’شعر العجم‘ ادبی تنقید اورتنقیدی تاریخ کاوقیع نمونہ ہے۔ اس کتاب کے مشرقی عناصر کے ساتھ ساتھ مغربی پہلوؤں کونظرانداز نہیںکیاجاسکتا۔ ’شعرالعجم ‘کے مطالعے سے یہ تاثر قائم ہوتاہے کہ اس کاموضوع فارسی شاعری کادفاع اوراس کامخاطب انگریزدانوںکا طبقہ ہے۔ اسی وجہ سے شبلی ؔ نے اس امر پر خاص توجہ دی ہے کہ فارسی شاعری کی حمایت میںانیسویں صدی کے ان رائج الوقت فلسفیانہ افکاروتنقیدی تصورات سے استدلال کیاجائے، جن کا یہ انگریزی داں طبقہ کلمہ پڑھتاہے ۔ اگرشبلی ؔ مشرقی شاعری کادفاع مشرقی نظریات کے حوالے سے کرتے ، تووہ طبقہ کہہ سکتاتھا کہ جب ہم تمہاری شاعری کونہیںمانتے توتمہاری شعریات کوکیوںمانے گے، یہی وجہ ہے کہ شبلی ؔ نے جی کھول کر رائج الوقت انگریزی تصورات سے استفادہ کیا ہے۔خورشید احمد رقمطرازہیں:
’’نقادجب شبلی ؔ کے تنقیدی مسلک کی بات کرتے ہیںتو یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیںکہ شبلی ؔ کے تصور تخیل میں کولرج ؔ کے تصورات کی کارفرمائی نظرآتی ہے۔ یہ حضرات دیگرانگریز مصنفوں کوقابل اعتنا نہیںسمجھتے حالانکہ شبلی ؔ نے اپنے تنقیدی نظریے کی تشکیل میںدوسرے انگریزی مصنفوں سے بھی کافی مدد لی ہے۔ اس سلسلے میںکولرجؔ کے علاوہ انہوںنے دوانگریزی نقادوںسے ان کے خیالات والفاظ مستعار لیے ہیں۔ان میں سے ایک جان اسٹورٹ مِل ؔہے ، جس کاانہوںنے نام لیاہے اوردوسرا ولیم ہیزلٹؔ ہے،جس کاانہوںنے نام نہیںلیا ۔ صرف ’’ایک یورپین مصنف ‘‘ کہہ کر رہ گئے ہیں ‘‘۔
انیسویںصدی کے ابتدامیں سائنسی اورتکنیکی ترقی کے پرستاروں نے شاعر ی پر دوحملے کیے۔ایک یہ کہ شاعری غیرسودمند ہے،دوسرا ’’شاعری غلط بیانی ہے‘‘۔ شاعری کاسب سے بڑادشمن جریمی بنتھم ؔکوتصورکیاجاتاہے۔اس سے نبردآزما ہونے کے لئے مِل ؔ نے اپنامشہور مقالہ "What is Poetry" ۱۸۳۳ء میں لکھا۔علامہ شبلی ؔ کے تنقیدی خیالات کی تشکیل میںمِلؔ کے مضامین کابڑاہاتھ ہے۔ اس مضمون میں مِلؔ نے سائنسی صداقت میںامتیاز قائم کیاہے: ترجمہ:۔ ’’شاعری کاتخاطب جذبات سے ہے اورسائنس کایقین سے ‘‘
مِلؔ نے شاعری کوقاری سے الگ کیا ہے، اسی طرح خطابت اورشاعری میںفرق قائم کیا ہے:
"Poetry and eloquence are both alike the expressing or uttering forth of feeling. Eloquence supposes an audience the peculiarity of poetry appears to us to lie in the poet's utter unconsciousness of a listener. Poetry is feeling, confessing itself to itself in moments of solitude….."
