سید اعجاز
ترال //’شکار گاہ ‘ترال ماضی میں اہم شخصیات اورمہارجہ ہری سنگھ کامن پسندتفریحی مقام ہونے کے باوجود ہنوزسیاحتی نقشے پر جگہ نہیں پاسکااوراس خوبصورت مقام کو ابھی تک کسی بھی حکومت نے وعدوں کے باوجود سیاحتی مقام کادرجہ نہیں دیاجس وجہ سے یہاں ابھی تک سیاحوں کیلئے کسی بھی ڈھانچے کاقیام ممکن نہ ہوسکا۔قصبہ ترال سے قریب4کلو میٹر دوران گھنے جنگلات اور فلک بوس ’’ژیر سنگر‘‘پہاڑوں کے دامن میں شکار گا ہ ترال واقع ہے ۔یہ علاقہ قوئل سے توسہ کھوت تک پھیلا ہوا ہے جس میں سینکڑوں اقسام کے درخت اور جانور پائے جاتے ہیں۔ سابق ریاست جموں کشمیرکے مہارجہ ہری سنگھ سمیت ملک کی کئی سرکرد ہ شخصیات یہاں گرمی کے موسم میں قیام کے علاوہ شکار کھیلنے کی غرض سے آتی تھیں ۔
ان کے آرام و آسائش کے لئے یہاں ایک خوبصورت ہٹ بھی تعمیر کی گئی تھی جس میں اس زمانے میں بھی تمام سہولیات میسر تھی۔ اُس وقت تمام بڑے بڑے قصبے مواصلاتی نظام سے اگرچہ ناآشنا تھے،لیکن شکار گاہ تک ٹیلی فون لائن پہنچائی گئی تھی ،جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مہاراجہ کو کس قدر اس علاقے کے ساتھ دلچسپی تھی۔علاقے سے تعلق رکھنے والے کچھ معمر لوگوں نے بتایاکہ مہاراجہ کے زمانے میں یہ جنگل سرینگر جموں شاہراہ کے کچھچکوٹ( کے کوٹ)سے برا برشکار گاہ تک انتہائی گھنا تھا،جس کو خود غرض عناصر نے وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ نقصان پہنچایا۔اُس زمانے میںشکار گاہ کے جنگل میں کسی کے داخل ہونے پر پابندی تھی تاکہ یہاں موجود مختلف قسم کے جانوروں کا کوئی شکار نہ کرے اوربغیراجازت اس علاقے میں داخل ہونے والوںپر5روپے کا جرمانہ عائد کیا جاتا تھا۔جبکہ جنگل میں نمایا ںجگہوں پر جانوروں کولالچ دینے کے لئے نمک کی ڈلیوں،پتے،اورنرم ٹہنیا وافر مقدار میںرکھی جاتی تھی تاکہ یہ جانور یہاں مسلسل قیام کر سکیں جن کو بعد میں شکار کیا جاتا تھا۔بزرگوں کے مطابق جب مہاراجہ شکار کے لئے آتے تھے تو آس پاس کے گائوں کے لوگوں کو یہاں لایاجاتا تھا ،جو یہاں شور مچا(ہکھ)کر جنگلی جانوروں کو اس طرف دھکیل دیتے تھے ،جہاں مہاراجہ شکار کے لئے بیٹھے ہوتے تھے ۔اس جنگل کے بیچ بوچھوگائوں کے پہاڑی تک ایک سڑک نکالی گئی تھی جس پر اپنی کار میں وہ علاقہ کا چکر لگاتے تھے اور اس خوبصورتی کا نظارہ کرتے تھے ۔وہ سڑک آج بھی موجود ہے لیکن اب اس پر کافی درخت اورپیڑ اگ آئے ہیں ۔دستیاب جانکاری کے مطابق سال1938ء میں وائس رائے ہندلارڑ لنتھگونے شکار گاہ میں شکار کھیلنے کی خواہش کی اور اس دوران مہاراجہ نے اونتی پورہ سے شکار گاہ تک سڑک کو قابل آمد رفت بنایاتھااور ان کے یہاں قیام کے دوران لوگوں کو گھروں میں ہی رہنے کا حکم دیا گیا تھا، جبکہ مویشیوں کو بھی اس مدت کے دوران گھروں سے باہر لانے کی اجازت نہیں تھی ۔
معروف معالج و مصنف ڈاکٹر نثاراپنی تصنیف آئینہ ترال میں لکھتے ہیں،’’ڈاکٹرشنکر دیال شرماصدر آل انڈیا کانگریس یہاں1973ء سے1974کے درمیان ڈاکٹروں کے مشورے پربلڈ پریشر کے علاج کی غرض سے آئے تھے ۔ عالمی شہرت یافتہ معالج ڈاکٹر علی جان انہیںیہاں3بار دیکھنے کے لئے آئے تھے۔سید میر قاسم وزیر اعلیٰ جموں و کشمیراس وقت ان سے یہاں ملنے آئے اوربعد میں ڈاکٹر شنکردیال شرما نے ہالمرگ کے مقام پر ایک تقریر کی تھی جس دوران انہوں نے اعلان کیا تھامیں حکومت جموں کشمیر اورحکومت ہند سے کہوں گا کہ شکار گاہ کو ایک اہم صحت افزا مقام کے طور بڑھاوا دیا جائے ۔لیکن شکار گا ہ ہنوز سیاحتی مقام کا درجہ پانے کا منتظر ہے ۔
شکار گاہ شیخ محمد عبد اللہ سمیت کئی سرگردہ شخصیات کی انتہائی پسند دیدہ جگہ تھی لیکن کسی بھی سرکار نے اس جگہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ۔ شکار گاہ کے ایک بڑے حصے میں محکمہ وائلڈ لایف نے سینٹر زو اتھارٹی آف انڈیا کے اشتراک سے ’’ہانگل افزایش نسل کامرکز‘‘تعمیر کیا ہے جس میں یہاں کے مقامی ہانگل کو ہی اس سنٹر میں لایا گیا ہے تاکہ یہاں کے ہانگل کی افزائش ہوجائے جبکہ یوٹی میں ہانگل کی تعداد میں کمی کے باوجود اس علاقے میں سال کے الگ الگ موسموں خاص کر موسم بہار میں ہانگل لوگوں کے باغات میں سیب کے درختوں اور سبزیوں کو نقصان پہنچاتے ہیںجس سے ہانگل کی اچھی خاصی تعداد کا شارہ ملتا ہے ۔شکار گاہ کے دوسرے طرف بڑے بڑے میدان ہیں جنکو سیاحت کے لئے بڑھاوا دیا جا سکتا ہے جبکہ یہاں ٹریکنگ کے لئے بہترین راستہ بھی ہے ۔