صبر۔قرآن کی ایک بلیغ اصطلاح فکر انگیز

عمران بن رشید
صبر قرآن کی ایک بلیغ اصطلاح ہے۔ اللہ تعلی کا ارشاد ہے۔ انما یوفی الصابرون اجرھم بغیرحساب’’بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا ثواب بے حساب دیا جائے گا‘‘( الزمر۔10)۔مشہور عربی لغت ’’ مصباح اللُّغات‘‘  میں صبر کو بہادری اور مصیبت کی شکایت نہ کرنا سے تعبیر کیا گیا ہے۔صبرکی تشریح سے متعلق مختلف اقوال ملتے ہیں:۔
(1)۔ عمدہ زندگی صبر میں ہی پائی جاتی ہے۔(حضرت عمرؓ)(2)۔بری باتوں سے دور رہنااور محتاجی میں بے پرواہ رہنا۔(ذوالنون مصریؒ)(3)۔بلائے الہٰی پر ادب کے ساتھ سکوت کرناصبرہے۔(ابنِ عطاء)(4)۔بری بات سے نفس کو روکنا اور زبان سے کوئی شکوہ شکایت کا کلمہ نہ نکالنا۔(دائودرازؒ)
فارسی میں کہا جاتا  ’’صبر تلخ است و لیکن بر شیرین دارد‘‘ یعنی صبر تلخ یا کڑوا ضرور ہے مگر اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ تاریخ شاہدِ عادل ہے کہ جن لوگوں نے اپنی زندگی کو صبر سے پیوستہ رکھاوہ ابدی کامیابی سے ہمکنار ہوگئے۔ہر مصیبت اورپریشانی کے وقت اللہ کو یاد رکھنا اور اُسی سے استعانت طلب کرنا صبر کی بہترین علامت ہے۔صحیح بخاری کی کتاب الرِقاق میں حضرت ابو سعید ؓسے روایت ہے کہ چند انصاری صحابیٰؓ نے اللہ کے رسول ؐ سے کچھ مانگا ‘اس پر رسول اللہ ؐ نے اُنہیں وہ سارا مال دے دیا جواُس وقت آپ ؐکے پاس تھااس کے بعد فرمایا کہ میں ہر وہ اچھی چیز جو میرے پاس ہو تم سے بچاکے نہیں رکھتا‘مگر بات یہ ہے کہ جو بھی تم میں سے سوال کرنے یا ہاتھ پھیلانے سے بچتا رہے گا اللہ بھی اُسے غیب سے دے گا اور جو شخص دل پر زور ڈال کر صبر اختیار کرے اللہ بھی اُسے صبر د ے گا اور جو(رزق سے متعلق ) بے پرواہ رہے گا اللہ بھی اُسے بے پرواہ کردے گااور اللہ کی کوئی نعمت صبر سے بڑھ کر تم کو نہیں ملی(حدیث نمبر۔6470)۔اِس کے علاوہ ایک دوسری حدیث میں آیاہے کہ سترہزار لوگ بغیرِ حساب کے جنت میں جائیں گے‘ اِن میں وہ  لوگ بھی ہونگے جو خالص اپنے رَب پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں(بخاری۔6472)۔اس حدیث میں اگر چہ صبر کا ذکر نہیں ملتا تاہم امام بخاری ؒ نے اسے صبرکے باب میں لاکریہ درشایا ہے کہ خالص رب پر بھروسہ کرنے والے صابرین ہی ہوتے ہیں۔
 تَوَاصَوْبِالصَّبْر:۔ قرآن کی سورۃالعصرمیں ’’صبر‘‘ کو اُن چار شرائط میں شمار کیا گیا ہے جو ایک انسان کی ابدی کامیابی کی بنیاد قرار دی گئیں ہیںجن کی ترتیب اس طرح سے ہے:۔
(1)۔ایمان(2)۔اعمالِ صالح(3)۔تواصی بالحق(4)۔تواصی بالصبر
 گویا یہ کامیابی کی ایک سیڑھی بن گئی جس کا پہلا زینہ ’’ایمان‘‘ اور آخری زینہ ’’صبر‘‘ ہے۔جس کو طے کرنے کے بعد ہی انسان کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔ ’’تواصی بالصّبر‘‘ میں اگر چہ دوسروں کو صبر کی تلقین کرنے کو کہا گیا ہے‘تاہم دوسروں کو تلقین کرنے سے قبل انسان کو لازم ہے کہ وہ خودبھی صبر کا حامل ہو۔ صبرزندگی کے ہر مسلے کا حل ہے۔ صبر سے محروم انسان ہر وقت ذہنی تنائو میں مبتلا رہتا ہے ۔ ایسے لوگ جن کے اندر صبر کا فقدان ہوتا ہے، وہ ضعیف الایمان ہونے کے علاوہ قدرے پست ذہن بھی ہوتے ہیں۔مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایسے لوگوں پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی اور رجوع کرتے ہیں ۔حضرت ذکریاؑسے متعلق مشہور ہے کہ آپ زندگی کے اسّی سال تک اولاد کی نعمت سے محروم رہے مگر آپ نے کسی پیروفقیرکی طرف رجوع کیا اور نہ ہی کسی مزار پر سجدہ ریزی کی بلکہ صبر کا دامن تھام کراپنے معبودِ حقیقی سے التجا کی اور اللہ تعلی نے اُنہیں اُس عمر میں اولاد عطا کی جب وہ قدرے ضعیف ہو چکے تھے(القرآن)۔پیغمبروں کی زندگیوں سے بہترنمونہ بھلا ہمارے لئے اور کیا ہوسکتا ہے ۔
(سیر جاگیر ،سوپور۔رابطہ۔8825090545)