شہاب نامہ

  قدرت اللہ شہاب مرحوم ایک خوشحال اور پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔والد عبد اللہ، گلگت میں کلرک کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ اپنی محنت اور لگن سے وہ کشمیر کے مہاراجہ کی طرف سے وہاں(گلگت) کے گورنر بنائے گئے تھے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ عبد االلہ کے بڑے اچھے مراسم تھے۔ شیخ عبد اللہ اور چودھری غلام عباس بھی بسا اوقات عبد اللہ سے مشورے لینے آتے تھے۔قدرت اللہ شہاب کی ابتدائی تعلیم غیر منقسم پنجاب کے ضلع انبالہ موضع چمکور صاحب میں ہوئی۔جموں میں اپنے قیام کے دوران پرنس آف ویلز کالج جموں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا جہاں سے انگریزی کے مضمون میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی۔ شہاب بچپن ہی سے بلا کی ذہانت کے حامل تھے۔ اپنے کالج کے تیسرے سال میں تھے، تو لندن کے ایک بین الاقوامی مضمون نویسی کے مقابلے میں حصہ لیا ۔شہاب نے اِس مقابلے میں اوّل پوزیشن حاصل کرکے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈالا۔ تقسیم ہند سے قبل1941 ء میں برطانیہ راج کے زیرِ اہتمام منعقد کرائے گئے انڈین سِول سروس(ICS) امتحان میں حصہ لیا ۔ امتحان میں 750افراد میں سے 11 افراد کو کامیاب قرار دیاگیا۔شہاب بھی اِن گیارہ کامیاب شدہ اُمیدواروں میں سے ایک تھے۔ شہاب کو اگرچہ سول سروسس سے دلچسپی نہیں تھی(جیسا کہ کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے) لیکن باوجود اِس کے شہاب نے اپنے دورِ ملازمت میں ایمانداری کے کئی ابواب رقم کیے ہیں۔ شہاب نے تقسیم ہند سے قبل متحدہ ہندوستان کے بِہار، بنگال اور اُڑیسہ جیسے علاقوں میں اعلیٰ انتظامی آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد شہاب پاکستان چلے گئے اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل غلام محمد، پھر سکندر مرز ااور بعد ازاں صدر ایوب خان کے سیکریٹری منتخب ہوئے۔علاوہ ازیں حکومتِ ’’آزاد کشمیر‘‘ کے سیکریٹری جنرل اور ضلع جھنگ میں ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ پاکستان میںجنرل یحییٰ کے برسراقتدار آنے کے بعد شہاب نے سول سروس سے استعفیٰ دیااور اقوامِ متحدہ کے ادارے’’ یونیسکو ‘‘سے وابستہ ہو گئے۔’ یونیسکو‘ سے اپنی وابستگی کے دوران شہاب نے اسرائیل کی شر انگیزیوں کا جائزہ لینے کے لیے عرب کے کئی مقبوضہ علاقوں کا خفیہ دورہ کرکے اسرائیل کی شر انگیزیوں کا پردہ چاک کیا۔ 
قدرت اللہ شہاب ایک بیوروکریٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اُردو زبان کے معروف ادیب اوراعلیٰ پایہ کے نثر نگار بھی تھے ۔ اپنی خود نوشت شہاب نامہ کے علاوہ یاخدا،ماں جی، نفسانے، سرخ فیتہ جیسی تصانیف اُن کے اعلیٰ پایہ ادیب ہونے کے عملی ثبوت ہیں۔قارئین کو شہاب نامہ میں جابجا اُن کی ادب کے تئیں دلچسپی کا خوب ادراک حاصل ہوتا ہے۔ آسمانِ اُردو ادب کے بڑے بڑے شعراء اور نثر نگاروں سے شہاب کے اچھے مراسم تھے۔ پاکستان میں رائٹرس گلڈ کی تشکیل شہاب کی ہی کوششوں سے عمل میں آئی تھی۔ حکومتِ پاکستان نے شہاب کی مملکتِ پاکستان کے تئیں خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اُنھیں’ ستارۂ قائد اعظم‘ او’ر ستارۂ پاکستان ‘کے اعزازات سے نوازا ۔ قدرت اللہ شہاب اپنی شعوری زندگی کے آغازہی سے ڈائری لکھنے کے عادی تھے۔اپنی سرکاری ملازمت سے جُڑی بے پناہ مصروفیات کے باجود وہ لکھنے پڑھنے سے برابر وابستہ رہے۔ اُردو کے بلند پایہ شاعر ابن انشاء سے اُن کی اچھی رفاقت تھی۔ ایک روز ابن انشاء نے شہاب کے یہ روزنامچے دیکھے تو ابن انشاء نے اِن صفحات کو حذف و اضافہ کے ساتھ ایک کتابی شکل دینے کا مشورۂ خاص دیا۔اِس طرح سے شہاب نے ابن انشاء کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے’’ شہاب نامہ‘‘ مرتب کی۔’’ شہاب نامہ ‘‘سوانح حیات ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے موضوع پر ایک بھرپور کتاب ہے۔ کتاب میں جموں و کشمیر میں ڈوگرہ راج کے خلاف کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کے مختلف مراحل کا تذکرہ شامل ہے۔علاوہ ازیں ینگ مینز مسلم ایسوسیشن، مسلم کانفرس اور نیشنل کانفرس سے جُڑی ابتدائی معلومات کے علاوہ شیخ عبد اللہ اور چودھری غلام عباس کی سیاسی اپروچ اور اِن دونوںسیاست دانوں کے مابین پیدا ہوئے اختلافات کو بھی کتاب میں زیرِ بحث لایا ہے۔ برطانوی سامراج کے خلاف ہندوستان کی تحریکِ آزادی کی روداد،محمد علی جناح،پنڈت نہرو، گاندھی جی، سردار پٹیل ، مسلم لیگ اور کانگریس سے جُڑے مختلف واقعات کو کتاب میں شامل کیا ہے۔ گویا یہ کتاب تقسیم متحدہ ہندوستان سے ماقبل اور مابعد، مطالبۂ پاکستان اورقیام پاکستان اور ڈوگرہ راج کے خلاف جموں و کشمیر میں  پیدا ہوئی سیاسی بیداری کی ایک چشم دید داستان ہے۔
کتاب کے مطالعہ سے شہاب  ایک ایماندار اور دردِ دل رکھنے والے بیروکریٹ کے طور پر نظر آتے ہیں۔ کتاب میں شامل کئی واقعات اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بطور ایک انتظامی آفیسر کے شہاب نے روایت سے ہٹ کر کام کرنے کے نئے اور منفرد طریقے وضع کیے۔نیزرشوت کے سدِ باب کے لیے اقدامات اور غریبوں، مسکینوں اور لاچاروں کی مدد کے لیے کئی فلاحی اسکیموں کو متعارف کرایا۔شہاب کتاب میں جابجا خوف خدا کے جذبے سے لبریز نظر آتے ہیں۔ قیام پاکستان کے مقصد کو پاکستان میں فوت ہوتے ہوئے دیکھ کر شہاب اکثر نالاں نظر آتے ہیں۔ وہ پاکستان میں نظامِ مصطفیؐ کے قیام کے خواہاں تھے اور شائد یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے موقع پر اُنہوں نے پاکستان کی راہ اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ ’’ شہاب نامہ‘‘کا اسلوب تحریر سلیس اور دلچسپ ہے۔کتاب میںقدم قدم انشائیے کی خوبیاں اپنے عکس وآہنگ کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ کتاب کے اندازِ بیان سے مصنف کی ذہانت کا خوب مظاہرہ ہوتا ہے۔ محاوروں اور ضرب الامثال، علمی و سائنسی نکات سے بھرپور یہ کتاب برصغیر خصوصاً پاک و ہند کی ایک مقبول و معروف کتاب ہے۔ ابو لاثر حفیظ جالندھری ؒنے قدرت اللہ شہاب مرحوم کی شخصیت کی کیا ہی خوب تصویر کھینچی ہے    ؎
جب کہیں انقلاب ہوتا ہے
قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے