شخصی راج کی واپسی؟

بی جے پی کی ریاستی کولیشن سرکار میں شمولیت نے آہستہ آہستہ وہ زہریلا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے جو بالآخر ریاست بالخصوص وادیٔ کشمیر میں ہندوستانی اجارہ داری قائم کرنے پر منتج ہوسکتا ہے۔ دفعہ 370 کو کمزور کرنے کی بات ہو یا پھر ریاست کے آبی و جنگلاتی وسائل کو کوڑیوں کے دام دلی کی جھولی میں ڈال دینے کامعاملہ ہو، ریاست کی مالی خود مختاری کوبتدریج تحلیل کر نے کی پالیسی ہو ، جموں و کشمیر کی قانونی وآئینی انفرادیت کا تتر بتر کیا جارہاہے۔ ریاست کے ہر معاملے میں بھارتی ایجنسیوں کو رسائی دینے کی کڑیاں بھیء اسی طرزعمل کا شاخسانہ ہے۔ یہاں کی ہندنواز جماعتیں پہلے ہی اپنے حقیر مقاصد اور مفادات کے لیے ریاست کی ہر چیز کی نیلامی کرچکی ہیں ، اب رہی سہی کسر بی جے پی اپنی سیاسی حلیف پی ڈی پی کے سہارے پوری کررہی ہے۔ کولیشن سرکار میں شامل پی ڈی پی کرسی چھن جانے کے خوف سے بی جے پی کے ہر پرپوزل کے ساتھ نہ صرف اتفاق کرتی ہے بلکہ اس جماعت کے لیڈران دو دو ہاتھوں سے لکھ کر دے رہے ہیں اوروہ ریاست کے قلیل المدت اور طویل المدت مفادات کو زک پہنچانے کو بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ جواز بھی فراہم کرتے ہیں۔۷؍جون کو وزیر اعلیٰ کی صدارت میں منعقد ہونے والی کابینہ میٹنگ میں قریب قریب یہ طے کرلیا گیا کہ گڈس اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی) کو ریاست میں لاگو کیا جائے گا، البتہ اس کے لیے ۱۷؍جون سے ریاستی اسمبلی کا خصوصی سیشن بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ جی ایس ٹی کو ریاست میں لاگو کرنے سے دفعہ 370 کی اہمیت وافادیت پربراہ راست متاثر ہوگی ۔ بی جے پی ریاستی پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر زیادہ سے زیادہ غیرریاستی افسروں کی تعیناتی کے لیے بھی راہ ہموار کرانے میں کامیاب ہوئی ہے۔سسٹم کے اندر سے اہم اور حساس نوعیت کی تبدیلیاں بڑی ہی ہوشیاری اور چالاکی سے کی جارہی ہیں اور بی جے پی کی اس حکمت عملی کا ریاست کے مسلم تشخص کے ساتھ ساتھ اس کی متنازعہ حیثیت پر بھی دور رس اثرات مرتب ہو نا طے ہیں۔
بی جے پی صوبہ جموں میں پہلے ہی اہم سرکاری عہدوں پر اپنے نظریات کے حامل لوگوں کو تعینات کرانے میں کامیاب ہوئی ہے اور اب اُنہوں نے وادی کی جانب توجہ مرکوز کرکے سول محکموں کے ساتھ ساتھ پولیس اور عدالیہ میں اپنے لوگوں کو داخل کرانے کا آغاز کیا ہے۔ حالانکہ ریاست کی بیروکریسی میں پہلے سے ہی ۷۰؍ فیصد آفسران جموں سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم ہیں۔ سول سیکریٹریٹ کے ہر شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات افراد کا تعلق اقلیتی طبقے سے ہے ۔ تعمیر و ترقی کے لیے بنانے جانے والے پلان فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والے اِن ہی افسران کے ہاتھوں ترتیب پاتا ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ کشمیرکے بجائے زیادہ تر بڑے پروجیکٹ جموں میں تعمیر ہورہے ہیں، فنڈس بھی کشمیر کے مقابلے میں جموں کے حق میں زیادہ مختص کیے جاتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ گزشتہ برس نامساعد حالات کا بہانہ بناکر وادی میں تعمیراتی کے لیے مختص کیے گئے فنڈس جموں منتقل کیے گئے ۔سول سیکریٹریٹ میں بیٹھی بیروکریسی ریاست کے مجموعی مفادات کے حق میں کام کرنے کے بجائے مخصوص فرقہ او رمخصوص خطہ کے لیے کام کرکے اپنے آقاؤں کے ساتھ وفاداری کا بھرپور مظاہرہ کررہے ہیں۔
۷؍جون کو ہی کشمیرہائی کورٹ بار ایسویشن نے سرینگرہائی کورٹ میں جموں سے تعلق رکھنے تین نئے ججوں کی تعیناتی پر سخت احتجاج درج کرتے ہوئے کہاکہ ان تقرریوں سے خطہ کشمیر کے ساتھ ہورہی ناانصافی عیاں ہوجاتی ہے۔ان تین ججوں کی تعیناتی سے سرینگر ہائی میں ججوں کی تعداد 12؍ تک پہنچ گئی ہے جن میں صرف دو صوبہ کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ جموں سے پانچ، لداخ سے ایک اور دیگر چار غیر ریاستی جج یہاں تعینات ہیں۔بار ایسویشن کے بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ حال ہی میں جن آٹھ سب ججوں کو ترقی دے کر سیشن جج بنادیا گیا اُن میں صرف ایک کا تعلق کشمیر سے ہے ، باقی سارے جموں سے تعلق رکھتے ہیں۔بار نے یہاں تک کہہ دیا کہ دو سال پہلے جوڈیشری کے امتحان میں ٹاپ کرنے والے امیدوار کو تاحال ضلعی سیشن جج کے عہدے پر تعینات نہیں کیا گیا کیونکہ اُن کے حق میں مختلف سیکورٹی ایجنسیاں جان بوجھ کرہری جھنڈی نہیں دکھا رہی ہیں۔
یہاں انصاف کے تقاضے کس حد تک پورے ہوتے ہیں ،اس کا ہم گزشتہ تین دہائیوں سے مشاہدے کرتے آئے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے عوامی ایجی ٹیشن کے بعدبڑی تعدادمیں عام لوگوں کو بدنام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کیا گیاہے۔ کم سن بچوں تک کو پولیس پی ایس اے کے تحت جیلوں میں ٹھونس دیتی ہے ، حتیٰ کہ خواتین تک کو بھی نہیں بخشا جاتا ہے۔جس کی تازہ مثال دختران ملت کی چیئرپرسن آسیہ اندرابی اور اُن کی پرسنل سیکریٹری فہمیدہ صوفی کی نظر بندی ہے۔ ان دونوں خواتین لیڈروں کو نہ صرف پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کیا گیا بلکہ انتقام گیری کے تحت انہیں جموں کے بدنام زمانہ امپھالہ جیل منتقل کیا گیا، حالانکہ پولیس و سول حکام بخوبی جانتے ہیں کہ محترمہ آسیہ اندرابی صاحبہ مختلف امراض میں مبتلا ہیں اور اُن کی جان کو بیرون ریاست خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ یہ تمام قیدی عدلیہ کے سامنے ہی اپنی فریاد لے کرجاتے ہیں اور وہاں اپنی بے گناہی ثابت کرکے رہائی پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ برس کی عوامی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں جتنے بھی لوگ گرفتار کرلیے گئے تھے کورٹ کے سامنے اُن کے خلاف ثبوت کی عدم دستیابی کے نتیجے میں وہ باعزت بری ہوئے۔ عام کشمیریوں کو جیل سے جلدی چھوٹ کر آتا ہوا دیکھنا بی جے پی اور اُس کی اتحادی جماعت کو ایک آنکھ بھی نہیں با رہا ہے اس لیے اب ایک نئی حکمت عملی کے تحت یہاں جموں سے تعلق رکھنے والے ججوں کو تعینات کیا جارہا ہے تاکہ نسلی بنیادوں پر سنگ بازی اور عوامی ایجی ٹیشن کی قیادت کرنے میں پیش پیش رہنے کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے افراد کے کیس طول پکڑ لیں اور انتظامیہ و وردی پوشوں کی جانب سے شروع کی گئی ’’جیل بھرو‘‘ مہم کامیاب ہوجائے۔عدالتوں میں نسلی تعصب کی واضح دلیل یہ ہے کہ بیرون ریاست کے جیلوں سے دس دس بارہ بارہ سال کے بعد بے گناہ ہو کر چھوٹ جانے والے کشمیری نوجوانوں کے کیسوں کووہاں جج صاحبان مبینہ طور طول دیتے تھے، عدالت میں حاضرہونے کے باوجود وہاں جج صاحبان اگلی تاریخ مقرر کرلیتے تھے اس لیے ملت کے ان بیٹوں کو ایک دن میں ثابت ہونے والی بے گناہی ثابت کرنے میں بارہ بارہ برس لگ گئے۔
