شوکت حمید شاہ
پلوامہ کو قدیم زمانے میں پنُون گاؔم کہا جاتا تھا جو 4پتیوں ملک پورہ ،چاٹہ پورہ ،ڈانگر پورہ اور ڈلی پورہ پر مشتمل تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پنُون گام کا نام بگڑ کر یہ قصبہ پُلگام کے نام سے پکارا جانے لگا اوربالآخر پلوامہؔ کے نام سے زبان زَد عام ہوگیا۔یہ قصبہ پہلے تحصیل اونتی پورہ سے وابستہ تھا ۔لیکن ایک مرکزی جگہ پر واقع ہونے کی سبب یہ قصبہ ایک پڑائو کی شکل اختیار کرچکا تھا ،جس کے بدولت پلوامہ کو تحصیل کا درجہ حاصل ہوا۔جہاں شمال کی جانب سے پانپور راستہ اور اسی سمت دوسراراستہ نیوہ خندہ بڈگام ہے وہیںمغرب کی جانب روہموہ پکھر پورہ سڑک ،دوسرا راستہ کنگن جڈورہ ،اور اہم راستہ راجپورہ کنڈی دیہات موشہ واڑہ اور کیلر ہے جبکہ جنوب کی جانب شوپیان سے جُڑا قدیم راستہ بھی اس کو اہم پڑائو بناتا ہے ۔جنوب جانب ہی ایک تاریخی گائوں پائر (قدیم نام پایچھ) اور دوسرا طویل راستہ علاقہ شاہورہ کے دیہات سے گذر کر سنگم تک جرنیلی سڑک سے جڑتاہے ۔مشرقی جانب تاریخی گائوں قوئل سے ہوکے اونتی پورہ کے مقام پر جرنیلی سڑک سے ملتا ہے۔اس طرح9راستوں کے سنگم سے پلوامہ تاریخی اہمیت اختیار کرگیا ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پلوامہ سے سرینگر کا ٹرانسپورٹ نظام بہتر اور سہولیات کی وجہ سے ان ہی راستوں کا مرہون منت ہے۔
جموں و کشمیر کی گرمائی راجدھانی سرینگر کے جنوب میں واقع ضلع پلوامہاور بھی کئی خصوصیات کے باعث کافی اہمیت کا حامل ہے۔ ضلع کی معیشت بنیادی طور پر زراعت کے شعبے پر منحصر ہے۔ یہ ضلع چاول کی پیداوارکے علاوہ سرخ سونا اُگلنے والی پانپور کی سرزمین پر اعلیٰ معیار کے زعفران کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ دودھ کی پیداوار میں خود کفیل پلوامہ ضلع کو آنند آف کشمیر کہا جاتا ہے۔ضلع اننت ناگ کا یہ علاقہ اسی کی بدولت 1979میں نئے ضلع ہیڈ کوارٹر کی صورت اختیار کرگیا، ورنہ اُس وقت شوپیان کو ضلع کا درجہ دئے جانے کی مانگ کو لیکر ایجی ٹیشن بھی چلی تھی ۔ سرینگر سے 30کلومیٹر کے فاصلے پر قصبہ پانپور کے بعد لہلہاتے کھیتوں کے درمیان سڑک پتل باغ ،سانبورہ ،کاکہ پورہ ،پاہو ،پنگلنہ ،گانگو اور پرچھو سے گذر کر پلوامہ تک آتی ہے ۔ ضلع کا جغرافیائی رقبہ 1090 مربع کلومیٹر ہے اور ضلع کا انتظامی مرکز پلوامہ میں واقع ہے ۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ضلع کی کل آبادی 5.60 لاکھ ہے۔ضلع کی 85.65% آبادی دیہی علاقوں میں اور 14.35% شہری علاقوں میں رہتی ہے۔ضلع میں 8 تحاصیل پلوامہ، اونتی پورہ، ترال، پانپور، کاکاپورہ، آری پل، راجپورہ اور لتر شاہورہ ہیں جبکہ11 سی ڈی بلاکوں میںلاسی پورہ،شادی مرگ، راجپورہ ،نیوہ،پلوامہ ،ترال، آری پل، ڈاڈسرہ، اونتی پورہ، پانپور، کاکاپورہ اورایچھ گوز شامل ہیں۔پلوامہ بنیادی طور پر ایک زرعی معیشت طور پر ترقی کر رہا ہے،جہاں تک زمین کا تعلق ہے، یہ دھان، مکئی، گندم، تیل کے بیج، سبزیاں، پھل اور دالوں وغیرہ کی کاشت کے لیے زرخیز ہے۔پانپور،کھریو،نیوہ اور کچھ کریوا علاقے زعفران کی کاشت کے لیے موزوں ہیں۔