شبلیؔ اس کویوں سمجھاتے ہیں :
’’خطابت میںشاعری کی طرح جذبات اوراحساس کا برانگیختہ کرنامقصود ہوتاہے۔ خطابت کا مقصود حاضرین سے خطاب کرنا ہوتاہے، بخلاف اس کے ٗشاعر کودوسروںسے غرض نہیںہوتی ،وہ یہ نہیں جانتا کہ کوئی اس کے سامنے ہے بھی یانہیں؟……. شاعری تنہا نشینی اورمطالعہ نفس کانتیجہ ہے …… شاعراگر اپنے نفس کے بجائے دوسرے سے خطاب کرتاہے ، دوسروں کے جذبات کوابھارنا چاہتاہے…..توشاعر نہیںخطیب ہے‘‘۔
ہیزلٹؔ شاعر ی کی تعریف دوسرے رومانی نقادوںسے مختلف اندازمیںکرتے ہیں:
"General sense of beauty or power or harmony as in the motion of wave of the sea, in the growth of a flower……There is poetry in its birth……Fear is poetry, hope is poetry, love is poetry, hatred is poetry, the child is a poet in fact, when he first plays at hide and seek…..the miser, when he hugs his gold".
ہیزلٹ ؔ پرجب اعتراض ہواکہ وہ شعر کی اتنی ڈھیلی تعریف کیوںکرتے ہیں، تو اس نے کہا وہ ’’شاعری ‘‘کی اصطلاح تین مختلف معنوں میںاستعمال کرنا ہے یعنی ایک توجذبے کالسانی اظہار، دوسرے خودجذبہ اورتیسرے جذبے کوتحریک دینے والے مخصوص اشیاء۔شبلیؔ بھی جگہ جگہ شاعری کی تعریف اتنے ہی وسیع مفہوم میںکرتے ہیں،جتنے وسیع مفہوم میں ہیزلٹ ؔ کرتاہے:’’ہرچیز جودل پرتعجب انگیزی کااثر کرتی ہے، حقیقی شعر ہے ، فضائے غیرمحدود ،بحربے کراں، سیارہ ہائے غیر متناہی ، بادصرصر ،مواج دریا سب مجسم شعر ہیں‘‘۔
رائج الوقت مغربی فکری میلانات مثلا ً نطشے ؔ کیـSlave morality'ـ‘بنتھم ؔ کی Utlitarianism اورکارلائل کی ’ Hero Worship‘ سے شبلی ؔ نہ صرف واقف تھے بلکہ اس بات سے بھی باخبر تھے کہ معترضین کے بہت سے اعتراضات کی بنیاد ان ہی تصورات پرقائم ہے۔ چنانچہ شعرالعجم میں وہ جابجاان فکری سوالات سے دست وگریباں نظرآتے ہیں۔ مثلاً فارسی شاعری کے اخلاقی مواد سے جہاں بھی بحث کرتے ہیں، غلامی کی اخلاقیات (Slave Morality )کا تصور ان کے ذہن میں ضرورہوتاہے ۔ چنانچہ ایک جگہ واضح طورپرلکھتے ہیں:’’شعرائے ایران کے فلسفۂ اخلاق پرعموماًیہ اعتراض کیاجاتاہے کہ اس سے بجائے ترقی کرنے کے پستی اوربے قاعدگی کی طرف میلان ہوتاہے۔ جومسائل باربارمختلف پیرایوں میںاداکئے جاتے ہیں،یعنی ترک دنیا،قناعت ، توکل ، تواضع،خاکساری، عفو،حلم ،جودوسخا، ان میںکچھ باتیںپست ہمتی پیداکرنے والی ہیں، کچھ اعتدال سے متجاوز ہیں،کچھ اصول تمدن کے خلاف ہیں اورشاید اسی تعلیم کا اثرہے کہ ان ملکوں میںقوم کی آزادی اورحریت کا کبھی خیال نہیںپیداہوا۔‘‘
