شمیر حل کشمیری قوم کی اُمنگ !

 

 آج کل کشمیر ماتم کناں ہے، یہاں کے حالات دیکھ کر آسمان چیخ رہاہے، زمین سینہ کوبی کررہی ہے، شجر وحجر واویلا کر رہے ہیں، جہلم اپنے خونی رنگ پر دم بخودہے،کہیں دلدوز چیخیں ہیں کہیں خونِ ناحق سے تر بہ ترگلیاں اور سڑکیں ہیں، کہیں والدین کا اکلوتا سہارا وقت کے بے رحم ہاتھوں چھن رہاہے ، کہیں بہنوں کی اُمید یںدم توڑ رہی ہیں، کہیں بے گناہوں کے سینے گولیوں سے چھلنی ہورہے ہیں ، کہیں معصوم آنکھیں پیلٹ سے بینائی کھورہی ہیں، کہیں زخمیوں کی آہ وبکا ہے، کہیں آنسوؤں کا سمندر ہے، ہر طرف انسانی سر بکھرے پڑے ہیں،ہر سو ویرانی چھائی ہوئی ہے ،کوئی باپ اپنے مقتول بیٹے کی لاش کو کندھا دے رہا ہے، کوئی دودھ پیتا بچہ اپنے باپ کی لاش سے لپٹ کر رورہا ہے۔غرض کشمیر کا انگ انگ زخموں سے چور چور ہے جب کہ زخموں کا مرہم کرنے کے بجائے ہر صبح سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی کئی تازہ زخموں کا اضافہ کیاجاتا ہے ۔ کشمیر زخم زخم کیوں ہے ؟ اس چبھتے سوال کاجواب چاہیے توارض کشمیر کی۷۰ سال طویل سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا ، جو یہ بتاتی ہے کہ۱۹۴۷ء میں جموں کشمیر کی سرزمین پر قدم رکھنے کے ساتھ ہی وردی پوش ’’ابابیلوں ‘‘ نے یہاں اپنی خونی تاریخ ترتیب دینے کی قسم کھالی جو ابھی تک یہ نبھاتی جا رہی ہیں ۔ اس اشکبار تاریخ کامطالعہ کرنے والا ہر ہوش مند وباضمیر انسان اقوام عالم کے منصفوں سے آخر پہ سوالات ضرور کرجاتاہے کہ کشمیر یوں کو کب تلک جرم بے گناہی کی سزا دی جائے گی؟ کشمیر کے شہر ودیہات میں اَدھ کھلے پھولوں کے مزار کیوں روز آباد کئے جارہے ہیں؟کشمیر کی چوتھی نسل کیوں اپاہج اور اندھی بنائی جارہی ہے؟ کیوں ملت کی عفت مآب خواتین کی کی قبائیں تار تار کی جارہی ہیں؟ کیوں کشمیر کے پیر وجوان کوزینت زندان بنایا جارہا ہے ؟ کیا اس قوم کا جرم یہ ہے کہ یہ اپنا ’’پیدائشی حق‘‘ مانگ رہی ہے ؟ کیا اپنے حق کی بازیابی کے لئے پُرامن جدوجہد کا توڑ یہ ہے کہ کشمیریوں کا سواگت گولیوں، ٹیرگیس شلوں اور پیلٹ سے کیا جائے تاکہ یہ پیوند خاک بھی ہوتے جائیںاور نابینا ئی اکادرد بھی ڈھوتے جائیں؟ آج جب دنیا میں چہار سُو جمہوریت اور حقوق البشر کے ڈھول بجائے جارہے ہیں   کیاجموں کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے مرتکب وردی پوش قانون ،اخلاق اورا نسانیت سے بالاتر ہیں ؟کیا کسی ایک بھی ملک یاقوم میں میں اخلاقی جرآت نہیں کہ وہ ریاستی دہشت گرد ی اور انسانی حقوقوں کی پامالیوںپر ہندوستان کی گرفت کر سکے ؟ آخر پُر امن اور قابل قبول کشمیر حل سے’’ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ‘‘کیوں کنی کترا رہی ہے؟ کیوں کشمیریوں کی سیاسی خواہشات کے اظہار سے ملک ِہند اتنا ڈر رہا ہے ؟ اگرچہ ان سوالات سے کوئی روشن ضمیر اپنا دامن ِخیال نہیں بچاسکتا ہے مگر ان کا کوئی تسلی بخش جواب اُسے نہ ملے تواس کا دل پژمردہ اور دماغ پریشان ہوکے رہ جاتاہے۔ 
