شہزادہ بسمل کی دو نئی کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔اِن میں ایک اُن کے کالموں کا تیسرا مجموعہ ہے اور دوسری کتاب اُن کے دو ناولٹوں (’چندا کی چاندنی‘ اور ’پیاسی ندیا‘)پر مبنی کتاب’’سوزِ بسمل‘‘ہے،جس کی اشاعت سے موصوف نے افسانہ نگاری اور کالم نگاری کے بعد ایک اور صنف میں اپنا کھاتہ کھولا ہے۔ ناول ۔اِس سے قبل کہ بسمل صاحب کی زیر نظر دو ناولٹوں پر کچھ کہا جائے،ایک نظر جموں و کشمیر میں اُردو ناول کے ارتقائی سفر پر ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے،جس کی طرف نسبتاً کم ہی لوگوں نے توجہ کی ہے۔
جموں و کشمیر میں اُردو ناول نگاری کا باضابطہ آغاز بیسویں صدی میں ہوا۔ اس سے قبل انیسویں صدی کے اواخر میں کچھ ایسی تصانیف منظر عام پر آچکی تھیں، جن کو ہم ناول کے اوّلین نقوش سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر برج پریمی کے الفاظ میں: ’’انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے شروع میں سب سے پہلے ناول نگاری کی شروعات پنڈت سالگرام سالک اور مولوی محمد الدین فوقؔ نے کی۔ سالگرام سالک نے ’داستان جگت روپ‘ اور ’تحفۂ سالک‘ تصنیف کرکے نثر کے اس شعبے کی طرف توجہ کی۔ اگرچہ یہ تصانیف قطعی طور پر ناول کے زمرے میں شامل نہیں کی جاسکتیں، لیکن ان میں قصے کی مہک ہے۔ ’داستان جگت روپ‘ ناول سے زیادہ ایک داستان ہے۔ اس سے بہتر کوششیں محمد الدین فوقؔ کے یہاں ملتی ہی۔ فوقؔ کی تصانیف ایک سو کے لگ بھگ ہیں۔ ان میں ان کے نثری کارنامے بھی شامل ہیں۔ ان میں بعض قصوں پر ناول نگار کا اطلاق کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (’جموں و کشمیر میں اردو نثر کی نشوونما‘ ص:۴۰)
سالکؔ کے قصے ’داستان جگت روپ‘ کا گردوپیش کی حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، جب کہ فوقؔ کے دو ناول خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کے نام ہیں: (۱) انار کلی (۲) اکبر۔ ہرچند کہ فوقؔ ’’کشمیریات‘‘ کے ماہر ہیں اور ان کی بیشتر تصانیف کا مرکز و محور ’کشمیر‘ ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر ان کے ناولوں کے موضوعات کشمیر سے متعلق نہیں ہیں۔ فوقؔ کو ڈاکٹر برج پریمی نے اپنے عہد کا سب سے بڑا ادیب قرار دیا ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ فوقؔ نے تاریخی کتابیں، تذکرے، ناول، ڈرامے اور دیگر کتابیں تصنیف کرکے ریاست کے اندر و باہر وطن عزیز کی حقیقی ترجمانی کا کام اپنا فرض سمجھ کر انجام دیا، لیکن ان کے ناولوں کے موضوعات میں کشمیر عنقا ہے۔ ’ناکام‘، ’ناصح مشفق‘، ’غریب الدیار‘ اور نیم حکیم ان کے دیگر ناول ہیں، جن میں عموماً جذبۂ حب الوطنی کو مہمیز دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کی بات ہے۔ اُس وقت تک غیر منقسم ہندوستان میں اردو ناول نگاری نے ارتقاء کے کئی مراحل طے کئے تھے۔ صدی کے وسط تک ناول نگاری میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
