صحافتی اقدار ، ٹیلی ویژن مباحثے اور سماج ! تاثرات

ذکی نور عظیم ندوی

 

صحافتی اقدار اور ذرائع ابلاغ کی اہم ذمہ داریوں میں حالات پر گہری نظر، اس کے مختلف مثبت اور منفی پہلوؤں سے واقفیت، اس کے پس منظر، متوقع نتائج، ملک و سماج پر اس کے اثرات،اس سلسلہ میں ماہرین تجزیہ نگاروں کے نقطہ ٔ نظر اور اس سے براہ راست متعلق افراد کے ردعمل سے بخوبی واقفیت کے بعدعوام تک اس کو حقیقی اور مناسب شکلوں اور عام فہم زبان میںپہنچاناہے، صحافت اور ذرائع ابلاغ نہ صرف یہ کہ بذات خود اہم شعبے ہیں ،بلکہ یہ دوسرے تمام شعبوں پر اثر انداز ہو کر ان کی صورت گری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ صحافت سے بگڑے حالات کی اصلاح ، جرائم کی نشان دہی اور بیخ کنی ، دوریوں اور نفرتوں کو قربت اور محبت میں ڈھالنے کا امکان پیدا ہوتا ہے اور یہ معاشرتی واقعات وحوادث کو تاریخی شکل میں مرتب کرتی ہے۔ اب تو یہ ملک وسلطنت اور حکومت وسماج کا اہم ترین ستون بنتی جارہی ہے ،اس کے ذریعہ قوموںاور سماج ہی نہیں بلکہ اجتماعی و انفرادی ہر طرح کے عروج و زوال ، ذلت و خواری اور عزت و سربلندی کی تعبیریں لکھی جارہی ہیں۔ بعض لوگ میڈیا پر یقین بھلے نہ کریںلیکن اس سے متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور عام لوگ تو اس کی ہر خبر کو ’’سچا‘‘ اور اس کے ہر پروگرام کو ’’اچھا‘‘ سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔

حالانکہ صحافت ایسی امانت ہے جس کے اصول و ضوابط کا مکمل پاس و لحاظ کئے بغیر اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اس سے متعلق افرادکو کم از کم انسانی اخلاقیات سے آراستہ ، ملکی نظام، اس کے وسیع ملکی و بین الاقوامی مفادات ، دستور اور تاریخی روایات ، آپسی رواداری کی عظیم وراثت، کثرت میں وحدت پر مبنی خصوصیات، موجودہ حقیقی صورت حال اور اس کے متوقع اثرات سے پوری طرح واقف ہونا چاہئے،ان کے اندر ہر لالچ، دباؤ، ترغیب کو ٹھکرانے کا جذبہ، حالات کو سمجھنے ،ملکی مفاد میں ان کو ڈھالنے اور مناسب تدبیر کرنے کی قابلیت ،معاملہ فہمی اورحکمت و تدبر اور اپنے جذبات وخواہشات اور ہیجانات پر قابوپانے کی صلاحیت بھی مطلوب ہے۔وہ میڈیا کی آزاد ی سے واقف ضرور ہوں لیکن اپنی تہذیب و ثقافت ،عدل و انصاف کی حدود وقیود اورحقیقی ،صالح و باکردارصحافت کے اصول وضوابط کے پابند ہوں،اور آزادی کے نعرہ میں ذمہ داری کو فراموش نہ کریں۔

اکیسویں صدی میںہر میدان میں ترقی کا اثرپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی مختلف و متعدد شکلوں اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم کی شکل میں سامنے آنے کے باوجود ٹیلی ویڑن کی اہمیت بہت حد تک برقرار ہے ،خاص طور پر نیوز چینلز اور اس پر ہونے والے مباحثوں کی افادیت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک بڑی تعداد اب بھی اسے شوق اور دلچسپی سے دیکھتی اور سنتی ہے اورملک و سماج پر اس کے واضح اثرات مرتب ہوتے ہیں،جن کا اصل مقصد ملک کو درپیش حقیقی مسائل کو موضوع بنانا، اس پر مختلف ماہر تجزیہ نگاروں، موضوع سے متعلق نمایاں افراد کاآپسی تبادلہ خیال ، اس کے ملک و ملت پر پڑنے والے اثرات اور منفی و مثبت پہلوؤں کا جائزہ لے کر سماج کو اس کے نقصانات سے بچانا اور اس کے مفید پہلوؤں سے فائدہ اٹھانے کے طریقوں کو اجاگرکرنا ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے ان مباحثوںمیں ایجنڈے پرمبنی موضوعات کو ترجیح دینے کا سلسلہ شروع ہوا جس میں عام طور پر مشہور سیاسی پارٹیوں کے نمائندے مسائل کی حقیقت، اس کے صحیح و غلط ،مثبت و منفی پہلوؤں اور حقیقی صورت حال سےبے پرواہ ہوکر اپنی پارٹی لائن کے مطابق گفتگو کو ترجیح دیتے ہیں، اوراگر اس کا تعلق کسی طرح مذہب سے ہوا تو مذہبی نمائندے ہندوستان جیسے کثیرالجہات اور کثیر ثقافتی ملک میں اپنے مذہبی نقطہ نظر سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔مجھے پہلی مرتبہ 2016 میں اس وقت زی نیوز کے مباحثہ میں شرکت کا موقع ملا جب تین طلاق کا موضوع کافی گرم تھا اور تقریبا تین سال تک میں اس غلط فہمی میںان مباحثوں میں شرکت کرتا رہا کہ مجھے اسلام اور مسلمانوں کی ترجمانی کا عظیم موقع ملا اور میں اردو عربی کے علاوہ دوسری زبانوں سے بھی کسی قدرواقفیت اور ملکی حالات و تاریخ اور دستور ہند کے مطالعہ سے اس ذمہ داری کو بخوبی ادا کرسکتا ہوں ، اور کبھی کبھی ایک دن میں تین چارمباحثوں اور ایک ہفتہ میں ایک ہی چینل پر تین چار د ن مدعو کیا جانے لگا ،لیکن تھوڑی تاخیر ہی سے سہی لیکن یہ واضح ہوگیا کہ ا س کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں اور یہ مباحثے کسی طرح ملی یا ملکی مفاد ، آپسی رواداری ، ملک میں رہنے والے افراد و طبقات میں باہمی پیارومحبت اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں مفید نہیں۔