اس وقت جب ہم گلوب پر نظر دوڑاتے ہیں تو ایسے کئی عالمی مسائل سے نظریں چار ہوتی ہیں جن سے پوری دنیا کے سرپر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، یہ چاہے افغانستان میں امریکی استعماریت ہو، فلسطین میں اسرائیلی جارحیت ہو، شام میں بشارالاسد کی چنگیزیت ہو، برما میں بودھوں کی بربریت ہو یا کشمیر میں دلی کی جبریت۔،یہ ایسے گھمبیر مسائل ہیں جنہیں اگر فوری طور مستقل بنیادوں پر حل نہ کیا گیا تو ان کے سنگین نتائج سے تباہیاں اوربربادیاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیں گی ۔اس لئے جب تک عالمی طاقتیں اور عالمی ادارے  ان مسائل کے حل سے گر یز کریں گے تب تک عالم ِانسانیت تناؤ اور کشیدگی کے سائے میں رہے گی ، حتیٰ کہ ایسی صورت میں عالمی یا علاقائی سطح پر جوہری تصادم کا امکان بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ عصر حاضر میں عالمی مسئلوں کی فہرست میں مسئلہ کشمیر ایک ایسا حساس ونازک ترین معاملہ ہے جس کی پشت پر اقوام متحدہ کی متعددقراردادیں ہیں اور جس کے حل کرنے کا وعدہ کشمیری عوام سے یواین نے کیا ہے ۔ بدقسمتی سے ہندوستان ووٹ بنک سیاست کے پس منظر میں اس مسئلہ کو دبانے کے لئے تمام حدیں پھلانگتاجارہاہے ۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی کشمیر قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر بر صغیر میں ایٹمی جنگ کا اندیشہ ہر لمحہ بڑھتا ہی جارہا ہے ۔جموں کشمیر میں گزشتہ ستائیس سال سے دلی نے ایک ہاتھ خصوصی طور فوج اور نیم فوجی دستوں کو طاقت کے بے تحاشہ استعمال کے لئے افسپا جیسے کالا قانون کا سہارا دے رکھا ہے کہ خون ریزیاں ،قیدو بند،آگ زنیاں ،عصمت ریزیاں معمولات ِ زندگی کا حصہ بن چکی ہیں اور دوسرے ہاتھ جموں کشمیر کے سیاسی شعبدہ بازوںا ور کشمیر کاز کے سوداگروں کو مراعات و مفادات کے عوض خرید کر اپنی قوم پر ظلم ڈھانے ا ور اس کے اَرمانوں اور قربانیوں پر آرے چلا نے کا ٹھیکہ الاٹ کیا  ہواہے ۔ وقتاً فوقتاً الیکشن ڈراما اسی سیاسی خرید وفروخت کا ایک منظر ہوتاہے۔ کہنے کو اپنے اقتدار کے لئے یہ طالع آزما سیاست کار سادہ لوح لوگوں سے پانی، بجلی ، سڑک نالی کے نام پر ووٹ حاصل کر تے ہیں مگر پھر اسے دلی بڑے چاؤ سے بین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز مسخ کر نے کے لئے بلیک میل کرجاتا ہے ۔ انتخابی تماشہ بھارت کا آزمودہ حربہ رہا ہے جو وقت وقت پر جموں کشمیر میں ندائے خلق دبانے کے لئے استعمال کر نے کے علاوہ اقوام عالم کو گمراہ کر نے کے لئے کھیلا لایا جاتاہے ۔ ۹ ؍ اپریل کو یہی ڈرامہ خاک اور خون میں لتھڑی کشمیری قوم سے پھر ایک بار کھیلا گیا اورا س کے ردعمل میں کیا ہوشربا نتائج سامنے آئے ،وہ آج ہم سب کے سامنے ہیں ۔ 
