مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس سر زمین کشمیر کو ، جسے ولیوں اور عارفوں کی سرزمین کہا جاتا ہے، یہ فخر حاصل ہے کہ اس کی آغوش میں ایسے نفوس قدسیہ نے جنم لیا جن کی ہمہ گیری مسلم ہے اور جن کے اثرات دیر پا ہے۔ ماضی قریب میں شیخ العالمؒ کی شیخصیت ایسی ہے جن کا کلام اور فکر و خیال آفاقی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے اپنے پیچھے کچھ ایسے محکم اور مضبوط نشان چھوڑے جو زمانے کی کسی بھی گرد سے مانند نہیں پڑے بلکہ ہمیشہ آنے والے قافلوں کے لیے نشان راہ ثابت ہوئے۔
کشمیر میں جہا ں تک ریشیت اور صوفیت کا تعلق ہے تو اس حوالے سے اُن کا نام ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ان کی تشریف آوری سے نہ صرف کشمیر م یں ریشیت اور صوفیت کا سلسلہ جاری و ساری رہا بلکہ یہ نئی بلندیوںاور اونچائیوں سے ہمکنار ہوا۔کشمیر میں شیخ العالم کو ’’نند‘‘ کہہ کر پُکارتے ہیں۔ اور اس نام میں بذات خود ریشیت کی بو باس آتی ہے۔ اصل میں یہ لفظ ’’نورالدین‘‘ کا مخف ہے جس کے معنی ہیں ’’فہم و فراست رکھنے والے صاحب‘‘۔ یہ لقب شیخ العالمؒ کی شخصیت اور ذات سیحقیقی مناسبت رکھتا ہے۔ان کی فہم و فراست اور بصیرت سے ان کے کلام کو آفاقی سچائی کا درجہ ملتا ہے۔
اس ہمہ جہت شخصیت رکھنے والے صاحب بصیرت نے ریشیت کو ایک الگ زاویے سے دیکھا، سمجھا اور پیش کیا۔سوال یہ ہے کہ ریشیت اصل میں کیا ہے؟ کیا یہ رہبانیت، گوشہ نشینی ہونے یا کسی غار میں قید تنہائی کاٹنے سے عبارت ہے۔اگر ایسا ہے تو بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ایک وہ شخص جو عمر بھر قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کا درس دیتا رہا ، نعوذ باللہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے منحرف ہو۔ ایسا ہر گز ممکن نہیں۔ ایک ایسا شخص جو قرآن و سنت کو ضابطۂ حیات بنانے کی حد درجہ تلقین کرتا ہو اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ بھلا قرآنی احکامات سے انحراف کرے۔کیوں کہ قرآن نے رہبانیت کی زندگی گزارنے سے واضح طور پر منع کیا ہے۔اور قرآن کے اس فرمان کو قرآن کے عملی تفسیر در حضرت محمد ﷺ نے بھی یہ فرما کر تائید کی’’لا رہبانیت فی الدین‘‘ یعنی دین اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں۔
خود شیخ العالمؒ رہبانیت کی زندگی اختیار کرنے کو معیوب سمجھتے تھے۔ وہ گوشہ نشین ہوکر محض عبادت اور ریاضت کرنے کو بھی نا پسند کرتے تھے ان کا کہنا ہے ؎
ونَن پنز تہ واندر آسن
گگر گپھن پرن واس
یِم پانژن وقتن اگہ مل کاسَن
نِشہ آسن باژن تِمی چھِ خاص
یعنی جنگل میں گپھاؤں اور غاروں میں زندگی گزارنا تو اصل میں بندروں اور چوہوں کا کام ہے۔ حقیقی عارف اور عابداصل میں وہی ہے جو اہل خانہ کے بیچوں بیچ رہ کر زندگی گزارے اور پانچ وقت کے نماز کی پابندی لازمی بنائے۔ کیوں کہ درحقیقت بارِ عیال کارِ ابدال کے مترادف ہے۔حلال کمائی کرکے اپنے اہل و عیال کو روزی روٹی فراہم کرکے اللہ کی بندگی اختیار کرنا حقیقی عارفوں اور عابدوں کی اصل شناخت اور پہچان ہے۔سماج و معاشرے میں زندگی گزار کر اپنے نفس کو قابو میں رکھنا اصل میں بڑا جہاد ہے۔ سماج و معاشرے کو چھوڑ کر تارکِ دنیا اور گوشہ نشین ہونا اصل میں مردانگی نہیں بلکہ بزدلی کی علامت ہے۔شیخ صاحب بار بار اپنے کلام میں ان باتوں کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ اپنے محبوب چیلے نصرؔبابہ کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں ؎
نصرؔبابہ جنگلن کھسُن گیہ خامی
مے دوپ یہِ آسہِ بڈ عبادتھ
وُچھتہ یہِ اس بڈ بدنامی
سر اس کرن کُنی کتھ
