نسلِ آدم سے ایسی بھی شخصیات پیدا ہوئی ہیں جنہوں نے انسانیت کی بقا اور بھلائی کے لئے ایسے کارہائے نْمایاں انجام دیئے ہیں کہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی وہ اْنہی کارناموں کی بدولت انسانی دلوں میں بہت ہی عزت واحترام سے یاد کئے جاتے ہیں۔ایسی شخصیت کو عام لوگوں میں متعارف کرنے کے لئے اپنے اپنے وقتوں میں مختلف ذرائع کا استعمال کیا گیا اور آج کے ترقی یافتہ اور سائنسی دور میں ہم ایسی ہستیوں کو ٹیلی ویژن کے ذریعے عام لوگوں سے متعارف کراتے ہیں۔ان ہستیوں میں عالم ہوتے ہیں،دانشورہوتے ہیں،سیاسی رہنما ہوتے ہیں،ڈاکٹر اور انجینئرہوتے ہیں اور فنکار اور اداکار بھی ہوتے ہیں۔غرض کہ انسانی زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے انسان ہوتے ہیں،مگر قارئین حضرات! آج میں آپ کی دلچسپی کے لئے ایک ایسی ہستی کا انٹرویو لے کر آیا ہوں جسے ہم زمین پر بسنے والے انسان ’’شیطان‘‘کے نام سے جانتے ہیں۔
کہانی کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ ایک دس بارہ سالہ چالاک ،ہوشیار اور خدا ترس لڑکا اپنے گھر کا سودا سلف لے کر بازار سے گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے اور راستے میں اْس کی ایک باریش بزرگ سے ملاقات ہوتی ہے،علیک سلیک کے بعد لڑکا بزرگ سے اْس کا نام پوچھتا ہے تو بزرگ جھٹ اپنا نام ’’شیطان ‘‘بتاکر لڑکے کو حیران و پریشان کردیتا ہے۔شیطان لڑکے کی حیرانی اور پریشانی بھانپ کر اْسے اپنی سحر انگیز باتوں سے مطمئن کرکے کہتا ہے :اچھے لڑکے! میں جانتا ہوں کہ میرا نام سْن کر تمہارے دل میں ہزاروںوَسوسے ،اندیشے اور سوال اْبھر رہے ہوں گے،اس لئے بہتر ہے کہ ہم سامنے والے باغ کے اْس سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر آرام سے باتیں کریں اور جو کچھ تمہیں مجھ سے پوچھنا ہو،بِلا کسی خوف و ڈر کے مجھ سے پوچھ سکتے ہو اور پھر لڑکے اور شیطان کے درمیان سوال و جواب کا ایک دلچسپ سلسلہ یوں شروع ہوتا ہے۔
سوال:شیطان صاحب! تمہیں کب اور کس نے پیدا کیا اور تم ہم انسانوں میں اتنے بدنام کیوں ہو؟
جواب: برخوردار!میرا اور تمہارا تخلیق کار ایک ہی ہے اور وہ ہے اْس ربّ ِ عطیم کی ذات جو سب جہانوں کا مالک ہے اور وہ جب تھا جب کچھ بھی نہ تھا اور وہی جب ہوگا جب کچھ بھی نہ ہوگا۔مجھے آدم سے پہلے آگ سے تخلیق کیا گیا ہے ،میرا اصلی نام ’اذازیل‘ ہے اور میں ذی عزت ملائکہ میں شمار ہوتا تھا ،میں نے خدا کی بنائی ہوئی زمین کے چپَے چَپے پر اْس ذاتِ واحد کے آگے سجدے کئے تھے،لیکن تمہاری (یعنی آدم) کی وجہ سے ذلیل و خوار کیا گیا ہوں،وہ اس طرح کہ جب پروردگار نے مٹی سے آدم کی تخلیق کردی اور سارے ملائکہ کو اْس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا تو میرے بغیر سب آدم کے آگے سجدہ ریز ہوگئے،تب ربّ کائنات نے مجھ سے سجدہ نہ کرنے کی وجہ پوچھی اور میرے حساب سے وجہ معقول تھی کہ ایک تو میں نے اپنی ساری زندگی اْسی ذاتِ پاک کی عبادت میں گذاری تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ میں آگ سے پید اکیا گیا ،بھَلا ایک مِٹی کے پتلے کے آگے کیسے سر بسجود ہوتا ،غرض کہ غرور اور تکبر