شخصیت سازی میں مطالعہ انتہائی اہم

شبیر احمد بٹ

کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
مطالعہ تحصیل علم کا ایک اہم زیور ہے۔یہ ایک انسان کے عقل و شعور کو جلا بخشتا ہے۔اسے زیرک بناتا ہے۔اس کی استعداد اور صلاحیتوں کو پروان چڑ ھاتا ہے۔وسیع و دقیق مطالعہ کے بغیر انسان کا ذہن ادراک کی اس سطح تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا جہاں سے وہ مفید و مضر ،کھرے و کھوٹے اور اعلیٰ و ادنیٰ کے مابین فرق کو سمجھ سکے۔مطالعہ کرنے والے کا بیان ہو ،تقریر ہو یا کسی نیکی کی دعوت یہ بہت ہی موثر ہوتی ہے اور اس میں غلطی کے امکان زیادہ نہیں ہوتے ہیں۔ اگر دو تین دن کسی کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے تو اگلے روز گفتگو میں وہ شیرینی اور تاثیر باقی نہیں رہے گی۔کتابوں کے مطالعہ سے ہمیں ٹھوس دلائل دینے اور بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔اچھی کتابوں کا مطالعہ انسان کو مہذب بناتا ہے۔شخصیت میں نکھار اور وقار عطا کرتا ہے۔
مطالعہ کے دوران ذہنی سکون نصیب ہوتا ہے اور طبیعت میں نشاط اور ذہن کو تازگی ملتی ہے۔مطالعہ کتابوں کا ہو یا اچھی تحریروں کا یہ ایک مفید مشغلہ ہے جو قلب و ذہن کو روشن کرتا ہے،ذہنی تنائو کو کم کرتا ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی حصول علم کا حکم دیا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنا سب سے پہلا پیغام انسانیت کے نام بھی یہی بھیجا اور ارشاد فرمایا اقراء باسم ربک الزی خلق۔
حصول علم ہے ہر اک فعل سے بہتر
دوست نہیں ہے کوئی کتاب سے بہتر
مطالعہ سے خاموش رہنے کی عادت پڑتی ہے جو کہ بذات خود بہت ساری خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔جنرل آف سوشل سائنس اینڈ میڈیسن میں تحقیق شائع ہوئی تھی کہ کتابوں کا مطالعہ زندگی بڑھانے اور طویل عمری کی وجہ بھی ہوسکتا ہے۔مدارس، سکول ،کالج اور یونیورسٹیاں طالب علم کو علم و دانش کی دہلیز تک لاکر کھڑا تو کر دیتی ہے لیکن تحصیل علم کا اصل سفر اس کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے ایک استاد آپ کو کامیابی و کامرانی کی شاہراہ کی طرف رہنمائی تو کرسکتا ہے لیکن اس شاہراہ پر چلنے کی ذمہ داری خود ایک طالب علم کی ہے۔کتابیں آپ کو علوم وفنون سکھاتی ہے۔اذہان قلب کو منور کرتی ہیں۔آپ کو آداب اور سلیقے سکھاتی ہیں۔
جب کتابوں سے میری بات نہیں ہوتی ہے
تب میری رات میری رات نہیں ہوتی ہے
مجھے پرفیسر آرنلڈ کا وہ واقعہ یاد آرہا ہے جو مولانا شبلی نے بیان کیا ہے کہ ہم جہاز میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک جہاز کا انجن ٹوٹ گیا اور جہاز میں سوار سبھی یہاں تک کہ کپتان بھی گھبرائے ادھر اُدھر پھر رہے تھے۔جہاز کا انجن بالکل بیکار ہوگیا تھا اور جہاز ہوا کے سہارے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ شبلی لکھتے ہیں میںبہت گھبرایا اور دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا ،وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔میں نے کہا کہ آپ کو کچھ خبر بھی ہے۔بولے :- ہاں جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے۔میں نے کہا آپ کو کوئی فکر نہیں ہے بھلا یہ بھی کوئی کتاب پڑھنے کا موقع ہے۔آرنلڈ کہنے لگے اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے ایسے قابل قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے۔غرض اگر مرنا ہی ہے تو بہتر ہے کہ مرنے سے قبل کچھ جان کر ،سیکھ کر مر اجائے۔
بے شک کتابیں تنہائی کی بہترین ساتھی ہیں۔کتاب اور طالب علم کے مابین روح اور جسم کا رشتہ ہے۔کتاب وہ ہم سفر ہے جو اپنے ساتھی کو دوردراز کے علاقوں اور شہروں کی سیر کرادیتی ہے۔قوم کی تعمیر و تشکیل میں بھی مطالعہ کی اہمیت قابل بیان ہے۔کتاب دوستی اور احترامِ کتاب زندہ قوموں کی نشانی ہے۔جس قوم کے طالب علم سستی کتابیں خریدنے میں بھی عار اور مہنگے جوتے خریدنے میں فخر محسوس کرتے ہیں تو اس قوم کا مستقبل کیسا ہوگا، یہ لمحہ فکریہ ہے۔
اس شہر میں کتنے چہرے تھے ، کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا
پتہ۔رحمت کالونی شوپیان
موبائل۔9622483080