! شہر و گام پانی کی ہاہاکار

گزشتہ دنوں یوٹی انتظامیہ کی جانب سے جل جیون مشن کے تحت پندرہ روزہ تقاریب کا اہتمام کیاگیا جس میں اس مشن کی کامیابیوں پر فخر کیاگیا اور یہ دعوے کئے گئے کہ اب جموںوکشمیر میں ہر گھر نل سے جل پہنچانے کا مشن تکمیل سے زیادہ دور نہیںہے بلکہ سرکاری دعوئوں کے مطابق کئی اضلاع میں یہ مشن مکمل ہوچکا ہے۔یہ تصویر کا ایک رخ ہے جبکہ دوسرا رخ تصویر کا یہ ہے کہ آج بھی شہر اور اس کے مضافات اور مفصلات میں پانی کی عدم دستیابی پر نہ صرف احتجاج ہورہے ہیںبلکہ آج بھی آپ مضافاتی علاقوں میں خواتین کو برتن لئے ندی نالوںسے پانی لاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں اور کئی مقامات پر خواتین اور مردوںکو واٹر ٹینکروں کی آمد کے انتظار میںپائیں گے۔

یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ پانی کی فراوانی کے باوجود تقسیم ملک کے 73سال بعد بھی کشمیری عوام پانی کیلئے ترس رہے ہیںگوکہ اس کیلئے محکمہ آب رسانی رقومات کی عدم دستیابی کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے اس سیکٹر پر جس طرح ریاستوں کو زر کثیرفراہم کیا گیا ،ایسے میں یہ امید کی جارہی تھی کہ پانی کے مسئلے پر کافی حد تک قابو پایا جاسکے گا تاہم جموںوکشمیر میں حکومت سازی کا چونکہ باوا آدم ہی نرالا ہے لہٰذا یہاں یہ چیزیں خلاف توقع نہیں ہے ۔جہاں تک جل شکتی محکمہ کا تعلق ہے تو یہ محکمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست انسانی آبادی کے وجود سے ہے اور اگر پانی فراہم نہ ہو تو موت طے ہے اور اگر پانی غلیظ ملے تو بیماری یقینی ہے تاہم مذکورہ محکمہ جان بوجھ کر عوام کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ گرما میں پوری وادی میں ہی نہیں بلکہ جموں صوبہ کے خطہ چناب میں ہزاروں لوگ یرقان اور دست و قے کی بیماریوں میںمبتلا ہوگئے لیکن محکمہ ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ مذکورہ محکمہ اس حد تک خو گر ہوچکاہے کہ اب صارفین کو ایگریمنٹ کے باوجود بھی پانی فراہم نہیںکیاجارہا ہے ۔محکمہ آب رسانی کا ایک اہم ڈویژن پی ایچ ای ڈویژن سرینگر ہے جس کے ذمہ شہر سرینگر میں بود وباش اختیار کرنے والوں کو صاف پانی فراہم کرنا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ڈویژن اپنے فرائض سے آنکھیں چرا رہا ہے ۔جو پانی لوگوں کو فراہم کیا جارہا ہے وہ اصل میں قابل استعمال نہیں ہے اور اس پر طرہ یہ ہے کہ یہ پانی بھی وقت پر لوگوں کو فراہم نہیں کیا جارہا ہے،نتیجہ کے طور پر پانی کی ہاہاکار مچ جاتی ہے ۔جوابدہی کے فقدان کی وجہ سے جل شکتی محکمہ صرف پیسے دینے والی مشین تک محدود رہ چکا ہے جہاں کاموں کے ٹینڈر صرف یہ جان کر نکالے جاتے ہیں کہ لوگوں کی جیبیں کتنی گرم ہوں ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو پانی کی سپلائی کا یہ عالم نہ ہوتا۔ایک صارف کو ایگریمنٹ کے بعد پانی فراہم کرنا محکمہ کی ذمہ داری ہے لیکن اس کیلئے بھی پیسوں اور نذرانے کا جواز پیدا کرنے کیلئے کہاجاتا ہے کہ پائپیں نہیں ہیں اور جب صارف دفتر کے چکر کاٹ کاٹ کر تنگ آجاتا ہے تو اس کے پاس نذرانہ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ہے۔ غور طلب ہے کہ حکام بالا اس صورتحال سے بالکل باخبر ہیں ،یہاں تک کہ سیکریٹریٹ میں بیٹھے بابو حضرات بھی ایسے افسران کی خرمستیوں سے آگاہ ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے ۔ایسے میں لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اس محکمہ کے لوگ اوپر سے نیچے تک ملے ہوئے ہیں اور نذرانوں کا حصہ سب کو ملتاہے ورنہ وہ کون سے غیبی ہاتھ ہیں جو ایک اعلیٰ آفیسر کو اپنے ماتحت عملہ کے خلاف کارروائی کرنے سے روکتے ہیں۔

شفافیت اور رشوت خوری کے خلاف جنگ کے بلند و بانگ دعوے کئے جارہے ہیں ۔اگر یہ دعوے صحیح ہیں تو ایسے ملازمین کا کوئی بال بھی بیکا کیوں نہیں کرتا جبکہ ان کے خلاف حکام کو بدعنوانیوں کے پختہ ثبوت مل سکتے ہیں۔اگر حکومت رشوت خوری مخالف جنگ میں سنجیدہ اور پر خلوص ہے تو ایسے لوگوںکو چلتا کرنا ضروری ہے تاکہ ان اہم محکموں کے تئیں عوام کا اعتماد بحال ہو۔پی ایچ ای محکمہ کی موجودہ مخدوش صورتحال کودیکھ کر یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ حکومت سرکاری محکموں میں جوابدہی اور شفافیت لانے میں سنجیدہ نہیںہے اور یہ بیانات صرف ہاتھ کے دانت ،کھانے کے اور دکھانے کے اور تک ہی محدود ہیں جو پڑھنے میں تو بہت اچھے لگتے ہیں لیکن عملی دنیا سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے۔اگر جل شکتی محکمہ عوام میں اپنی ساکھ بحال کرنا چاہتا ہے تو محکمہ کے اعلیٰ حکام پر لازم ہے کہ وہ غفلت شعار اور بدعنوان لوگوں کی لگام کس لیں ورنہ ہمیں مجبوراً یہ کہنا پڑے گا کہ اس جرم میں سب برابر کے شریک ہیں۔