مجھ پر غالب ہوا اور اسی ایک نافرمانی کی بِنا پر مجھے آسمانوں سے نکال کر زمین پر ٹپک دیا گیا لیکن زمین پر آنے سے پہلے میں نے پروردگار سے وعدہ کیا ہے کہ جس آدم کی وجہ سے میری تذلیل ہوئی ،میںبھی اْس کو ذلیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا اور پروردگار نے مجھے یہ کہہ کر اس بات کی اجازت دے دی کہ ’’جا میں تجھے قیامت تک زندہ رکھوں گا مگر ایک بات یاد رکھ کہ چاہے تُو کتنا بھی زور لگالے مگر میرے بندوں پر تمہارا کوئی دائو نہ چل سکے گا ،اس طرح آدم اور میرے درمیان یہ جنگ شروع ہوئی جو تا روزِ قیامت جاری رہے گی۔اے لڑکے ! میری یہ بات بھی ذہن نشین کرلو کہ میں صرف اور صرف بْرائی ہوں،میں حق پر باطل کی فتح چاہتا ہوں ،میں آدم کی ہر نیکی کو گناہ سے مِٹا دینا چاہتا ہوں ،اسی لئے میں بدنام ہوں۔اْمید ہے کہ تمہیں تمہارے پہلے سوال کا جواب مل گیا ہے۔
سوال: تْم آدم کو کس طرح زیر کرلیتے ہو؟
جواب:اے اولادِ آدم!آدم کو زیر کرنے کے لئے مجھے کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔میں تو بس بْرے خیال کا ایک رنگین عکس بن کر ہر دِل میںموجود رہتا ہوں اور یہ آدم ہی ہے جو اپنے تیز ترین دماغ کو بروئے کار لاکر اْس عکس کو ایسا پھیلائو دیتا ہے کہ اْس کا دل پوری طرح میرے قبضے میں آجاتا ہے اور پھر وہ خود کو میرے سْپرد کرکے ایسے کارنامے انجام دینے میں مصروف ہوتا ہے جنہیں دیکھ کر میں خوشی اور مسرت محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ کبھی ششدر بھی رہتا ہوں،مگر ایسے بھی آدم ہیں جن کے دل صرف خوف ِ خدا سے بھرے ہوتے ہیں اور ایسے ہی انسانوں سے میں ڈرتا ہوںکیونکہ یہی وہ بندے ہیں جو اپنے انجام سے پوری طرح با خبر رہ کر اپنے دماغ کا صحیح استعمال کرکے حرام و حلال ،حق و باطل ،کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرکے مجھے ہر موڈ پر شکست سے دوچار کرتے ہیں۔مگر لڑکے! میں جانتا ہوں ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔میں تو آدم کا ازلی دشمن ہوں اور یہ دشمنی میں روز ِ آخر تک نبھائوں گا کیونکہ ربّ ِ کائنات سے میں نیوعدہ کیا ہے کہ میں آدم کو گمراہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کروں گا ،رہا میرا اپناانجام،میں اْس سے بے خبر نہیں ہوں۔میں اپنا آخری ٹھکانہ بھی جانتا ہوں مگر میں ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم ،تمہیں بھی لے ڈوبیں گے‘‘کے ذرین اصول پر آج بھی قائم ہوں اور تا قیامت اسی اصول پر کاربند رہوں گا۔
سوال: شیطان میاں! یہ بتائو کہ مرد و زَن میں تمہارا دائو سب سے زیادہ کس پر چلتا ہے؟
جواب: ارے چھوٹے میاں!یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔میرا پہلا شکار (حوا) یعنی عورت ذات ہی تو ہے ،جِسے میں نے بہلا پْھسلاکر معہ اپنے شوہر نامدار (آدم)کے جنت سے بے دخل کروادیا۔آدم کی پسلی سے نکالی ہوئی یہ ٹیڑھی ذات قیامت کے صْبح تک ٹیڑھی ہی رہے گی،یہ ذات اپنے دماغ پر کم اور دل کے فیصلوں پر عمل کرنے میں زیادہ یقین رکھتی ہے۔اگرچہ صنف ِ نازک ہے مگر وہ دو دھاری تلوار بھی ہے،اگر وفا شعار ی میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر توڑ پھوڑ کرنے والا ایسا بم بھی ہے جس کے پھٹنے سے دور دور تک زمین بھی پھٹ جاتی ہے۔