شاہرا ئوں پر موت کا رقص کب تک ؟

محکمہ ٹریفک کے مطابق گذشتہ 4برسوں میں جموںوکشمیرکے مختلف علاقوں میں سڑک حادثات کے دوران 4ہزارسے زائد شہری لقمۂ اجل بن گئے ہیں ۔ دیگر شاہرائوں کے ساتھ ساتھ سرینگرجموںقومی شاہراہ پر تواتر کے ساتھ رونما ہونے والے خونین حادثات نے ایک بار پھراس شاہراہ کی تعمیرو و تجدید کیلئے ایک مؤثر اور تخلیقی منصوبے کے تحت اقدامات کرنے کی ضرورت کا احساس اجاگر کیا ہے۔ دنیا بھر میں شاہرائوں کو ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایک اہم ترین شاہراہ، جو اس خطے کو باقی دنیا سے جوڑنے کا واحدزیر استعمال زمینی ذریعہ بھی ہے، دردناک اموات کی علامت بن کررہ گئی ہے۔یہ حادثے اور ان میں ہوئی اموات دراصل دہائیوں سے اس موت کی شاہراہ پر ہونے والے لاتعداد حادثات اور ہزاروں اموات کا تسلسل ہے۔المیہ بھی یہی ہے کہ مسلسل حادثات اور اموات کے باوجود اب تک کسی بھی حکومت نے سرینگر۔ جموںقومی شاہراہ کی تجدید نو کے حوالے سے کوئی غیر معمولی اور مؤثرمنصوبہ مرتب کرنے کی طرف توجہ نہیں دی۔حالانکہ جدید دنیا میں یہ قطعاً کوئی مشکل کام نہیں ہے۔اولاً تو یہ اس قدر ترقی یافتہ دور میں جب کہ سمندوں اور پہاڑوں کو چیر کر راستے بنانا ایک عام بات بن گئی ہے۔ ثانیاً یہ کہ ایسا بھی نہیں ہے کہ تین سو کلو میٹر طویل شاہراہ کو ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک از سر نو تعمیر کرنے کی ضرورت ہو۔یہ بات ثابت شدہ ہے کہ شاہراہ پر زیادہ تر حادثات ، خواہ پسیاں گر آنے کی وجہ ہوں یا گاڑیاں گہری کھائیوں میں جاگرنے سے ہوں،اکثر رام بن اور بانہال کے درمیان رونما ہوتے ہیں۔یہی سڑک کا وہ حصہ ہے جہاں برف اور بارش کے موسم میںزیادہ تر سڑک بند ہوجاتی ہے اور سڑک کی تنگ دامانی کی وجہ سے گرمیوں میں بھی اس حصے پر بدترین ٹریفک جام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس 37کلو میٹر طویل حصے کی تجدید نو ، اسکی کشادگی یا ٹنلنگ پر جتنی رقم خرچ ہوسکتی ہے، اس سے کئی گنا زیادہ پچھلی ایک دو دہائیوں کے دوران اس کے رکھ رکھائوپر صرف ہوا ہوگا۔ماضی میں جموں سرینگرقومی شاہراہ پر سب سے زیادہ حادثات اور اموات ناشری کے مقام پر ہوتے تھے۔ لیکن جب اس خطرناک مقام پر سڑک کشادہ کرنے کے ایک بڑے پروجیکٹ کو ہاتھ میں لیکر مکمل کیا گیا تو مسئلہ خود بخود ختم ہوگیا۔اب ناشری کے مقام پر سڑک اس قدر وسیع ہے کہ یہاںحادثات کا احتمال نفی کے برابر ہے بالکل ناشری تک تو اب ٹنل بھی مکمل ہوچکا ہے جس کے بعد چنہنی سے ناشری تک مسافت بالکل کم ہوگئی ہے اور مسافروں کا کافی وقت بچ جانے کے علاوہ حادثات کے امکانات بھی کم ہوگئے ہیں تاہم ناشری سے بانہال اور قاضی گنڈ تک کا حصہ بالکل ان چھوا ہے اور اس کو چار گلیاروں والی شاہراہ بنانے کے ضمن میں کام کچھوے کی چال چل رہا ہے۔جس طرح ناشری تک عنقریب شاہراہ چار گلیاروں والی بننے کے امکانات واضح ہوچکے ہیں ،باکل اسی طرح رام بن سے بانہال تک کی سڑک کو کشادہ کرنے کیلئے بھی ایک مؤثر منصوبے کی ضرورت ہے۔