  آج تک جموں وکشمیر میںدلی کے پرچم تلے کرائے گئے الیکشنوں کی تواریخ پر سرسری نگاہ دوڑایئے تو صاف نظر آئے گا کہ الیکشنوںکا مقصد صرف مقامی طور occupation management اور عالمی سطح پر رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنا رہا۔ خاص کر الیکشن کا حربہ اُس وقت آزمایا گیا جب دلی والوں کو خوب یقین ہوچکا تھا کہ جموں کشمیر ان کے ہاتھوں سے کھسک رہا ہے کیونکہ اقوام متحدہ ریاست میں فوری طور رائے شماری کرانے کا دلی سے مطالبہ کررہا تھا۔ چنانچہ جموں کشمیر میں قانون سازاسمبلی قائم ہونے سے پہلے بھارت بھی عالمی ادارے کے دباؤ میں یہاں رائے شماری کرانے پر تقریباََ تیار ہوچکا تھا مگر بدقسمتی سے کشمیر کے نا عاقبت اندیش لیڈروں نے صرف اقتدا ر کے لالچ میں پوری کشمیری قوم کے سروں کی قیمت ہندوستان سے وصول کر نے کو ترجیح دی۔
 بے غبار سچ یہ ہے کہ شیخ عبداللہ سے لے کر محبوبہ مفتی تک جتنے بھی ہمارے کرم فرما حکمران ہوئے ،وہ قوم کو سنہرے سپنے دکھادکھا کر ہم پر مسلط ہوئے، انہوں نے کرسی کے عوض کشمیر کا ایک ایک عضو ئے حیات دلی کے نیلام گھر میں کوڑیوں کے بھاؤ  بیچ کھایا۔شیخ عبداللہ کا کشمیر کی تاریخ میں اہم سیاسی کردار صرف ذاتی ا ور خاندانی اقتدار کے گرد گھومتا ہے ، انہوںنے بغیر کسی ہچکچاہٹ کو کشمیر کاز کو ’’آوارہ گردی‘‘ کا نام دے کر دلی سے کانگریس کے سہارے لولی لنگڑی کرسی حاصل کی اور اس پر بیٹھ کر چند ورزہ مزہ کئے ، اگرچہ قوم کا مستقبل اُن کی خود غرضی بھینٹ چڑھ گیا۔شیخ عبداللہ ہی وہ مہربان ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ جاکر اہل کشمیر کا نہیں بلکہ دلی کا کیس پلیڈ کیامگر دلی کے کرتا دھرتاؤں نے ا نہیں اس وفا کا بدلہ گیارہ سالہ جیل کی صورت میں چکا دیا ۔ بہرصورت اس وقت بھارت کشمیرمیں ایک جانب انسانی حقوق کی سنگین پامالی کررہا ہے اور دوسری جانب الیکشن کا کارڈ کھیل کر پوری دنیا سے یہاں کی زمینی حقائق چھپانے کی کوششیں کررہا ہے۔ چونکہ دنیا میںاس وقت پیٹ کا دور دورہ ہے ، اس لئے دنیا نے جان کر انجان بنتے ہوئے وقتی طور مسئلہ کشمیر سے آنکھیں موند لیں،تیسری جانب وقت گذرنے کے ساتھ کشمیر کی نوجوان نسل مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بالغ نظر ہوتی جارہی ہے اور وہ یہ بھی جان چکی ہے کہ ووٹ حاصل کر کے انہیں انٹرنیشنل فورموں میں بلا روک ٹوک بلیک میل کیا جارہا ہیِ لہٰذا وہ ان سیاسی حربوں سے اعلانِ برأت کر نے میں بے خوف وخطر میدان میںڈٹی ہوئی ہے ۔اس کی تازہ مثال سری نگر کے ضمنی پارلیمانی انتخابات اور جنوبی کشمیر میںا ن کی تنسیخ ہے ۔