یٰسین جنجوعہ
گزشتہ کچھ دہائیوں سے صحافت کے معیار میں تبدیلی آئی جس کی وجہ سے اخبارات کا مطالعہ کرنے والوں ،آمدنی اور عوامی اعتبار میں کمی آرہی ہے تاہم اس پیشہ میں تحقیق کرنے والے کئی دانشوروں کا ماننا ہے کہ آمدنی اور عوامی اعتبار کو واپس لانے کیلئے ناظرین کیساتھ تال میل اورمعیاری کام کے ذریعہ ان کی آواز بننے سے واپس بحال کیاجاسکتاہے ۔2000کے بعد ہندوستان کیساتھ ساتھ پوری دنیا میں انٹر نیٹ کی آمد سے شعبہ صحافت میں ایک بڑا انقلاب آیا جس کی وجہ سے ناظرین تک رسائی کے کئی سابقہ طریقوں میں تبدیلی وقت کی ایک اہم ضرورت بن گئی تاہم انٹرنیٹ کی آمد سے جہاں لوگوں تک ہر طرح کی خبر کی رسائی جلدازجلد ممکن ہوپائی وہیں کئی بڑے ٹی وی چینلوں اور اخبارت میں کام کرنے کے طریقہ کار بھی بدل گئے ۔ہر ایک چینل اور اخبار میں ایسے طریقوں کو اپنایا جانے لگا تاکہ خبروں و مراسلوں کی پہلے رسائی کے باوجود بھی زیادہ سے زیادہ ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی جاسکے ۔اس طرح سے ہر ایک’’ نیوز روم ‘‘کی جانب سے پڑھنے ،دیکھنے اور سننے والوں تک رسائی کیلئے ایسے طریقوں کا استعمال شروع کر دیاگیاہے جوکہ بعد میں اس شعبہ کیلئے نقصاندہ ثابت بھی ہو سکتے ہیں ۔ ہندوستان میں کئی ٹی وی چینلوں نے اپنی آمدنی اور وقار کو بر قرار رکھنے کیلئے ایک فرقہ کے لوگوں کو اپنی کمائی اور ناظرین کی تعداد میں اضافہ کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا جوکہ صحافت کے اصولوں کیخلاف ہی نہیں بلکہ ہندوستانی سماج کیلئے بھی مضر ہے۔
انٹر نیٹ کی آمد کے بعد صحافت میںبھی دو طرح کی تبدیلیاں رونما ہوئی جن میں’ آمدنی کا ذریعہ‘ اور آرگنائزیشن کا’ مشن‘ شامل ہیں ۔میڈیا کمپنیاںا شتہار اور خریداری کے حصول پر انحصار کرتی ہیں۔ جیتنے زیادہ ناظرین ہونگے، اسی طرح سے اس کی خریداری ااور اشتہارات بھی مل سکتے ہیں تاہم ملک بھرمیں ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ’’منفی ‘اور’مثبت ‘طریقہ کار اختیار کیا جارہا ہے جو کہ سماج و ملکی تعمیر و ترقی کیلئے غیر معیاری ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قارئین ، ناظرین اور سامعین صحافیوں کے علا وہ فلمی دنیا اور ٹی وی چینلوں کیلئے کافی ہمیت کا حامل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی فرقہ ،ذات یامذہب پر تنقید کرنے ،چینلوں میں بحث کروانے اور فلمیں بنانے سے ہی ان کی تعداد میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔اس کیلئے صحافت کے اصول ،معیاری رپورٹنگ ،عوامی مسائل کو سامنے لانے اور صاف و شفاف طریقہ کاراستعمال کرنے و صحافت کے دیگروں اصولوں پر چل کرتعداد اور کمائی میں اضافہ کیاجاسکتا ہے ۔
ایک صحافی کیلئے اہم ہے کہ وہ ملکی وسماجی حالات کی اس طرح سے عکاسی کرے کہ قارئین اس سے لطف انداز ہونے کے علاوہ تحقیق سے جانکاری حاصل کرسکیں ۔تحقیق و سماجی عکس قارئین تک پہنچنے اور ان کے ذہن پر اثر انداز ہونے کیلئے منفی کے بجائے مثبت طریقہ کار زیارہ ضروری ہے ۔صحافیوں کو چاہئے کہ وہ تحقیق کرنے اور پروگرام نشر کرنے کے دوران اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کو دیکھنے ،پڑھنے یا سننے والوں کا تعلق صرف کسی ایک مذہب یا فرقہ سے نہیںبلکہ جمہوری ملک اور ہندوستانی سماج سے ہے ۔ایک بس اسٹینڈ پر گاڑی کاانتظار کرنے والوں کو ’ناظرین ‘نہیں کہا جاسکتا بلکہ صحافیوں اور ٹی وی چینلوں کو چاہئے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ ناظرین ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو آپ کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ کیساتھ کسی نہ کسی طرح منسلک ہو ں حالانکہ اخبارت کی پرنٹنگ ،فوٹو گرافی ،ریکارڈنگ ،ریڈیو اور ٹی وی چینلوں کے بعد انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کے زمانے میں سماج کا ہر ایک فرد کسی نہ کسی طرح اس پیشہ سے وابستہ ہے لیکن اس کے باوجود بھی صحافت اور ناظرین کے معنی اور اصول تبدیل نہیں ہوتے ۔