یہ منظم سازشیں ہیں اوربے پردہ سازشیوں کے ذریعے یہاں کے تمام اداروں پر فرقہ پرست عناصر کا قبضہ کرواکے اُنہیں کشمیریوں کے خلاف استعمال میں لانا مقصود ہے۔بیروکریسی سے لے کر عدلیہ ، انتظامیہ اور پولیس کے ہر محکمے تک بیرون وادی و بیرون ریاست کے لوگوں کو تعینات کرکے فرقہ پرست طاقتیں یہاں کے وسائل پر قابض ہونا چاہتی ہیں، یہاں کی ڈیموگرافی تبدیل کرنا چاہتے ہیں ، یہاں کی نفسیاتی فضا بد لنا چاہتی ہیں ،کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو زک پہنچانا چاہتی ہیں اور مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرنے کے علاوہ یہاں کے لوگوں کو تعلیمی اور اقتصادی طور پر تباہ حال بنانا چاہتی ہیں۔بیروکریسی کی اسی فرقہ پرست ذہنیت کا ہی کمال ہے کہ یہاں آئے روز تعلیمی ادارے بہانے کر کر کے بند کردئے جاتے ہیں۔طلباء احتجاج کا حیلہ بناکر تعلیمی ادارے بالخصوص کالج بند کرکے ہماری نئی نسل کے تعلیمی کیرئیر کو تباہ کیا جارہا ہے۔گزشتہ برس کرفیو لگا کر چار مہینے تک تعلیمی اداروں پر تالے چڑھا لئے گئے ہیں اور رواں سال میںبھی احتجاج پر روک لگانے کے نام پر تعلیمی اداروں کو بند رکھا جارہا ہے۔حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ طلبہ برادری کو جان بوجھ کر وردی پوشوں اُکسا رہے ہیں اور اُنہیں اشتعال دیا جارہا ہے۔
دلی کی ایجنسیوں اوربی جے پی کی فرقہ پرست سوچ کو ریاست میں ہندنواز جماعتیں بالخصوص پی ڈی پی عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔پولیس محکمہ میں جن اہم عہدوں کو ریاستی پولیس کیڈر کے لیے مختص رکھنے کے لیے پی ڈی پی بضد تھی اور اس مانگ کو منوانے کے خاطرایک مرتبہ محبوبہ مفتی کابینہ میٹنگ سے درمیان میں ہی اُٹھ کر چلی گئی ، بالآخر حالیہ کابینہ میٹنگ میں پی ڈی پی اور محبوبہ مفتی کو بی جے پی کے سامنے ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ اب نئے ضابطوں کے تحت کشمیر کیڈر سے تعلق رکھنے والے پولیس آفیسر اعلیٰ عہدوں پر تعینات نہیں ہوسکتے ہیں ، یعنی کشمیر پولیس کی قیادت بہرحال غیرریاستیوںکے ہی ہاتھ میں رہے گی۔اس کے کتنے خطرناک نتائج برآمد ہورہے ہیں، اس کا مشاہدہ ہم گزشتہ کئی برسوں سے کررہے ہیں، بالخصوص عوامی ایجی ٹیشن کے دوران کشمیریوں کے مقابلے میں کشمیر پولیس کو ہی کھڑا کردیا گیا۔عام کشمیریوں کے لیے اب فوج اور نیم فوجی دستوں سے زیادہ کشمیر پولیس ہی خطرناک بنتی جارہی ہے۔دلی نے جان بوجھ کر اس طرح کے اقدامات کرکے ریاست کے اکثریتی طبقے کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے کی کوشش کی ہے اور اب فرقہ پرست بی جے پی اپنے اس گھناؤنے اور خطرناک کھیل کو آخری شکل دے رہی ہے۔