اوپر الذکر اشعار کا جب باریک بینی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ حقیقت واضح اور عیاں ہو جاتی ہے کہ شیخ العالم درحقیقت رہبانیت اختیار کرنے کے سخت منافی تھے۔ وہ سماج و معاشرے سے ناطہ توڑ کر غاروں میں زندگی گزارنے کو ایک شرمندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ چناںچہ بابا داود مشکوٰتیؒ ’’اسرار الابرار‘‘ نامی کتاب میں ان کی رہبانیت مخالفانہ زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:’’حضرت شیخ العالمؒ بہ غار در آمد و طریق رشید مجدد گردانید و طریق رہبانیہ و برہمنیہ واہی ساخت۔‘‘(اسرار ابرار، ص ۵۹)
جس بلند پایہ شخصیت نے میر سید علی ہمدانیؒ جیسے پابند شرعیت اور خدا دوست انسان کے ہاتھوں پر بیعت لی ہو بھلا اس شخص کے لیے یہ کیوں کر ممکن تھا کہ وہ رہبانیت کی زندگی کے دلدادہ ہوتے۔ در حقیقت ریشیت ترک دنیا اور ترک لذات کا نام نہیں ۔ تو پھر اصل میں ریشیت کے کون سے معنی ہیں؟یہ ایک بحث طلب موضوع ہے ۔ اس حوالے سے سیّد محمد اشرف کی درجہ ذیل تحریر قابل توجہ ہے۔ یہاں پر اقتباس کے بجائے محض اس کا مفہوم درج کیا جاتا ہے:’’دراصل شیخ العالمؒ کی پیدائش سے پہلے ہی یہ سرزمین ایسے آدمیوں سے خالی نہیں تھی جو خدادوست اور انسان پرست تھے۔ انہی لوگوں کو غالباََ اس وقت کی سنسکرت زبان میں ریشی کہا جاتا تھا۔ بعد میں جب اسلام کا ظہور ہوا اور یہ کو بہ کو پھلنے اور پھولنے لگا تو اس میں بھی یہ لفظ برابر ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا رہا جو نیک اور خدا پرست تھے۔ کیوں کہ یہ بات قطعی ہے کہ اسلام نے کسی بھی زبان کے ساتھ بغض اور تعصب نہیں برتا۔‘‘
ریشیت کا مطلوب و مقصود اگر محض غاروں میں گوشہ نشین ہونا اور آستانوں کے مجاور بن کر اپنی پیٹ پالنا ہے تو پھر شیخ العالمؒ اور ریشیت کے درمیان دور دور تک کوئی بھی واسطہ نہیں۔وہ ایسے نبض شناس واقع ہوئے کہ انہیں آنے والے زمانے کی رگ رگ سے واقفیت تھی۔ وہ یہ جانتے تھے کہ آنے والے زمانے میں ضرور کچھ نفس پرست لوگ ریشیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کردین کا مذاق اڑائے گے ۔وہ دینی رخت و لباس میں اپنے نفس کی پوجا کرنے والوں کو چور کہتے ہیں۔وہ آج کے ریشیوں کی آئینہ داری اپنے کلام میں اس طرح کرتے ہیں ؎
ازِک ریش چھِی کالک ریشی
یِمن کھنس کُنی غم
تہِ کھتھ تہِ یِمن خداے مَشی
ریش ہے یِم تہ ژوٗر کم
ان کے نزدیک حقیقی ریشی وہ ہے جو اپنے نفس کا لگام دے کر اپنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی مرضی اور رسول اللہﷺ کی عین خواہش کے مطابق گزارے۔سچائی اور سادگی جس کی زندگی کا انمول گہنہ ہو۔وہ قلیل پر بھی قناعت کرکے اللہ کے حضور سجدۂ شکر بجا لاتا ہو۔جو دنیاوی لذات سے بے نیاز ہوکر محض اللہ کی بندگی کو اپنا اوڑنا بچھونا بنائے ہوئے ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ماضی کے ریشیوں کے گیت اپنے کلام میں گاتے ہیں کیوں کہ وہ انہی صفات اوربلند عزائم سے مالا مال تھے ؎
نصرؒبابہ ریش اس پتِم ریشی
نال اوسُکھ جَند تہ بَنگہ پن
منگِتھ اس اَنان وِشکہِ کشِی
تپ اس پراوان منز ونن
من جملہ طور پر یہ کہنے میں بالکل بھی تو تامل نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کلامِ شیخ العالمؒ میں جو ریشیت کا تصور اُبھرتا ہے وہ خداپرستی، انسان دوستی اور آخرت پسندی سے عبارت ہے۔ تبھی انہوں نے اپنے آپ کو ریشیت سے منسوب کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے۔ درجہ ذیل اشعار اس حوالے سے اہم معلوم ہوتے ہیں جن میں وہ استفسار اورنیم شاعرانہ تعلی کے پیرائے میں اپنے آپ کو ریشیت کے مقدس سلسلے سے منسوب کرتے ہوئے دیدینی ہوتے ہیں ؎
اول ریشی احمدؐ ریشی
دویِم اوٗیس قرنیؓ آو
تریِم ریشی زلقاؒ ریشی
ژوٗرِیمِ ریشی میرانؒ آو
پوٗنژیُم ریشی رُمہؒ ریشی
شییِم ریشی پلاسؒ آو
ستمِس کرہم دِشنا ہشی
بہ کُس ریشی مے کیا ناو
رابطہ ۔ہیف شرمال، شوپیان کشمیر
ریسرچ سکالر شعبۂ اُردو سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر
ای میل۔ [email protected]