ششماہی نگینہ سالنامہ2023۔ ایک مطالعہ رپورٹ

سہیل سالمؔ
اس بات میں کوئی شک کی گنجائش ہی نہیں کہ غیرسرکاری ادارے زبان و ادب کے فروع میں تاریخی کردار ادا کررہے ہیں۔رسالہ نگینہ انٹرنیشنل بھی اسی تاریخ کا ایک اہم باب ہے جو کہ وحشی سعید کی ادارت میں کشمیر سے شائع ہورہا ہے اور یہ محض رسالہ نہیں ہے بلکہ ایک ادبی تحریک کا آئینہ بھی اور ایک فکر کا غماز بھی۔ جس کا  اشارہ ’’بات سے بات ‘‘ میں نور شاہ اس طرح کرتے ہیں:’’یہ اب وقت کی ضرورت بھی بن چکی ہے اور ہماری نئی نسل کی دہنی آبیاری کے لئے بے حد اہمیت حاصل کر چکی ہے۔نگینہ انٹرنیشنل اپنا کر دار نبھانے کی کوشش تو کر رہا ہے لیکن اس کو وسعت دینے کے لئے آپ کے پر خلوص تعاون سے ہماری سوچوں میں ایک نیا رنگ ابھرے گا۔‘‘(ص۔۴)
زیر تبصرہ رسالہ’’نگینہ سالنامہ جولائی تا دسمبر 2023‘‘میں مضامین کا تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔جس میں نعت، شخصیات ،مضامین ،فکشن ،فکشن نتقید،تحقیق نگاری ،افسانوی ادب،غیر افسانوں ادب،غزلیں اور مشاہیرے سے موصول ہوئے خطوط بھی شامل ہیں۔مطالعے کی سہولیت کے لئے رسالے کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلاحصہ شخصیات پر مشتمل ہے۔کشمیر کی برگزیدہ شخصیات میں صوفی شاعر اور روحانی ہستی احد زرگر ایک اعلی ٰ مقام پر فائزہ ہے ۔ایڈیٹوریل بورڈ نے ان کے تئیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اس شمارے میں ان پر دو مضامین شائع کیے ہیں ۔جن کے عنوانات کچھ اس طرح ہیں۔احد زر گر ایک صاحب طرز صوفی از انجینئر شفیع احمد،احد زرگر شاعر پر ہنر۔ا ز ظریف احمد ظریف اور میں اور حکیم منظور از وحشی سعید۔احد زرگر کا شمارکشمیری زبان کے ان صوفی شعراء میں ہوتا ہے جن کی فنی ساخت اور مواد پر اہل دانش و بنیش نے ایسے علمی معروضات پیش کیے ہیں جو ان کی صوفیانہ شاعری کا قابل نمونہ ثابت پیش کرتے ہیں۔
اس شمارے کا دوسرا حصہ تحقیق اور مضامین پر مشتمل ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کی ادبی خدمات کا تنقیدی جائزہ از ڈاکٹر احسان عالم ،نعت کی لفظیات ازحافظ کرناٹکی ، ترقی پسند ادبی صحافت کی روایت اور قمر رئیس از ڈاکٹر فخرالکریم ،ترا ئلیے اور ترائلیے نگار ایک مطالعہ از روشن ضمیر ،خورشید کی تخلیق اور حیاتی تنقید از ڈاکٹر منصورخوشتر اور اردو مابعد جدیدیت بین العلومی تنقید کے آئینے میں ا ز جاوید انور،یہ تمام مضامین اس حصہ میں شامل ہیں۔تاریخ نے یہ بات قبول کر لی کہ دنیا میں جہاں حضرت محمدؐکی سیرت و کردار کے چراغ روشن کیے ،وہاں ہر مذہب اور ہر زبان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے اندھیرے دل منور ہوئے۔