جنت کشمیر کا ایک حصہ ہونے کے ناطے پلوامہ شمال میں سری نگر ، مغرب میں بڈگام اور پونچھ اضلاع اور جنوب اور مشرق میں اننت ناگ اضلاع سے جڑا ہوا ہے۔ ضلع کی خوشگوار آب و ہوا، لاتعداد چشمے، نہریں، آبشار، خوشبودار پھول، لذیذ پھل اور دیگر قدرتی مناظر ہیں۔ضلع میں کچھ اہم مقامات ہیں جن میں خانقاء ترال، کھریومیں جوالا مکھی مندر،ونتی پورہ میںاونتی ورمن کے بادشاہ کے زمانے کی عمارتوں اور مجسموں کی باقیات،پائر میں مندر، اونتی پورہ میں حضرت سید حسن منطقیؒ کا آستان ،شادی مرگ میں گردوارہ،پانپور میں خانقاہ شامل ہیں۔ترسر اور مارسر جھیلیں پلوامہ ضلع کی دو اہم ترین جھیلیں ہیں۔یہ جھیلیں ناگبیران گاؤں سے کے نزیک واقع ہیں۔ ان دونوں جھیلوں کا کشمیر کی لوک داستانوں سے بھی گہرا تعلق ہے۔ملک بھر سے بہت سارے سیاح کوہ پیمائی اور ٹریکنگ جیسے ایڈونچر کھیلوں میں شامل ہونے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ترال میں شکارگاہ دیکھنے کے لیے کافی دلکش جگہ ہے۔ مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جموں و کشمیر کے آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ یہاں جنگلی جانوروں کا شکار کرنے آتے تھے۔پائرمیں10ویں صدی کا مندر پلوامہ قصبہ سے تقریباً 3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
ضلع پلوامہ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس نے ماضی میں علم و ادب میں کافی نام کمایا ،ضلع شعرا ء و ادبا کی آماجگاہ ہے۔پلوامہ کا ادبی ماضی نہایت ہی تابناک اور درخشندہ رہا ہے ۔اس ضلع نے جہاں لل دید ؔ،سوچھ کرالؔ اور وہاب کھارؔ جیسے برگزیدہ صوفی شعراء کو جنم دیا، وہاں اس نے رومانوی شاعری کے زمرے میںحبہ خاتونؔ اور انقلابی شاعری میں غلام احمد مہجورؔ پیدا کئے ۔قصبہ کے چاروں اطراف قریب ہی مقبول شعراء کے جائے مسکن موجود ہیں ۔اندر کے سوچھ کرال ،متری گام کے شاعر کشمیر غلام احمد مہجور ،چندگام(ببہ گام ) کے مومن صاب ؔ،تملہ ہال کے غلام نبی شاہ ظہوؔر ،رتنی پورہ کے سید غلام رسول غیورؔ ،قوئل کے عبدالرحمان آزادؔکے علاوہ کئی دیگر سرکردہ ادیبوں،ماہرین تعلیم اور شاعروں نے پلوامہ میں جنم لیا ہے ۔
کشمیر کے سب سے بڑے نالے ’نالہ رنبی آرہ‘ کے کنارے شمالی ہندوستان کی سب سے بڑی صنعتی بستی لاسی پورہ انڈسٹریل علاہ پلوامہ ضلع میںہی ہے جہاں 600سے زائد صنعتی مراکز ہیں اور ان میں 10ہزار سے زائد افراد کو روزگار ملتا ہے جبکہ یہاں 6000کروڑ روپے کا ٹرن اُووَر ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ سری کلچر کی 2بڑی نرسریاں گالندراور تملہ ہال میں واقع ہیں ۔اس کے علاوہ پانپور کی جونیری مل کے ساتھ ساتھ اونتی پورہ علاقے میں کرکٹ بلوں کے کئی کارخانے بھی قایم ہیں ۔ قصبہ پلوامہ کا مرکز شہید پارک ،بونہ باغ ،دھوبی کول ،جامع مسجد کی وجہ سے بھی مقبول رہا ۔لہلاتے کھیتوں ،زعفران زار اور سیب و بادام کے باغات والا پلوامہ اب رہایشی مکانوں ،بازاروں اور کنکریٹ سے بنی عمارتوںمیں بدلنے لگا ہے ،جس کی وجہ سے ماحولیاتی توازن کے بگڑنے کے آثار نظر آتے ہیں۔ نئی نئی سڑکوں ،شاپنگ کمپلیکس اور گائوں گائوں بازار بننے کی وجہ سے پلوامہ میں اب پہلی جیسی پانی کی روانی اور شادمانی میں کمی آنے لگی ہے۔
(مضمون نگارروزنامہ کشمیر عظمیٰ کے سینئر نامہ نگار اورمحفل بہار ادب شارہوہ پلوامہ کے اعزازی رکن ہیں اور ان کے ساتھ[email protected]پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ )
�����������������������