اگر اْس کی زبان چلتی ہے تو ’’راونڈ دی کْلاک‘‘ چلتی رہتی ہے۔اِس ذات کو خاموشی سے نفرت ہے ،یہ تو ایک ہی ہاتھ سے تالی بجانے کی ماہر بھی ہے ،اپنے ارادے کی اتنی پکی ہے کہ ایک آہنی ارادوں والا مرد بھی اْس کے آگے سرخم تسلیم کرنے پر مجبور ہوتا ہے،عورت ذات ہی میرا ( Most Senior)شاگرد ہے اور یہی میرا وہ مہلک ترین ہتھیار بھی ہے جس کے ذریعے میں آدم کو پلک جھپکنے میں زیر کرتا ہوں،نہ یہ ذات میرے بہکاوے میں آتی ،نہ آدم کو جنت حاصل کرنے کے لئے ایک کڑے امتحان سے گذرنا پڑتا اور نہ ہی میرا (یعنی شیطان) کا کوئی وجود ہوتا۔الغرض! میرے تینوں یعنی سونے چاندی اور کانسی کے تمغوں کی یہ حقدار بھی ہے۔بہر حال! مجھے لگتا ہے کہ میری باتیں تمہارے کچھ زیادہ پَلے نہیں پری ہیں کیونکہ تمہارا ذہن ابھی اتنا کھلا ہوا نہیں ہے اس لئے آسان طریقے سے تمہیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔دیکھو! اگر حوا کی یہ بیٹی ایک ماں کے روپ میں محبت اور شفقت کا ایک سمندر ہے تو ساس کی صورت میں کبھی کبھی یہ جلاد بھی بن جاتی ہے۔ایک بیٹی کی شکل میں اگر اپنے میکے کو گلستان بنانے کے سارے اوصاف اس میں موجود ہیں تو بہو کی شکل میں اپنے سْسرال کے پھل دار پیڑ کی شاخ تراشی کرنے میں بھی ماہر ہے۔ایک بہن ہوکر اگر بھائی پر اپنی جان تک نچھاور کرسکتی ہے تو بیوی بن کر شوہر کا قافیہ حیات تنگ بھی کردیتی ہے،حرص و ہوس کا مادہ اس ذات میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔تمام کالے اور نرالے رسم و رواج کی یہ موجد بھی ہے ،زمین پر بسنے والے نوے فیصد گھرانوں میں عورت ذات ہی ملکہ معظمہ بن کر حکومت چلاتی ہے،مرد بے چارہ بادشاہ ہوکر بھی اس کی غلامی میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے،الغرض عورت ایک ایسا معمہ ہے جو آج تک مرد کی سمجھ میں نہیں آتی ہے اور آئے گی بھی نہیں کہ اس کے دونوں دل اور دماغ میری گرفت میں جو ہیں۔
سوال: شیطان جی! تم سے میرا آخری سوال ہے کہ کیا تم کبھی روتے یاہنستے بھی ہو؟
جواب: اے ابنِ آدم! یہ سوال پوچھ کر تم نے میری دْکھتی رَگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔کاش میں نے تْم سے تمہارے سوالوں کا جواب دینے کا وعدہ نہ کیا ہوتا تو تمہارے اس آخری سوال کے پہلے حصے کا میں کبھی جواب نہ دیتا۔اب ذرا غور سے سْن لو!میرے رونے کے زمانے بیت گئے ،مجھے رْلانے والے اس زمین پر اب موجود نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو بہت ہی قلیل تعداد میںہیں،جن سے میری ملاقات شاذو نادر ہی ہوتی ہے،تمہاری جانکاری کے لئے کہے دیتا ہوں کہ میں اْس وقت روتا ہوں جب میں کسی خدا کے بندے کو سجدے میں دیکھتا ہوں کیونکہ اسی ایک سجدے کے کارن میری گردن میں لعنت کا طوق ڈال کر اور مجھے ذلیل و خوار بناکر آسمانوں سے نیچے زمین پر پھینک دیا گیا۔