اگر تبدیلی آئی ہے تو وہ صرف لوگوں تک جانکاری پہنچانے کے طریقے میں ۔ناظرین تک منفی طریقہ کار سے جانکاری پہنچانے کے کیا اثرات رونما ہوتے ہیں اس کا اندازہ حالیہ دنوں میں کورونا وائرس کے دوران عائد پابندیوں اور تبلیغی جماعت کے اجتماع سے لگایا جاسکتا ہے ۔کئی دنوں تک ایک جماعت کے افراد کو بغیر کسی معقول جانچ کے من گھڑت کہانیوں کی مدد سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہاجس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھی ایک منفی پیغام گیا ہے ۔اس سے جہاں وائرس کی روکتھام کیلئے اپنائے جارہے عملی اقدامات پر بھی اثرات مرتب ہوئے وہیں ملک میں صدیوں سے چلے آرہے آپسی بھائی چارے کوبھی نقصان پہنچاحالانکہ اس مشکل دور میں کئی صحافی چینلوں پر اپنی نوکریاں بچانے کیلئے ایسا رویہ اختیار کر چکے ہیں لیکن سماج میں صرف ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کو کوروناوائرس کے پھیلائو کا ذمہ دار قرار دینے سے ہزاروں غریبوں کی روزی روٹی اور کمائی پر غلط اثرات مرتب ہوئے ہیں حالانکہ یہ سب جانتے ہیں کہ ملک میں پہلاکیس جب مثبت آیا تھا تو زندگی کے ہر ایک شعبہ سے تعلق رکھنے والوں نے تنقیدکے بجائے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دیا تھا تاہم بعد میں اس وائر س کوبھی مسلمان بنا دیاگیا جس سے ملک میں سیاسی جماعتوں کے بجائے میڈیا کے تصور حیات کا اندازہ لیاگا جاسکتا ہے ۔
سیاسی جماعتوں کے نظریات موسم کی طرح تبدیل ہونے سے سماج اس جدیددورمیں واقف ہے لیکن میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے جمہوریت کے اہم جز پر سے بھی لوگوں کا بھروسہ اٹھتا جارہا ہے ۔انٹر نیٹ پر ہر ایک آرگنائزیشن کئی طریقوںکو استعمال کر کے اپنے قارئین ، ناظرین اور سامعین کے نقطہ نظر کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ ان کی دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا مواد تیار کیا جاسکے جس کی مدد سے ان کے سبھی کام آسان ہو سکیں ۔ہر ایک آرگنائزیشن کو بخوبی معلوم ہے کہ ان کا مستقبل قارئین ، ناظرین اور سامعین کے بغیر ممکن نہیں ہے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے سوشل میڈیا اور براہ راست کئی ایسے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں جوکہ آپسی بھائی چارے کیلئے مناسب نہیں ہوتے تاہم کچھ آرگنائزیش کی جانب سے’ معیار‘و نشریاتی علاقوں کو ذہن میں رکھ کر مقامی مسائل کو ابھارنے کیساتھ ساتھ سنیئر صحافیوں اور سیاستدانوں کو نیوز روم میں دعوت دے کر مسائل پر تفصیلی بات چیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس وقت ملک میں آپسی بھائی چارے اور میڈیا شعبہ کو ’’منفی پروپیگنڈے ‘اور سوشل میڈیا صحافیوں سے خطرہ پیدا ہوگیاہے ۔ان سوشل میڈیا صحافیوں کی جانب سے اپنے ’لائیک ‘اور پیرو کاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے کیلئے کئی ایسی رپورٹیں تیارکی جاتی ہیں جن کا سماج کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ کچھ معاملات میں انتظامیہ کی جانب سے کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے لیکن اس سلسلہ میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔لیکن اگر اس پورے شعبہ اس وقت جائزہ لیا جائے تو ایک دو آر گنائزیشنوں کوچھوڑ کر باقی سبھی ’سیاست ،پیسہ اور پاور کا شکار ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جوکہ ہندوستانی سماج کیلئے اس مشکل وقت میں مضر ثابت ہو سکتا ہے ۔اس لئے شعبہ سے منسلک افراد کو چاہئے کہ وہ اس کے تقدس اور اصولوں کر برقرار رکھنے کی کوشش کریں ۔
رابطہ۔[email protected]
موبائل ۔9419952597
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)