگی گزار سکتےہیں، بلکہ بہت سی مہلک بیماریوں سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں ۔صحت اللہ کی بڑی نعمت ہےبلکہ سب سے بڑی نعمت ہے، انسان کا وجود ہی صحت سے ہے،اسلامی تعلیمات کے مطابق مضر صحت امور سے اجتناب کرنا چاہئے، جس میں زیادہ کھانا یا زیادہ سونا، یا کم کھانایا کم سونا، یا حد سے زیادہ فارغ رہنا، غم اورذہنی پریشانی کا شکار ہوجانا،یا اپنی آپ کو کسی بھی عمل میں اتنا منہمک کرنا جس میں جسم کی حرکت نہ ہو، جس سے موٹاپا آئے، راتوں کا جاگنا، دن کا سونا یہ سارے امور صحت کے لیے نقصان دہ باعث وبال جان ہوتے ہیں ، اس طرح کے امور سے اجتناب کر کے اپنے آپ کو منظم ومرتب کرے، سونے کے وقت سوئے، کھانے کے وقت کھائے، کام کے وقت کام کرے، ہلکی پھلکی ورزش، چہل قدمی، راتوں میں جاگنے سے اجتناب، دھوپ کا حاصل کرنا یہ سارے دراصل شرعی نقطہ نظر سے قابل التفات امور ہیں ، ایک مومن توانا اور قوی تر ضعیف اور کمزور مومن کے مقابلہ میں زیادہ بہتر اور اچھا ہوتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ شفایاب کرتا ہے‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحت بھی مطلوب ومقصود ہے،ایک حدیث میںفرمایا گیا: ’’تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے، اورتمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے‘‘۔(صحیح بخاری) ایک روایت میں فرمایا گیا: ’’ دو نعمتیں ایسی ہیں ان کے بارے میں بکثرت لوگ نقصان اور خسارے میں ہیں (یعنی ان سے کوئی ایسا کام نہیں لیتے جس سے دینی نفع ہو)ایک صحت اور دوسرے بے فکری۔(صحیح بخاری) اس سے پتا چلا کہ زیادہ جاگنے اور بالکل بھوکے رہنے سے صحت خراب ہوجاتی ہے اور اس کا اثر انسان کے جسم پر پڑے گا اور وہ دوسرے فرائض کی ادائیگی کے قابل نہ رہے گا۔
صحت دنیا کی ان چند بیش قیمت نعمتوں میں شمار ہوتی ہے کہ جب تک یہ قائم ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی،مگر جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑدیتی ہے،ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے کہ یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی۔جب ہم مختلف پیچیدہ امراض اور مہلک بیماریوں کو دیکھتے ہیں تواحساس ہوتاہے کہ ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم اوربہت بڑااحسان ہے،لیکن اس کے باوجود اکثرافراد اس نعمت عظمیٰ کی قدر نہیں کرتے،جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی: ’’دو نعمتوں کے حوالے سے عموما لوگ دھوکے میں مبتلا ہوتے ہیں: صحت اور فراغت ‘‘۔(بخاری ومسلم)
ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابیؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ نمازوں کے بعد کیا دعا مانگوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگا کرو، دوبارہ سوال پر بھی یہی ارشاد فرمایا، اور تیسری دفعہ بھی فرمایا: اللہ تعالیٰ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں (کے آنے) سے پہلے غنیمت سمجھو(اور ان سے دین کے کاموں میں مدد لو) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت سمجھو اور صحت کو بیماری سے پہلے، اور مال داری کو افلاس سے پہلے اور بے فکری کو پریشانی سے پہلے اور زندگی کو مرنے سے پہلے‘‘(المستدرک)،اس سے معلوم ہوا کہ جوانی میں جو صحت وقوت ہوتی ہے وہ اور فراغت اور مالی گنجائش بڑی نعمتیں ہیں ۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے بیماری اور دوا دونوں چیزیں اتاری ہیں اور ہر بیماری کے لیے دوا بھی بنائی،سوتم دوا کیا کرو اور حرام چیز سے دوا مت کرو‘‘۔(سنن ابوداؤد)اس سے پتہ چلا کہ صحت بھی مطلوب ومقصود ہے، مضر صحت امور سے اجتناب اور گریز، مضر صحت امور چیزوں سے احتراز کرنا چاہیے۔
انسان قوی ہو، طاقتور ہو،مضبوط وتوانا رہے، اس کے لیے کوشش کرنا اور اسباب اختیار کرنابھی شرعاً مطلوب ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قوت والا مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کم قوت والے مومن سے بہتر اور زیادہ پیارا ہے۔جب قوت اللہ کے نزدیک پیاری چیز ہے تو اسے باقی رکھنا او ربڑھانا اور جو چیزیں قوت کو کم کرنے والی ہیں، ان سے احتیاط کرنا یہ سب مطلوب ہوگا، اس میں غذا بہت کم کردینا، نیند کا بہت کم کرنا،ایسی ـچیز کھانا جس سے بیماری ہوجائے یا بدپرہیزی کرنا، جس سے بیماری بڑھ جائے اور قوت کمزور پڑ جائے، قوت کو باقی رکھنے کے لیے دوڑنا،پیادہ چلنے کی عادت ڈالنا،یہ سب صحت و تن درستی کے لیے ضروری ہے۔