اور ہر ایک نے رسول اکرمؐ کی تعریف و توصیف کی اور تمام تہذیبوں اور زبان وادب میں صنف نعت کے شہکار نمونے تاریخ کے سامنے پیش ہی نہیں کیے بلکہ مسلمانوںکے لیے نعت و منقبت کا میابی کا ایک ذریعہ بھی ثابت ہوا۔نعتیہ شاعری کے بارے میںحافظ کرناٹکی لکھتے ہیں:’’ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ دوسری اصناف شعری کی طرح نعتیہ شاعری کو محض ایک تخلیقی صنف کے طور پر نہیں دیکھا جاتا ہے۔نعتیہ شاعری کو ہمیشہ پہلے ایمان و عقیدے اور مسلک کی درستگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔بعد ازاں اس کی شعری خوبیوں پر توجہ کی جاتی ہے،اسی لیے یہاں لفظوں کا نتخاب اور اس کے برتائو پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔‘‘(ص۔۲۴)
اسی طرح حصہ انشائیہ میں ’’بال بال بچ گئے ‘‘ میں مشتاق کینی نے بچوں کی حر کتوں اور بچوں کی نفسیات کو دلچسپی کے ساتھ بیان کیا ہے اور طنزو مزاح ’’ایک کہانی سنو میں’’ایس معشوق نے اکسیویں صدی میں پھیلی ہوئے مختلف سماجی بیماریوں کو قلع قمع کرنے کی ایک کامیاب سعی کی ہے۔اس حصے میں دو کشمیری زبان کے افسانوں ’’وہ ‘‘پروفیسر گلشن مجید اور ’’پلیٹ فارم کے اس پار‘‘ہردے کول بھارتی کا ترجمہ بھی شامل ہے۔اس کے بعد کا حصہ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہیں۔پرتپال سنگھ بیتاب ،ہنررسول پوری ،اسفندریار خان، شارق عدیل ،پرویز مانوس ،انور آفاقی،مصداق اعظمی ،ستیش ومل ،شبنم عشائی ،سید خوشید کاظمی ،شیخ گلزار،شمیم اختر ،اقبال حسن آزاد ،عشرت کاشمیری اور حاشر افنان وغیرہ کی غزلیں اور نظمیں بھی نگینہ کے قارئین کی توجہ اپنی اور مبذول کراتے ہیں۔غزل ہماری حیات،ہمارے شعور اور ہماری فکر میں رچ  بس گئی ہے کیونکہ انسانی دل کی وہ کون سی دھڑکن ہے ،جس کی آواز غزل میں نہ ہو۔غزل نے ہماری بے سی اورہمارے شہر کا نقشہ کس طرح کھینچ  لیا ہے ۔ پرریز مانوسؔ کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:
میرے گھر جب بھی آتے ہیں تمہارے شہر کے پنچھی
مجھے  بے حد رلاتے ہیں تمہارے شہر کے پنچھی
بنانے  بیٹھا ہوں   جب کبھی احساس کا پیکر
عجب نقشہ دکھاتے ہیں تمہارے شہر کے پنچھی
حصہ ڈرامہ میں وریندر پٹواری کی ایک کہانی بہ عنوان ’’نادان‘‘کو نور ہ شاہ نے ریڈیو ڈراما کا روپ دے کر ایک نیا تجربہ کیا ۔ زیر تبصرہ نگینہ سالنامہ کا ایک اور حصہ افسانوں پر مشتمل ہیں۔