بعدازاں اخلاقی شاعری کے پورے باب میں ایسی مثالیں فراہم کرتے ہیں،جن سے غلامانہ اخلاقیات کی نفی اورآزادی وحریت کی توثیق ہوتی ہے۔ اسی طرح شاعری کی تاثیر سے جہاں بحث کی ہے ،وہ مِلؔ کی طرح بنتھم ؔ کی ’افادیت پرستی‘ کے تصور کوذہن میںرکھ کرکی گئی ہے۔ پھراسی طرح انہوںنے فردوسیؔ کے ’شاہنامے‘ سے مثال دے کر ثابت کیاہے کہ فارسی شاعری میں نامور پرستی کے جذبے کافقدان نہیںہے۔
شبلیؔ سے پہلے اوران کے بعد بھی ادبی تاریخ لکھنے کاعام طریقہ یہ رہاہے کہ شعراء کے ناموں اورکارناموں کوحروف تہجی کے بجائے تاریخی ترتیب سے یکجا کیاجاتاہے۔ شبلی ؔ نے شعرالعجم میںایسانہیں کیابلکہ ادبی تاریخ نگاری کے لئے اصول ارتقاء Evolution theory کوبنیاد بنایا، جوانیسویں صدی کے نصف آخر کاانقلا ب آفریں تصور ہے۔ اپنی کتاب میںشبلی ؔ نے ’اصول ارتقاء‘ کاذکردوبارکیاہے، ایک جگہ لکھتے ہیں:’’ جس قدر زمانہ گزرتاجاتا، اصول ارتقاء کے موافق شاعری کاقدم آگے بڑھتاتھا ‘‘۔
دوسری جگہ لکھاہے:’’خواجہ حافظ کے بعداصول ارتقاء کے خلاف ،غزلیہ شاعری کی ترقی ڈیڑھ سو برس تک رک گئی…… لیکن ارتقاء میںاتفاقی سکون ہوجاتاہے،سلسلہ منقطع نہیںہوجاتا‘‘۔
شبلی ؔ نظریہ ٔ ارتقاء کوصرف سمجھتے ہی نہیں، برتتے بھی ہیں،ا س کی مزید توثیق ان کے اس جملے سے ہوجاتی ہے:’’شاعری کی تاریخ کاایک ضروری باب ہے کہ شاعری کی ترقی کے تدریجی مدارج دکھائے جائیں‘‘۔
نظریہ ٔارتقا کے حوالے سے ’شعرالعجم ‘ میںشبلی ؔ نے ڈارونؔ کے بجائے ہربرٹ اسپنسرؔ سے استفادہ کیا ہے ۔ ۱۹۰۹ء میںابن مسکویہ ؔ کی کتاب ’’تجارب الامم ‘‘ پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یورپ میں آج کل فن تاریخ کواس قدرترقی ہوئی کہ کبھی نہ ہوئی ہوگی ….. تاریخ کامقصد واقعات کاپتہ لگانا ہے،جن کے خاص نتائج پیدا ہوتے ہیں اورجن سے علت ومعلول کااس طرح سلسلہ قائم ہوتاہے کہ جب اسی قسم کے واقعات پیش آئیں توفوراً پیش گوئی کی جاسکے کہ اسی قسم کے نتائج پیش آئیںگے…… چنانچہ ہربرٹ اسپنسر نے تفصیل کے ساتھ اس نکتے کولکھاہے‘‘۔
ڈارون ؔ کی 'Origin of Species' سے دوسال قبل 1857ء میںاسپنسر ؔ نے 'Progress, its Law & Cause' کے عنوان سے ایک مقالہ شائع کیا اوراس میں فنون کی تاریخ سے بحث کی۔ ڈارونؔ کے مقابلے میں اسپنسر کے نظریے کوزیادہ تر مورخوں نے قبول کیا ،کیونکہ اس کاسمجھنا بھی آسان تھا اور اس کے استعمال میں بھی سہولت تھی۔ اسپنسر کامفروضہ یہ ہے کہ یعنی ارتقاء کا سفر ہمیشہ متجانس اورسادہ سے غیرمتجانس اورپیچیدہ کی طرف ہوتاہے۔سادگی سے پیچیدگی کی طرف ارتقاء کوشبلی ؔ نے شعرالعجم میںیوں بیان کیا :
’’عام قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم ترقی کرتی ہے توابتدا میںتمام چیزیں خوراک ، پوشاک،مکان،اسباب ،وضع قطع بے تکلف اورسادہ ہوتی ہیں۔ رفتہ رفتہ نفاست، لطافت اورتکلف پیداہوتاہے اورروزبروز ترقی کرتاجاتاہے۔ یہاں تک کہ حد سے بڑھ جاتاہے اور اس وقت ترقی رک کرقوم بربادہوجاتی ہے۔