یہی وہ بندے ہیں جن سے میں خوف کھاتا ہوں کیونکہ اْن کی زبان سوتے جاگتے ،اْٹھتے بیٹھتے ،ہمیشہ یادِخدا سے تر رہتی ہے ،اْن کے کان صرف صدائے حق سْننے کے عادی ہوتے ہیں ،اْن کے ہاتھ گناہوں کے مٹانے اور نیکیوں کو سمیٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ضمیر اپنے نگہبان بنائے ہوتے ہیں ،ایسے ہی اللہ والوں کی نگاہوں سے انسانوں کی تقدیریں بھی بدلتی ہیں،یہی وہ نیک لوگ ہیں جن پر اپنی رحمتوں کی بارش کرنے کے لئے آسمان بے تاب اور ان ہی قدم بوسی کے لئے زمین منتظر رہتی ہے۔ربّ العزت کے یہی وہ جیالے اور نڈر سپاہی ہیں جو دنیا کی کڑی سے کڑی آزمائشںکا صبر و رضا کے پیکر بن کر مردانہ وار مقابلہ کرکے صرف اْسی ذات کی غلامی میں فخر محسوس کرتے ہیں اور بے شک ایسے ہی خدا کے بندوں کو راستے میں دیکھ کر میں اپنا راستہ ہی بدل دیتا ہوں۔اب دھیان رکھ اور دل کے کان کھول کر سْن!میں اْس وقت قہقہے لگاکر ہنستا ہوں جب آدم اپنے ربّ کے روبرو کھڑا ہوکر ’اِیاکَ نعبَدْ وَ اِیاکَ نستعین‘کا معاہدہ کرکے بہت سارے خدائوں کے مدد کا طلب گار رہ کر اس معاہدے کی دھجیاں اْڑا دیتا ہے،جب ایک عالم بے عمل میرے شاگردوں میں وعظ و تبلیغ کرکے اْن سے نقدی کے علاوہ بہت سارے تحفے تحائف وصول کرکے اپنے آپ کو دین کا سچا پیروکار تصور کرنے لگتا ہے،جب ایک ہر فن مولا سیاست دان اپنا بازار مَند ا دیکھ کر میرے چیلے چانٹوں سے ہڑتالیں کرواکر دوست و دشمن دونوں سے مال اور زَر وصول کرکے اپنے آپ کو بڑا افلاطون سمجھنے لگتا ہے،جب ایک بے ضمیر ڈاکٹر اپنی بے بس اور مفلس قوم کو خون میں لت پٹ چھوڑ کر حصولِ زر کے لئے سمندر پار مْلکوں کا رْخ کرتا ہے ،جب ایک جلاد صفت دوا فروش بیماروں کو نقلی دوائیاں کِھلا کر اْن کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتا ہے،جب ایک رشوت خور انجینئر کروڑوں کا غبن اور گھپلا کرکے اپنے لئے ایک شاہی محل بنواکر اْس کے باہری گیٹ کی دیوار میں’’ھٰذا مِن فضلِ ربی‘‘لکھی ہوئی سنگِ سیاہ کی ایک سِل چنوادیتا ہے ،جب حرام کی دولت کمانے والا شہرت کا بھوکا ایک نَو دولتیا اپنے مال ِ حرام کی نْمائش کے لئے میرے پیروکاروں کو رنگ برنگے پکوانوں کے ساتھ شاہی ضِیافت کھِلاکر اْن سے دادِ تحسین حاصل کرکے پھولے نہیں سماتا ہے۔
اے قابل لڑکے! مجھے اْمید ہے کہ مجھ سے اپنے سوالوں کے جواب سْن کر تمہیں پوری تسلی ہوئی ہوگی۔کیونکہ آج تک میں نے تیرے سِوا کسی بھی آدم کے سامنے اپنے خیالات کا اتنی سچائی سے اظہار نہیں کیا ہے۔اب تم ہی مْنصف بن کر ایمانداری سے بتائو کہ کیا میں ہی (یعنی شیطان) آدم کو بہکانے کا ذمہ دار ہوں؟ شیطان کا یہ فلسفیانہ اور عیارانہ سوال سْن کر اور کچھ دیر تک سوچنے کے بعد لڑکے نے پہلے’’اَعوذْ باللہ ِ مِنَّ الشیطانِ الرَجیم‘‘پڑھ لیا اور پھر ایک دم بْلند آواز میں ’’اللہ ْاکبر‘‘کہہ کر سجدے میں گِر گیا ،یہ دیکھ کر شیطان نے اپنے ہاتھ سے اپنا ماتھا پیٹ کر کہا : ہائے میری بدنصیبی!! آج ایک لمبی مدت کے بعد میں ایک بار پھر چوٹ کھا گیا اور وہ بھی آدم کی ایک کمسن اولاد سے،اور پھر چیختا چِلاتا اور سینہ کوبی کرتا ہوا لڑکے کی نظروں سے اوجھل ہوگیا اور لڑکا بھی ’سْبحان َ رَبی الاعلیٰ‘کہہ کر سجدے سے اپنا سَر اْٹھاکر اور چھوٹے چھوٹے قدم اْٹھاتا ہوا اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔
پتہ۔احمد نگرسرینگر،کشمیر
فون نمبر۔9697334305