جس طرح ڈوگرہ دور میں عوام کی اکثریت کو تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے، اُن سے بے گار لی جارہی تھی، اُنہیں دبایا جارہا تھا، وہی طریقہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے۔ کشمیر میں غیر ریاستی و غیر کشمیری آفسران کی تعیناتی اُس ذہنیت کو واضح کررہا ہے جو کشمیریوں کی جدوجہد برائے حق خود ارادیت کو دبانے کے لیے اپنائی جارہی ہے۔ جموں صوبہ پر پہلے ہی فرقہ پرست قابض ہوچکے ہیں، وہاں کا ہر اہم عہدہ بی جے پی اور آر ایس ایس فکر سے وابستہ لوگوں کے پاس ہے، وہاں اقلیتی طبقے کو سرکاری سطح پر ہراساں و پریشان کیا جارہا ہے۔ جنگلاتی زمین کے نام پر غریب مسلمانوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کیا جارہا ہے، آبادی کے توازن کو بگاڑنے کے لیے مشرقی پاکستان کے شرنارتھیوں کو آباد کیا جارہا ہے اور وہاں فرقہ پرستوں کی اس حد تک سرپرستی کی جارہی ہے کہ وہ کھلے عام ہتھیار کی نمائشیں کرکے ریلیاں نکال رہے ہیں ۔ اب فرقہ پرست طاقتیں وادی کشمیر کو ’’فتح ‘‘ کرنے کے لیے استعماری حربے آزمانے لگے ہیں۔یہاں یہ لوگوں کوجدوجہد برائے حق خود ارادیت سے دستبردار کرنے میں ناکام ہوئے، اُن کی جانب سے استعمال ہونے والے تمام مظالم اور طاقت بے سود ثابت ہورہے ہیں اور اب نئی حکمت عملی اپنا کر یہاں کے اداروں پر قبضہ جمایا جارہا ہے۔
یہ بار ایسویشن کی ہی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ اُن درجنوں ملازم انجمنوں کا کام ہے جو یہ کام کررہی ہیں کہ وہ اپنی ملت کے ساتھ ہورہی زیادتیوں پر اُٹھ کھڑے ہوں۔ ملازمین تنظیموں کو بخوبی ادراک ہے کہ کہاں کیا ہورہا ہے، کس طرح سے یہاں کے وسائل لوٹے جارہے ہیں، کس طرح کشمیری مسلمان افسروں کو نظر انداز کرکے غیرکشمیری لوگوں کو تعینات کیا جارہا ہے،یہ تنظیمیں اگر اپنے مالی حقوق وغیرہ کے لیے بجاطور حکومت سے دو دو ہاتھ کرسکتی ہیں تو جس قوم و ملت کا یہ حصہ ہیں اُن کے مجموعی مفادات کے لیے یہ کیوں کر زبان نہیں کھول سکتے ہیں؟ اگر ان تنظیموں، دانشوروں اور دیگر ذمہ دار شہریوں نے خاموش اختیار کرلی تو آنے والی نسلیں اس گھناؤنے جرم کے لیے ہمیں معاف نہیں کریں گی۔جہاں تک ہندنواز اور اقتدار پرست جماعتوں اور سیاست دانوں کا تعلق ہے وہ اپنے حقیر مقاصد کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا کرچکے ہیں۔ اُن سے کسی خیر کی اُمید رکھنا ہی عبث ہوگا۔ یہاں حالت یہ ہے کہ ہر ہند نواز جماعت میں مخصوص افراد کی سرپرستی بھارتی خفیہ ایجنسیاں اور فوج کررہی ہے، یہ لوگ ان جماعتوں کے پالیسی ساز عہدوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اِن جماعتوں میں جب پالیسیاں بنتی ہیں تو وہ دلی کی ایجنسیوں کی ہی تیار کردہ ہوتی ہیں۔ بھارتی فوج کے سابق سربراہ و موجودہ وزیرمملکت برائے دفاع جنرل (ر)وی کے سنگھ نے اپنے دورِ ملازمت میں اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ فوج مختلف سیاسی جماعتوں میں کچھ لیڈروں کی سرپرستی کررہی ہے تاکہ یہ ضرورت کے وقت پارٹی کے اندر اُن کا کام کریں۔ اس وقت بڑی سرعت  کے ساتھ اور کھلے عام ڈوگرہ راج کی واپسی ہورہی ہے ۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہمارا  اجتماعی فرض ہے کہ کیا ہم شخصی راج کی ذلتوں میں پھنس جانے کو ترجیح دیں یا پھر اپنی آنے والی نسلوں کی خوشحالی اور آزادی کے لیے جدوجہد برائے حق خود ارادیت کے لیے اپنے تمام تر وسائل کو خلوص واستقامت اور پامردی کے ساتھ بروئے کار لائیں۔
رابطہ9797761908