شاہ فیصل اورسیاست

 کشمیر کو سیاسی نشیب و فراز کی آماجگاہ مانا جاتا ہے جہاں کب کون سی تبدیلی رونما ہو، اس کا اندازہ لگانا نہایت مشکل ہے۔ لیکن پچھلی چند دہائیوں سے کشمیر کی سیاست میں کافی اتھل پتھل رہی۔ اسی سیاسی اُتھل پتھل کے بیچ گزشتہ سال ایک خاص تغیر تب دیکھا گیا جب  ۲۰۰۹؁ء کے آئی اے ایس  ٹاپر ڈاکٹر شاہ فیصل نے سرکاری عہدے سے استعفیٰ دیا اور بعد ازاں کشمیری عوام کے لئے مسیحا ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک سیاسی جماعت بھی بنائی۔ شاہ فیصل کی قابلیت کے قائل لوگوں کے ایک طبقے نے اس اقدام کی سراہنا بھی کی، شاہ فیصل کا ساتھ دینے کا فیصلہ بھی کیا۔ شاہ فیصل کا ظاہری مقصد کشمیری قوم کو اُن اندھیروں سے نکالنا تھا جِن میں یہ قوم پچھلی کئی دہائیوں سے پڑی ہے۔ حالانکہ ان کے اس فیصلے پر چہ میگوئیاں تب بھی ہو رہی تھیں اور اب بھی ہو رہی ہیں ۔ لیکن ان کا یہ فیصلہ مخلصانہ تھا یا پھر فریب پہ مبنی تھا یہ اللہ ہی بہتر جانتے ہیں ۔  
حال ہی میں شاہ فیصل صاحب نے یہ کہہ کر سیول سروسز کو دوبارہ جوائین کرنے کا اشارہ دیا کہ وہ قوم کو جھوٹے سپنے نہیں دِکھا سکتے اور یہ کہ کشمیر کا منظر نامہ اب بدل چُکا ہے اور کشمیر کے تئیں ملکی آئین سے بالاتر کوئی بھی تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی۔ جس طرح شاہ فیصل کے سیاست میں قدم رکھنے پر کئی سوال اُٹھے تھے، ٹھیک اُسی طرح اُن کے سیاست سے دست بردار ہونے پہ بھی چہ میگو ئیاں برابر جاری ہیں۔ شاہ فیصل صاحب کے اس مختصر سے سیاسی کیریئرکو سمجھنے کے لئے اورکشمیرکے سیاسی مسائل سے اُن کے فیصلے کی مطابقت کا جائزہ لینے کے لئے  چند اہم باتوں پہ غورکرنا لازمی بنتا ہے۔
 اول الذکر کشمیر کے Political Scenarioکو بدلنے کا خواب دیکھنا ، ایں خیال است و محال است و جنون است۔ کیونکہ جس دور میں کشمیر  کے بیشتر فیصلے ریاست کے وزیرِ اعظم اور صدرِ ریاست کی میز سے آتے تھے، اُس دور میں بھی یہاں کے کہنہ مشق سیاستدان ایسا کوئی بھی قدم اُٹھانے کے مجاز نہیں تھے جو دہلی کو ناخوشگوار لگتا۔ جس کی جاوید مِثال 1953 میں واضح طور پہ ملتی ہے ۔ شیخ محمد عبداللہ ،جو ڈوگرہ سرکار کے خلاف اُٹھائی تحریک میں کامیاب رہے، ۱۹۵۳؁ء میں وزیرِ اعظم کی کرسی سے اُتار کر جیل پہنچا دئے گئے کیونکہ ان کی 1952؁ء میں جموں میں کی ہوئی تقریر، جِس میں انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے بھید بھائو پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا ، اور  1953   میں  Adlai Stevesnonکے ساتھ ہوئی اُن کی  ملاقات سے دہلی کے تئیں شیخ محمد عبدللہ کے جذبات پر شک کیا جا رہا تھا۔  
اسی طرح1983؁ء میں جب شیخ محمد عبدللہ کے فرزند اور اس وقت کے وزیرِ اعلی ڈاکٹر فاروق عبدللہ نے کانگریس کے خلاف مورچہ کھولتے ہوئے تین دِن کے لئے Opposition Conclave کا اہتمام کیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ دہلی تک سیاسی ڈھانچے کو متزلزل کر سکتے ہیں تو انہیں بھی کرسی سے اُتار کر ان کی جگہ جی ایم شاہ کی تاج پوشی کی گئی۔ بعد ازاں کافی مشقت کے بعد ڈاکٹر فاروق عبداللہ اقتدار میں واپس آئے جب انہیں 1986؁ء میں کانگریس کے ساتھ ہاتھ مِلا نا پڑا۔
 ایسے واقعات اس بات کی واضح عکاسی کرتے ہیں کہ کوئی بھی شخص جو جموں و کشمیر میں وزیرِ اعلی کی کرسی پہ یا دوسرے کسی اہم عہدے پر فائز ہو، تب تک کوئی بھی قدام نہیں اُٹھا سکتا جب تک دہلی کیلئے وہ اقدام خوشگوار نہ ہو۔ لیکن تاریخ سے مِلنے والے اِن واشگاف اِشاروں کے باوجود شاہ فیصل نے سیاست میں قدم رکھنے کا اور سرکاری نوکری سے استعفیٰ دینے کا جوکھم اُٹھایا۔ علاوہ ازیں شاہ فیصل صاحب کے سیاست میں آنے کے فوراََ بعد جب انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا تو اُنہوں نے صرف اپنی منزل واضح کر دی جبکہ اس منزل کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی طرح کے روڈ میپ کا ذکر نہیں کیا۔منزل اگرچہ ظاہری طور پر واضح تھی لیکن منزل پانے کا راستہ نہ تو غالباََ اُن کے پاس تھا اور نہ ہی "ییِ کَرِ تِی کَرِ شاہ کَرِ شاہ کَرِ" کے نعرے بلند کرنے والے اُن کے حامیوں کے پاس ۔شاہ فیصل صاحب کی سیاسی کشتی اگرچہ شروع سے ہی ڈھانوا ڈول تھی لیکن سُرعت کے ساتھ اس وقت ڈوبنے لگی جب جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ چھن گیا اور بشمو ل شاہ فیصل کے لگ بھگ سبھی سیاسی راہنما نظربند ہو گئے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاہ فیصل کے سیاسی مورچے پرڈٹے رہنے کی ضرورت کتنی تھی۔ یقینا ایسے میں اگر شاہ فیصل سیاست میں ٹِکے بھی رہتے تو  کئی سال تک وہ شیخ محمد عبدللہ کی طرح بقولِ شیخ محمد عبداللہ کے سیاسی آوارہ گردی کرنے پر مجبور ہوتے اور بالآخر تنگ آکر کسی بھی طرح کا سودا کر کے اقتدار پہ براجمان ہو جاتے ۔ تب شاہ فیصل صاحب کشمیر کے لئے ایک اور شیخ محمد عبدللہ ثابت ہو جاتے۔ لہٰذا اُ نکا سیاست سے دستبردار ہو کر ایڈمنسٹریٹو سروس میں واپس قدم رکھنے کا اشارہ پریشان کن ہونے کے بجائے اطمینان بخش تصور کیا جا سکتا ہے۔
رابطہ۔ ہردوشیواہ زینہ گیر کشمیر 
فون۔9149468735