شہدائے منگ کی یادمیں

 قوم پر اپنا آج قربان کرنے والوں کو ہر وقت یاد کرنے والی قومیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں مگر یہ قوم اپنے شہداء کو اک سال بعد بھی یاد نہ کر سکی اور نہ ہی ان کی قربانیوں کا ذکر کیا جا سکا۔ اس کا ثبوت یوں لگایا جا سکتا ہے کہ 14نومبر گزرکیا مگر کشمیرکاز کے لئے سب کچھ نچھاور کر دینے والوں خواب خرگوش میں سوئے رہے۔ کسی جگہ سے شہدائے منگ کی یاد میںایک آدھ تقریب بھی نہ ہوئی۔ اس بارے میں کوئی بیان تک بھی نظروں سے نہ گزرا۔ ایسے میں شہدائے منگ جیسے ایام آتے ہیں اور نکل جاتے ہیں۔ تاریخ کہتی ہے کہ یہ 14نومبر1832کا دن تھا جب سکھا شاہی کے مظالم کے خلاف کشمیری اٹھ کھڑے ہوئے۔ پونچھ کے لوگ شروع سے بہادر اور جفاکش گزرے ہیں۔ کبھی یہ لوگ بھی دیگر کی طرح آزادی پسند اور دلیر تھے۔ کبھی یہ غلامی کو قبول نہ کرنے کا عزم رکھتے تھے۔ سکھ حکمرانوںکے مظالم کے خلاف یہ سینہ سپر ہو گئے۔ اس تحریک کی کمان اس وقت شمس الدین مجاہد کے ہاتھ میں تھی۔ وہ کسی کی فنڈنگ کے انتطار میں نہیں رہے اور نہ ہی کیس این جی او کا سہرا لیا۔ انھوں نے چندے بھی وصول نہیں کئے۔ وہ سکھ فوج کے خلاف ایک مخلص  جان بازاورمجاہد تھے۔ گھر سے کھایا، زاد رِاہ لیا اور اللہ کی رضا کے لئے نکل پڑے۔ کسی پر احسان نہیں جتایا۔ قربانی کا صلہ بھی نہیں مانگا، اس کا کریڈٹ بھی نہیں لیا۔ یہ تھے شہید ملی خان اور سبز علی خان  جیسے عظیم فرزندان کشمیر۔ جب کشمیری رنجیت سنگھ کے خلاف میدان میں آئے تو اس وقت بھی بعض ضمیر فروش موجود تھے لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی۔ گلاب سنگھ کو اس جدوجہد کو کچلنے کا موقع ملا۔ وہ رنجیت سنگھ کی فوج میں جنرل تھا۔ گلاب سنگھ کی فوج نے پونچھی عوام کا قتل عام شروع کر دیا جس طرح آج وردی پوش کشمیر میں نسل کشی میں مصروف ہیں۔ گلاب سنگھ کو کشمیری مزاحمت ختم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ گلاب سنگھ نے نوجوانوں کو پکڑ کر ان کے ہاتھ پائوں کاٹ ڈالے، گردنیں اڑا دیں، سر قلم کر کے درختوں پر لٹکا دیئے۔،بھر جلا دیئے، شہر ودیہات میں لوٹ مار کی لیکن بدترین مظالم کے باوجود اسے جدوجہد کچلنے میں ناکامی ملی ۔ منگ میں سردار ملی خان اور سبز علی خان کی زندہ کھالیں کھینچ لی گئیں۔ یہ دردناک مناظر تھے، کھالیں کھینچنے کے بعد ڈوگرہ اور سکھ فوج نے ان نوجوانوں کی لاشیں لٹکا دیں۔ کہتے ہیں وہ درخت آج بھی موجود ہے، یہاں پر اب یادگار تعمیر کی گئی ہے۔ راولپنڈی سازش کیس میں منگ کے ہی کرنل خان محمد خان کا نام لیا جاتا ہے جنھوں نے تحریک آزادی کی جنگ لڑی، عالمی جنگ دوم میں بھی شرکت کی۔ بعد ازاں دوسرے راستے پر چل پڑے۔ پونچھ کے حکمران سردار شمس خان نے سکھ راج اور مظالم کے خلاف بغاوت کی تو کہتے ہیں سردار نور خان نے غداری کرتے ہوئے انہیں مہاراجہ کے حوالے کر دیا۔ تحریک میں سدھن اور ملدیال ہی نہیں بلکہ ہر کسی قبیلے نے قربانیاں پیش کیں۔ آج ان عظیم شہداء کے مشن پر چلنے کا وقت ہے مگر یہاں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لوگوں کو علاقوںاور برادریوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ لوگ ظاہری اور باطنی طور پر متصادم ہیں۔ ایک کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا داری کے لئے لوگ آپس میں سلام دعا کرتے ہیں، ورنہ دن بدن ان میں نفرتیں اور دوریاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ سب کا مقصدایک ہی ہے، زاتی مفاد، کرسی، اقتدار، مراعات۔ ایک وہ بھی تھے جنھوں نے قوم کی آزادی کے لئے اتحاد اور اتفاق کے لئے خود کو قربان کر دیا۔ ہم آج سب کو اپنے مفاد پر قربان کر رہے ہیں۔ نئی نسل تعلیم یافتہ ہے۔، اب اسی سے توقع ہے کہ یہ ذات برداری، قبیلوں، علاقائیت کے بت پاش کر دے گی اور زمانہ جاہلیت کی یادگاریں اور نشانیا ں مٹادے گی۔ اسلاف اور بزرگوں کی اعلیٰ خدمات اور قربانیوں پر فخر کرنے یا اکڑنے کے بجائے وہ قومیں تاریخ میں نام پیدا کرتی ہیں جو ہر وقت کچھ مثبت کر گزرنے اور تاریخ کو رقم کرنے میں یقین رکھتی ہیں۔شہداے منگ اور شہدائے کشمیر خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ان شہداء کو زبردست خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ ہو گا کہ ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق کشمیر اور اہل کشمیر کا بھلا چاہے۔ انفرادی سے بڑھ کر اجتماعی کوششیں زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہیں۔ اللہ شہدائے منگ سردار شمس خان، سردارملی خان، سردارسبز علی خان، سردارمستانہ خان، سردارباز خان، سرداربنگش خان، سردار محمد یار خان، سردار مرید خان، سردار راجولی خان، سردارملکوں خان سمیت تمام شہداء کی قربانیاں قبول فرمائے۔ آمین 