شاعری کی بھی یہی حالت ہے۔ابتدا میں سیدھے سادے،صاف صاف اوربے تکلف خیالات ہوتے ہیں….. الفاظ میںتراش خراش نہیں ہوتی۔اس سے قدم آگے بڑھتا ہے توخیالات میںبلندی شروع ہوتی ہے۔ الفاظ میں تراش خراش شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد دقت آفرینی اورباریک بینی شروع ہوتی ہے۔ محسوسات سے گزرکر صرف خیالی چیزوں پرمداررہ جاتاہے۔یہ ترقی کی آخری منزل ہے،جوتنزل سے ہمدوش اورہم آغوش ہے‘‘۔
اسپنسر ؔ کے اصول ارتقاء میں Survival of the fittest یعنی بقائے اصلح کوکلیدی اہمیت حاصل ہے۔ یہ Struggle for Existence یعنی جہد للبقاء کے نتیجے کے طورپر سامنے آتاہے۔ جہدللبقاء کامتبادل لفظ مسابقہ ہے۔ شعرالعجم میںمسابقہ، مقابلہ، حریف یا اس مفہوم کواداکرے والے دوسرے الفاظ بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔اسی طرح ایسے استعارے بھی بکثرت ملتے ہیں جن کے ذریعے بقائے اصلح یاجہد للبقا کامفہوم اداکیاگیاہے، چندمثالیںمندرج ہیں:
(۱) ’’مسلمان کی غزلیں چنداں مقبول نہیںہوئیں۔ان سے پہلے سعدیؔ کارنگ عالم کو مسخر کرچکاتھا۔اس رنگ میںوہ کہہ نہیںسکتے تھے۔اس لئے مضمون آفرینی شروع کی‘‘۔
(۲) ’’خواجہ صاحب اپنے اساتذہ یاحریفوں سے طرحی غزلوں میںچنداں بلند رتبہ نہیں …….باایں ہمہ ان کی غزلوں نے دنیا میںجو غلغلہ برپا کیا اس کے آگے سعدیؔ ،خسروؔ ،خواجہ سلمانؔ کی آوازیں بالکل پست ہوگئیں۔‘‘
چونکہ شعرالعجم میںارتقا پسند نقطۂ ونظر اپنایاگیا ہے، اس لئے شعراء کے مدارج متعین کرنے کا اندازبھی بدل گیا ہے۔شبلی ؔ کواس کااحساس ہے،چنانچہ لکھتے ہیں:
’’یہ ایک واقعہ ہے کہ سعدی ،خواجہ اورسلمان ہی کے خاکے ہیں،جن پرحافظ ؔ نے نقش آرائیاں کی ہیں، اس لئے ان کے باہمی امتیاز اورتدریجی ترقی دکھاناشعرالعجم کافرض ہے‘‘۔
بالفاظ دیگر شاعرکادرجہ متعین کرتے وقت اس کے ماقبل ومابعد کاحوالہ دیناضروری ہوتاہے تاکہ و ہ شاعر ارتقا کی زنجیر میںمنسلک نظرآئے۔ کمال اسماعیل ؔ کادرجہ شبلی ؔ اس طرح متعین کرتے ہیں:’’کمال کی شاعری قدما اورمتاخرین کی مشترک سرحدہے یعنی اس کا ایک سراقدما اوردوسرا متاخرین سے ملاہواہے۔قدما کی متانت،پختگی ، استواری اورمتاخرین کی مضمون بندی، خیال آفرینی ،نزاکت مضمون دونوں یکجا جمع ہوگئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ متوسطین اورمتاخرین دونو ں ان کے معترف ہیں‘‘۔
دوسری جگہ لکھتے ہیں:’’زورکلام جس کی ابتدانظامیؔ نے کی تھی، عرفی ؔ نے اس کوکمال کے درجے تک پہنچادیا‘‘۔
غرض یہ کہ اصولِ ارتقا کی بنیادپر شبلیؔ نے فارسی شاعری کے حوالے سے الفاظ، خیالات، اسالیب بیان اور اصناف سخن کاجائزہ لیاہے اور’شعرالعجم‘ کوادبی تاریخ کانادرنمونہ بنادیاہے۔