اس الیکشن کے بارے میں سرکاری طور کہا گیا کہ صرف ۶؍فی صد لوگوں نے ووٹ کا استعمال کیااور ۹۴؍ فی صد نے بائیکاٹ کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ کشمیر حل کے لئے ا ستصوابِ رائے ہی ایک موثر اور کامیاب ذریعہ ہے ۔جموں کشمیر کی زمینی صورت حال کو  پہلے لشکر کمانڈر ابوالقاسم اور پھر حزبا لمجاہدین کمانڈر برہان مظفر وانی کی ابدی نیند نے مسئلہ کشمیر کا جگایا ۔2016میں برہان وانی جاں بحق ہوئے تو سارے کھیل کا پانسہ ہی پلٹ گیا اور جس مسئلہ سے دنیا صرفِ نظر کررہی تھی، آج دنیا اس کے جلد ازجلدمذاکراتی حل پرزور دے رہی ہے ۔گذشتہ سال8 ؍جولائی کو جب برہان مظفروانی حیات جاوداںپاگئے توا س کے ردعمل میںایک زور دارعوامی ایجی ٹیشن کو راہ ملی جس سے مسئلہ کشمیر نے ایک نیا رُخ اختیار کر تے ہوئے سمندروںاور پہاڑوں کا سینہ چیر کر اقوام متحدہ کو از سرنوقضیہ کشمیر کی یاد دلائی اور یہ ایشو ایک تازہ دم احساس کے ساتھ عالمی سیاست وسفارت کی توجہات کا مرکز بن گیا، ہر فورم اور ہر سطح پر کشمیری قوم کی مظلومیت کے خلاف اورا ن کے سیاسی مطالبے کے  حق میں آوازیں بلند ہوئیں ۔ہندوستان کی دانش گاہوں سے لے کر ہالی ووڈ تک کی نگری میں کشمیر میں ہورہے ظلم وجبر اور اندھ کاریوں کے خلاف ناراضی کی لہریں اٹھیں۔ یہ سلسلہ  اس وقت بھی کشمیرکے طول وعرض میں جاری ہے ۔اس وقت برہم طلبہ اور نارض نوجوان اپنی پوری قوت کے ساتھ ظلم وتشدد ، داروگیراور پکڑ دھکڑ کے علاوہ انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیوں پر سر اپا احتجاج ہیں ۔یہ اسی صورت حال کااثر ہے کہ بی جے پی صدر امیت شا اب کشمیر پر بات چیت کا نیم دلانہ اشارہ دینے لگے ہیں ۔ حالانکہ دلی ہمیشہ کشمیر پہ مذاکرات سے وقت گزاری اور کشمیر حل سے گریز مرادلیتی ہے ۔
 اس میں دوارئے نہیں کہ 2016 ء میں انتفاضہ میںسو سے زائد کشمیریوں کی شہادتوں، نابینا بنانے والی پیلٹ بازیوں ، گرفتاریوں اور گھر بار اُجاڑنے جا نی والی تکلیف دہ کارروائیوں سے بھارت کا’’ جمہوری چہرہ ‘‘ کشمیر کی گلی کوچوں، اسکولوں، کالجوںاور شہر ودیہات میں پوری طرح بے نقاب ہوا ہے اوردلی کا حقیقی ’’مشن کشمیر‘‘ دنیا نے دیکھ لیا ہے۔پیلٹ اور پاوا کے قہر سے چھوٹے چھوٹے بچوں کی بینائی زائل کرنے کے دلدوز واقعات پر اغیار بھی اپنی سسکیاں اور آنسوروک نہیں پارہے ہیں۔ بنابریں کشمیر کی زمینی صورت حال پہ بین الاقوامی برادری انگشت بدنداں اور فکر وتشویش میں مبتلا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ بجائے ا س کے کہ سوگوار کنبوں کے ہرے زخموں کا مر ہم کیا جاتا، عوامی تکلیفو ں کا ازالہ کیا جاتا، پیلٹ متاثرین کی بے نور آنکھوں کا دوا دارو کیا جاتا ، دلی پر الل ٹپ کشمیر میں ضمنی انتخابات کا دورہ پڑاکہ عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اس نے الیکشن کا کارڈ کھیلا تاکہ 2016 ء کے انتفاضہ میں شہری ہلاکتوں پر مچی ہاہاکار کی لیپا پوتی ہو اور پیلٹ حملوں سے اندھے پن کے شکار لڑکے لڑکیوں کا دردو کرب الیکشن کے شورووغوغا کے نیچے دفن کیا جاسکے۔ اگرچہ 2016 ء کے انتفاضہ کے پس منظر میں کشمیر تا نیویارک لوگوں کے جذبات مجروح تھے مگر دلی نے اس کی اَن دیکھی کر کے کشمیر کی نوجوان نسل کاغم وغصہ نام نہاد الیکشن سے ٹھنڈا کر نے کی ناکام کوشش کی ، مگرا س کی توقعات کے برعکس جب 9 / اپریل کو سری نگر بڈگام میں نام نہاد انتخابی دنگل کامیدان سجایا گیا تو سیاسی مداریوں کے کھیل سے نہ صرف عام لوگ دوربھاگے بلکہ انتخابات کے خلاف احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ چلتا رہااور ا س روز آٹھ مظاہرین پر گولیاں داغ کر جان بحق ہوگئے ، بعد میںایک اور نوجوان بارسو گاندربل میں زخمی ہونے والانوجوان  چند دن کے وقفے سے زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا،سینکڑوں نوجوان پیلٹ کے شکارکئے گئے، نوجوانوںنے غصے کے عالم  ووٹنگ مشینوں کو توڑ دیا ، ووٹر پرچیوں کو جلایا ، کئی ایک پولنگ بوتھوں کی میز یںکرسیاں توڑ دیں ، وادی میں بائیکاٹ سے عملاً ویرانی چھائی رہی اور 93% لوگوں نے بائیکاٹ کر کے ’’محبوبہ مفتی کی خود فریبانہ 5% کہانی کو غلط ثابت کردیا۔اسی روز فوج نے ایک کشمیری نوجوان فاروق احمدڈار کو بیروہ گاؤںمیںاپنی گاڑی کے بانٹ سے انسانی ڈھال کے طور باندھ کر صبح تاشام نزدیک ودور کے دیہات میں گھمایا جس سے دنیا کو صاف پتہ چلا کہ کشمیر میں الیکشن کس بلا کا نام ہے اور فورسز انسانوں کے ساتھ یہاں کتنا وحشیانہ بر تاؤ کر رہی ہیں ۔ بہر کیف عوام کے موڈ کو دیکھ کر جنوبی کشمیر میں انتخابات ملتوی کر دئے گئے۔ بہر حال ابھی /9اپریل کے المیوں پرلوگ ابھی سوگ ہی منا رہے تھے کہ /16اپریل کو ڈگری کالج پلوامہ میں فوج اور ٹاسک فورس نے گھس کر وہاں زیرتعلیم طالب علموں پر بلاجواز اور بے تحاشہ طاقت کا استعال کر دیا،پچاس سے زائد طلباء زخمی ہوگئے ۔ اس بربریت کے خلاف کشمیر بھر میں طلبہ اور طالبات کا غصہ تادم تحریر تم جانے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ الغرض ہندوستان کے امن وسکون ، ملکی سا  لمیت اور علاقائی ا من کے لئے موزوں یہی ہے کہ دلی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرکے یا سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے ضد ، عناد، دھونس اور دباؤ کی پالیسی ترک کر کے کشمیر حل میں پہل کر ے ۔مزیدبرآں کشمیری قوم کے سیاسی سامریوں کو بھی جلد ازجلد حالات کی نزاکت سمجھ کر اپنی کرسی پرستی کے لئے قوم کے قتل وانہدام سے دامن بچانا ہو گا ۔
 
رابطہ؛منزگام،اہرہ بل،کولگام،9070569556