سالکؔ اور فوقؔ کے بعد دو نام لیے جاتے ہیں: موہن لال مروہ اور وشوا ناتھ، جن کے بارے میں پروفیسر ظہور الدین نے لکھا ہے کہ مروہ نے ’داستانِ محبت‘ اور وشوا ناتھ نے ’تلاشِ حقیقت‘ کے نام سے ناول لکھے۔ ان کے بعد ناول نگاری میں ایک اور نام پنڈت نند لال بےغرضؔ کا لیا جاسکتا ہے، جن کی تصنیف ’تازیانۂ عبرت‘ کو ڈاکٹر برج پریمی نے سرشار کے ’فسانۂ آزاد‘ کی تقلید میں لکھا گیا ناول قرار دیا ہے، حالانکہ پروفیسر عبدالقادر سروری نے اس کتاب کو بےغرضؔ کا ’مجموعۂ کلام‘ گردانا ہے، جو شائع نہیں ہوسکا۔ (کشمیر میں اُردو، ج:۲، ص:۳۱۲)۔ پنڈت بے غرضؔ نے اپنے والد پنڈت ٹیکا لال قانعؔ اور دادا پنڈت واسہ کاک باسکرؔ سے ذوقِ شعر گوئی و نثر نگاری ورثے میں پایا تھا۔
افسانہ نگاری میں یدِ طولیٰ رکھنے والے پریم ناتھ پردیسی سے ایک ناول ’پوتی‘ منسوب کیا جاتا ہے، جو بقول ڈاکٹر پریمی ’۱۹۴۷ء کی افراتفری کی نذر ہوگیا‘۔
اسی زمانے میں نرسنگھ داس نرگس کے دو ناول: (۱) پاربتی (۲) نرملا منظر عام پر آگئے۔ ان کے ساتھ ہی رامانند ساگر ٹھاکر پونچھی اور کشمیری لال ذاکر کی ناول نگاری کی صلاحیتوں کا بھی اظہار ہونے لگا۔ دونوں نے اردو ادب کو اپنے کامیاب ناولوں سے مالا مال کیا۔
رامانند ساگر کا ناول ’اور انسان مرگیا‘ فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا وہ ناول ہے، جو برصغیر کے ادبی حلقوں میں کافی عرصے تک موضوعِ بحث بنا رہا۔ ڈاکٹر برج پریمی کے بقول:’ساگر نے اپنے ناول کو سرینگر کی ترقی پسند مصنفین کی انجمن میں قسط وار پڑھ کر سنایا تھا‘۔
ٹھاکر پونچھی کے ناولوں میں شامل ہیں: (۱) رات کے گھونگھٹ (۲) ڈیڈی (۳) وادیاں اور ویرانے (۴) شمع ہر رنگ میں جلتی ہے (۵) پیاسے بادلک (۶) یادوں کے کھنڈر (۷) زلف کے سر ہونے تک (۸) چاندنی کے سائے (۹) اب میں وہاں نہیں رہتا (۱۰) اداس تنہائیاں۔ ڈاکٹر شیخ مختار احمدنے ٹھاکر کے ناولوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ان کے ناولوں میں روماں بھی ہے، ترقی پسندی بھی۔ انہوں نے ریاست کے جموں خطے کے پس منظر میں ناول لکھے اور ڈوگرہ طرزِ زندگی کی تصویریں پیش کیں۔ ان کے خاص موضوعات میں سماجی، سیاسی اور مذہبی استحصال اور دیہاتی زندگی کے مسائل شامل ہیں۔ ٹھاکر کے ناولوں میں جو قدرتی حسن کا پس منظر ہے، وہ کشمیر کے قدرتی مناظر کا عکس ہے۔ (مضمون: ’کشمیر کے اردو ناول نگار‘ مشمولہ ’تحریکِ ادب‘ وارانسی، [شمارہ:۲۱] ص:۱۱۰)
کشمیری لال ذاکر کے ناولوں میں شامل ہیں: (۱) سیندور کی راکھ (۲) جاتی ہوئی رُت (۳) دھرتی (۴) سدا سہاگن وغیرہ۔