جس میںارم رحمن، نگار عظیم ، نسیم سکینہ صدف ،عشرت ناہید، سراج فاروقی، شیح بشیر احمد ،ڈاکٹر نذیر مشتاق ،راجہ یوسف،ذاکٹر ریاض توحیدی ،جاوید شبیر ،فرخندہ ضمیر،ڈاکٹر اشوک پٹواری ،شمس الہدی انصری، نزیر احمد خان اور ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی وغیرہ کے افسانے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔اکیسویں صدی نے اردو افسانے کو مختلف سطحوں پر متاثر کیا۔موضوعات کو لے کر،اسلوب کو لے کر اورٹریٹ منٹ کو لے کر کیونکہ آج کل کے اردو افسانہ نگار انٹرنیٹ کے توسط سے پوری دنیا کی سیر کر رہے ہیں ۔دنیا کہاں کی اور جارہی ہے،کیا کیا تجربے ہو رہے ہیں،حالات کیسے بن رہے اور بگڑ رہے ہیں،ان سب پر افسانہ نگاروں کی گہری نظر ہیں۔جاوید شبیر:’’اپنی بیٹی کی غیرمعمولی کیفیت اور عادات کے بارے میں ماگریٹ نے اپنے یار دوستوں اور واقف کاروں سے مشورہ کرنا شرورع کر دیا تھا کہ آخر کیا کیا جائے؟’ سب کی یہی رائے تھی کہ کسی ذہنی  امراض کے ماہر ڈاکٹر کر دکھایا جائے ۔حالانکہ دیکھنے میں کیتھرن میں کوئی کمی نہیں دکھتی تھی۔اس کا کھانا پینا ،اٹھنا،بیٹھنا ،پڑھائی وغیرہ سب کچھ نارمل تھا۔صرف موجودہ زمانے کی ہنگامہ خیز ی اور شور شرابے کی زندگی سے وہ دور بھاگتی تھی۔مارگریٹ نے سرسری طور کیتھر ن کی ان عادات کا ذکر راج کمار اور ریکھا سے بھی کیا تھا۔لیکن انہیں بظاہر کیتھرن میں کوئی کمی نظر نہیں آئی تھی اور وہ بالکل نارمل ہے۔(افسانہ: نیا زمانہ نئی سوچ)
جھوٹے لوگ،خیرات کی افطاری،قانوں ،گمراہی،شرات ،بابالوگ،انوکھی مسکراہٹ جسے افسانچوں میں سماج کے مختلف شعبہ جات میں بکھری پڑے زندگی کے مصائب و مشکلات کی عکس دیکھنے کو ملتی ہے۔بقول رقیہ جمال:’’خیر اس رشتے کو چھوڑئے۔۔۔ہمارے بھائی کے لئے جمیل صاحب کی بیٹی کا رشتہ جو آپ بتارہی تھیں۔اس کی کوئی بات بنی کیا۔ہمیں تو لڑکی پسند ہے۔صائمہ بڑے پیار سے بولی۔دراصل ان لوگوں کو ایسا رشتہ چاہیے جہاں لڑکے کی نہ ماں ہو نہ بہن۔‘‘(افسانچے :رشتے کی ڈور)
حصہ تبصرہ و تعارف میں آٹھ کتابوں پر تبصرے پیش کیے گئے ہیں۔رسالے کے دو آخری حصے ادبی جھلکیاں اور مکتوبات پر مبنی ہے۔ادبی جھلکیوں میں جناب نور شاہ نے ان تمام ادبی خبروں کو جمع کر کے قارئین کو اردو دنیا کے حالات و اقعات سے باخبر کیا ہے۔علاوہ ازیںاس حصہ میں وہ تمام خطوط شایع کیے گئے ہیں جو ا راکین نگینہ کو پروفیسر صاحبان ،ادباء اور شعراء سے موصول ہوئے، نیز انہیں اپنی معتبر رائے سے بھی نوازا ہے۔رسالہ کی طبات بہت دیدہ زیب ہے۔کور پیج پر احد زرگر کی ایک خوبصورت تصویر بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔چھپائی اور کاغذ بہت عمدہ استعمال کیاگیا ہے ۔امیدقوی ہے کہ رسالہ سہ ماہی’’نگینہ سالنامہ۔2023‘‘ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوگا۔
پتہ۔رعناواری سرینگر،کشمیر
  رابطہ۔9103654553