اس سلسلہ میں اپنے تجربات اور مباحثوں کی حقیقی صورت حال سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ مباحثہ میں شرکت اور گفتگوصرف اس میں شریک ہونے والے تک محدود نہیں بلکہ اس کا تعلق اسلام ،اس کی تعلیمات اور ملک کے تمام مسلمانوں سے ہے جس کا کسی قدر حق اسی وقت ادا ہوسکتا ہے جب اسلامی تعلیم سے بخوبی واقفیت ہو ،ملکی تاریخ اور ملک میں پیش آنے والے اہم واقعات ،اس کے پس منظر اور نتائج واثرات پراس کی نظر ہو ، وہ ملکی دستور اور وقتا فوقتا اس میں ہونے والی تبدیلیوں اور اس کے اسباب و وجوہ سے بھی ناواقف نہ ہو، دشمنان اسلام ،ان کے عزائم اورمنصوبوں و حرکتوں، دوسرے مذاہب، ان کے بنیادی عقیدوں اور ملکی و مذاہب کی تاریخ پر بھی اس کی نظر ہو، اس کے اندر اپنی بات موجودہ ملکی حالات میں حکمت کے ساتھ اس انداز اور زبان میں پیش کرنے کا سلیقہ ہو جو بغیر کسی منفی اثر کے سب سمجھ سکیں۔گفتگو کا مقصدلوگوں کو لاجواب کرنااور ذاتی یا سیاسی مقاصد و مفاد کے حصول کے بجائے ان کو مطمئن کرنا، ملک وسماج میں نفرت وعداوت کی جگہ پیارو محبت کو فروغ دینا اور تمام شہریوںاور طبقات کو ان کا جائز حق دلانا ہو۔

یقینا بعض افراد اپنی گفتگو اعدادوشمار پر مشتمل حقیقتوں، عقلی بنیادوں، قانونی حوالوں، شرعی دلیلوں، دستوری شقوں، تاریخی بنیادوں، مخالفین کے بدلتے معیاروں اور حیرت انگیز کرداروں کو سامنے رکھ کر فریق مخالف کو للکارتے ہوئے ان ہی کے انداز اور زبان ،بلکہ کبھی کبھی اس سے بھی سخت اور تلخ انداز میں ان کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر جس بیباکی اور جرأت سے پیش کرتے ہیں اس کا کوئی ثانی نہیں، لیکن واقعات و حقائق شاہد ہیں کہ یہ عمومی ملی وملکی مفاد کے لئے سود مند نہیںبلکہ نقصان دہ ثابت ہوا۔

مباحثہ کے لیے لازمی مطلوبہ صلاحیت اور مناسب طریقہ کار اور زبان وبیان کے استعمال کے باوجود اس کی کامیابی اور اس کے ذریعہ صحیح مقاصد کی حصول یابی کے لئے چینل کے میزبان اینکر کی طرف سے مناسب وقت اور موقع ملنا، درمیان میں غیر ضروری اور غیر مناسب روک ٹوک سے پرہیز بھی نہایت ضروری ہے جس کا امکان بہت کم ہوتا ہے اور اگراس سے بچ گئے تو دیگر شرکاء کی بیجا مداخلت ، دوران گفتگو الزام تراشیوں، غلط بیانیوں ،گالی گلوج اور ایک دوسرے پر ذاتی نوعیت کے حملہ میں اپنے جذبات پر قابو رکھنا اور مباحثہ کو مثبت نتائج کی طرف لے جانا آسان نہیں۔ اور اگربفرض محال کسی طرح یہ بھی ممکن ہو گیا اور سلیقہ سے اپنی بات مثبت انداز میں پیش کرنے میں کامیابی مل گئی تو ایجنڈے کی بنیاد پر طے کئے گئے مباحثہ کے موضوعات سے فرقہ وارانہ ماحول اور آپسی منافرت پر مبنی سیاست برقراررکھنے سے کوئی نہیں روک سکتا جو کسی طرح نہ ملک کے مفاد میں ہے نہ ملک کے کسی طبقہ کے۔

[email protected]