خوراک اُس وقت مفید ثابت ہوتی ہے جب وہ اچھی طرح ہضم ہو جائے،اورغذا ہضم کرنے کے لیے محنت اور ورزش کی ضرورت ہے، اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کا مشغلہ پڑھنا پڑھانا، یا اور کوئی ایسا پیشہ ہو جس میں اسے ورزش کا موقع نہیں ملتا اور وہ اسلامی فرائض و واجبات بہ طریق احسن ادا کرتا ہے، تب تو اسے ورزش کی اتنی ضرورت نہیں پڑتی، صبح سویرے اٹھنے، وضو، غسل کرنے، نماز پڑھنے، روزہ رکھنے، حج اور جہاد کے لیے جانے اور دیگر اسلامی احکام پر عمل پیرا ہونے سے اس کی یہ ضرورت خود بہ خود پوری ہوسکتی ہے۔تاہم اسلام میں بعض مفید ورزشوں کا جواز بھی موجود ہے۔
نیند بھی حفظانِ صحت کے لیے ضروری ہے، ایک صحت مند انسان کے لیے دن رات میں آٹھ گھنٹےکی نیند ضروری ہوتی ہے، محنت اور دن بھر کام کاج کرنے سے جسمانی قوتیں تھک جاتی ہیں اور آرام کی طالب ہوتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کو دن، رات میں تقسیم کر کے اس فطری ضرورت کو پورا کیا ہے، ارشاد خداوندی ہے:’’خدا ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا (کہ اس میں کام کرو)۔‘‘(سورۃ المومن:61)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بتایا ہوا نیند کا طریقہ بالکل فطری ہے اور حفظانِ صحت کے لیے اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ہوسکتاکہ جلد سویاجائے ،باوضو سویاجائے،صبح جلد اٹھنے کی فکر کی جائے ،دوپہرمیں قیلولہ کیاجائےوغیرہ۔حفظانِ صحت میں خوراک، ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، متوازن خوراک اور معتدل غذاسے انسان کی صحت برقرار رہتی ہے، وہ مناسب طور پر نشوونما پاتا ہے اور محنت کی قابلیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس بارے میں قرآن نے صرف تین جملوں میں طب قدیم اور طب جدید کو سمیٹ لیا ہے، ارشادِ خداوندی ہے:’’کھاؤ، پیو اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو۔‘‘ (الاعراف:31)یہ تینوں وہ مسلمہ اصول ہیں جن میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ،کھانا پینا زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا، اور نہ اپنے فرائض منصبی سے بہ طریقِ احسن عہدہ برآ ہوسکتا ہے، البتہ اس میں اعتدال سے کام لینا صحت کے لیے ضروری ہے۔ نہ کھانے، یا ضرورت سے کم کھانے سے جسمِ انسانی بیمار پڑ جاتا ہے، جبکہ ضرورت سے زیادہ کھانے سے معدےپر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور معدے کی خرابی تمام امراض کی جڑ ہے۔
گھر اور ماحول کی صفائی اور مزاج کی نفاست پسندی کا بھی صحت میں بڑادخل ہے۔اسلام نے انسانوں سے یہی مطالبہ کیا ہے کہ ان کی پوری زندگی پاک و صاف ہونی چاہیے۔ارشادربانی ہے: ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے ، جو توبہ کا رویہ اختیار کریں اور خوب پاکیزہ رہیں‘‘۔(سورۃ البقرۃ:۲۲۲)ایک حدیث میں طہارت و نظافت پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’پاکی نصف ایمان ہے‘‘(صحیح مسلم:۳۲۲)مزید اس جانب توجہ دلاتےہوئے ارشاد فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ پاک و صاف ہے اور پاکی و صفائی سے محبت رکھتا ہے، کریم اور سخی ہے، کرم اور سخاوت کو پسند فرماتا ہے، اس لیے اپنے گھر بار، صحن (اور گلی کوچوں ) کو صاف ستھرا رکھو۔‘‘(البزاز فی مسندہ)
اگر انسان اپنے آپ کو صحت مند اورتوانا رکھنا چاہتا ہے تو اُسے رسالت مآب ؐکے بتائے ہوئے طریقوں کو اپناناہوگا: صبح جلدی اٹھنا، مسواک کرنا، جب بھوک لگے تب کھانا،پیٹ بھرنے سے قبل کھانا چھوڑدینا (یعنی کہ بھوک رکھ کر کھانا)، سادہ غذا کا استعمال کرنا،صبح فجر کی نماز کے بعد واک کرنا،دوپہر کے کھانے کے بعد آرام کرنا، رات کے کھانے کے بعد چہل قدمی کرنا، کھانا کھانے سے قبل ہاتھوں کو دھونا،پانی کو تین سانسوں میں پینا، پانی بیٹھ کر پینا، دستر خوان بچھا کر کھانا کھانا،پلیٹ وغیرہ اچھی طرح صاف کرنا ،کھانے کے بعد ہاتھوں کی انگلیوں کو چاٹنا،نشہ آور اور مضر صحت چیزوں سے اجتناب کرنا وغیرہ۔غرض صحت مند رہنے کے بے شمار اصول ہیں،مگرآج جدید سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ صحت مند رہنے کے جو اصول اور طریقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائے ہیں وہ اصول اور طریقے قیامت تک آنے والے انسان کے لیے مشعل راہ ہیں۔