مدن موہن شرما، برج کیتال اور مالک رام آنند وغیرہ کے ناول بھی منظر عام پر آکر ریاست میں اردو ناول کے ذخیرے میں اضافہ کرگئے، لیکن ریاستی ناول نگاروں کے لکھے گئے ناولوں کا فنی معیار کیا رہا، اس پر پروفیسر منصور احمد منصور کا درج ذیل اقتباس کشمیر میں اردو ناول کے معیار و مقدار، کمیت و کیفیت اور مزاج و منہاج پر ایک برمحل تبصرہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اگر یہ کہا جائے کہ (ریاست میں) ناول ۱۹۴۷ء کے بعد ہی مرکزِ توجہ بنا، تو شاید بے جانہ ہوگا۔ چنانچہ ناول کی صورت میں ہمارے پاس جو سرمایہ موجود ہے، اس کا بیشتر حصہ ۱۹۴۷ء کے بعد کی پیداوار ہے۔ کمیت کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ ناول انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، لیکن کیفیت کے لحاظ سے یہ ناول مایوس کن نہیں۔ یہاں کے ناول نگار بلاشبہ ان فنّی معیاروں کو چھونے سے قاصر ہیں، جو اُردو میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین وغیرہ نے قائم کئے ہیں، لیکن یہاں کے ناول نگار جس فنی مہارت اور ریاضت کا ثبوت بہم پہنچا رہے ہیں، وہ امید افزاء بھی ہے اور قابل ستائش بھی۔ یہ ناول فنی، تکنیکی اور موضوعی اعتبار سے حد درجہ روایتی ہیں، لیکن ان ناولوں کی اہمیت کا اصل مدار اس بات پر ہے کہ یہ کشمیر کے مختلف سیاسی، سماجی، معاشرتی اور تہذیبی رنگوں کو پیش کرتے ہیں‘‘۔ (مضمون: ’جموں و کشمیر میں اردو ناول‘، مشمولہ: ’شیرازہ‘ [جموں و کشمیر میں اردو ادب کے پچاس سال] ص:۱۷۶، ۱۷۷)
مدن موہن شرما (پ: ۱۹۴۲ء/ میرپور) کے کئی افسانوی مجموعوں کے علاوہ چند ناول بھی ہیں، جن میں شامل ہیں:(۱) ایک منزل چار راستے (۲) پیاسے کنارے۔
برج کیتال نے بھی افسانوں کے علاوہ ناول بھی لکھے ہیں۔ اُن کے ناولوں میں: (۱) چراغ بجھنے سے پہلے (۲) وغیرہ شامل ہیں۔
مالک رام آنند نے بھی افسانوں کے ساتھ ساتھ متعدد ناول لکھے، جن میں (۱) نئے خدا (۲) دہکتے پھول، شبنم آنکھیں (۳) صلیب اور دیوتا (۴) اپنے وطن میں اجنبی وغیرہ شامل ہیں۔
تقسیم ملک کے بعد ریاست کے ادبی و شعری افق اور ناول نگاری کے محاذ پر بہت سارے فنکار چمکنے لگے، جن میں غلام رسول سنتوش، علی محمد لون، تیج بہادر بھان، حامدی کاشمیری، اختر محی الدین، بھوشن لال بھوشن، وجے سوری، شبنم قیوم، عمر مجید، وحشی سعید ساحل، رشید پروین، فاروق رینزو، جان محمد آزاد، عبدالغنی شیخ، ویریندر پٹواری، دیپک کنول، آنند لہر، ترنم ریاض، زاہد مختار، عبدالرشید راہگیر وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں پر صرف ان کی ناول نگاری کے حوالے سے بات وہگی، کیونکہ افسانہ نگاری، شاعری اور دیگر اصناف میں ان کی طبع آزمائی پر متعلقہ باب میں تذکرہ ہوچکا ہے۔ ریاست میں اردو ناول نگاروں کے اس مختصر سے کاروان کی تخلیقی صلاحیتوں اور ناول نگاری سے ان کی گریز پائی پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے پروفیسر منصور احمد منصور نے بجاطور پر لکھا ہے:
’’کشمیر میں اردو ناول کی ترقی و ترویج میں یہ فنکار سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر ناول نگار دو ایک ناول لکھ کر اس فن سے دست کش ہوگئے۔ انہوں نے سنجیدگی سے اس فن کو نہیں اپنایا، بلکہ بس ایک آدھ ناول لکھنے کا شوق پورا کیا، حالانکہ ان فنکاروں نے اپنے کارناموں سے ثابت کیا ہے کہ وہ اس صنف میں کافی دور تک جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ نثر کی اس اہم صنف کے جہانِ دیگر سے سرسری سے گزرے‘‘۔ (مضمون: ’جموں و کشمیر میں اردو ناول‘، مشمولہ: ’شیرازہ‘ [جموں و کشمیر میں اردو ادب کے پچاس سال] ص: ۱۸۱)
پروفیسر حامدی کاشمیری ( 1932ء-2018ء) کی بنیادی پہچان ایک شاعر اور نظریہ ساز نقاد کی ہے، لیکن انہوں نے فکشن نگاری میں بھی اپنے گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ افسانوں اور منظوم کلام کی طرح اُن کےاُردو ناولوں میں بھی تصورِ بہشت ِکشمیر اور کشمیر کے تاریخی، تمدنی،ثقافتی،معاشرتی اور سیاسی معاملات ومسائل اور دردوکرب کی غم آلودفضا پس منظر میں رقصاں ہے ۔ بقول پروفیسر منصور احمد منصور:
’’حامدی کاشمیری کے ناول میں رومان کی سحر انگیزی ہے، لیکن پس منظر میں کشمیر کی زندگی اور یہاں کا سیاسی و سماجی ماحول شدت کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ یہی ان کے ناولوں کا طرئہ امتیاز ہے‘‘۔ (ایضاً، ص:۱۸۲)
ان کے ناولوں میں: (۱) بہاروں میں شعلے [۱۹۵۶ء] (۲) پگھلتے خواب [۱۹۵۷ء] (۳) اجنبی راستے [۱۹۵۸ء] (۴) بلندیوں کے خواب [۱۹۶۱ء] (۵) پرچھائیوں کا شہر (ناولٹ) شامل ہیں۔ناول ’بلندیوں کے خواب‘ میں حامدیؔ نے کشمیر کی انتہائی دردناک تصویریں پیش کی ہیں، جب کہ ’پرچھائیوں کا شہر‘ میں وہ خارجیت سے داخلیت کی طرف محوِ سفر نظر آتے ہیں۔
تیج بہادر بھان (پ:۱۹۳۱ء/ سرینگر) کے دو افسانوی اور دو ناول زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں۔ افسانوں کے ساتھ ساتھ ان کے ناولوں کے موضوعات بھی اوّل تا آخر کشمیریات کے مرکز و محور سے وابستہ ہیں۔ بقول ڈاکٹر شیخ مختار احمد:
’بھان کے ناول ’سیلاب اور قطرے‘ میں ایشیا کی مشہور جھیل ولر کے پس منظر میں ایک غریب خاندان کی زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے ایک طرف غربت اور افلاس کی ماری زندگی کی بڑی دلدوز تصویریں کھینچی ہیں اور دوسری طرف نوکر شاہی اور سرکاری استحصال کا بھی پول کھول دیا ہے۔ ان کے یہاں کشمیر کی معاشی اور معاشرتی زندگی کی حقیقی تصویریں ملتی ہیں‘‘۔ (مضمون: ’جموں و کشمیر میں اردو ناول‘، مشمولہ: ’شیرازہ‘ [جموں و کشمیر میں اردو ادب کے پچاس سال] ص:۱۱۱)
ان کے ناولوں میں: (۱) سیلاب اور قطرے [۱۹۶۷ء] (۲) پہچان [ناولٹ ۱۹۸۰ء] شامل ہیں۔(مضمون جاری ہے۔۔۔۔۔)
(رابطہ۔9906662404)