آخر حکومت ایسا کیوں نہیں کرتی ، یہ بات ناقابل فہم ہے۔تاہم ایک تاثر یہ ہے کہ دس سال پہلے جب جموں سے وادی ٹرین ٹریک بچھانے کا منصوبے پر کام شروع ہوا تو بات دل میں بٹھالی گئی کہ اب ٹرین چلنے کے بعد شاہراہ پر ٹریفک کا دبائو خود بخود ختم ہوجائے گا اور نتیجتاً حادثات بھی کم ہونگے۔حالانکہ اس طرح کی سوچ سراسر غیر منطقی ہے۔ دیر سویر حکومت کو اس شاہراہ کی تجدید نو کرنا ہی ہوگی۔
 ویسے بھی ہمارے یہاں سڑک حادثات صرف سرینگر۔ جموںقومی شاہراہ تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ کہنا بے جا بھی نہیں ہوگا کہ یہ واحدخطہ ہے جہاں اوسطاً زیادہ لوگ سڑک حادثات کی نذر ہوجاتے ہیں۔ہر دن اخبارات کسی نہ کسی علاقے میں رونما ہونے والے سڑک حادثات اور ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے حوالے سے خبر لیکر شایع ہوتے ہیں۔اب حالت یہ ہے کہ اس طرح کی خبریں معمولی اور معمولات کے زمرے میں شامل ہوگئی ہیں۔یہاں رونما ہونے والے حادثات کی شدت بذات خود ٹریفک نظام میں بدترین خامیوں کی موجود گی کا برملا ثبوت ہے۔ عمومی طور پر ہمارے یہاں حادثات کے اسباب سڑکوں کی تنگ دامانی،ہر گذرنے والے دن کے ساتھ بڑھتا ہوا ٹریفک دبائو ،قوانین کی خلاف ورزیوں کا بلا روک ٹوک سلسلہ،جعلی ڈرائیونگ لائسنز یا ڈرائیونگ لائسنز کی اجرائی کا ناقص نظام وغیرہ جیسی چیزیں ہیں۔محکمہ ٹریفک کا غیر متحرک ہونا ستم بالائے ستم کے مترادف ہے۔ ایسا نہیں کہ محکمہ ٹریفک میں قابل اور کام کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے ٹریفک محکمہ شدید افرادی قلت اور جدید سہولیات کی محرومی سے دوچار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں شہروں اور قصبہ جات میں ہی ٹریفک محکمے کی موجود گی محسوس ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں محکمہ ٹریفک اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کرنے میں سراسر ناکام ثابت ہورہا ہے۔مثلاً ٹریفک قوانین اور ضوابط سے متعلق عوام کو تسلسل کے ساتھ جانکاری فراہم کرنا محکمہ ٹریفک کا ایک مسلسل کام ہونا چاہیے تھا،لیکن اس ضمن میں بہت معمولی توجہ دی جاتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ ٹریفک نظام کو سر نو ترتیب دینا وقت کی ایک اہم ضرورت بن گئی ہے ۔نظام ٹریفک کو سنوارنا ایک مسلسل عمل ہے کیونکہ مسائل تو بہرحال ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ٹریفک دبائو تو بڑھتا ہی جائے گا۔ ایسا پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ بلکہ ہماری آس پاس کی ہی ریاستوں میں جتنا ٹریفک دبائو ہے ہمارے یہاں اسکے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن ان ریاستوں کے پاس نظام ہم سے بہتر ہے اور وہ تسلسل کے ساتھ نئے نئے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔جموں۔ سرینگرقومی شاہراہ یا دوسری سڑکوںاور شاہرائوں کی اہمیت اور حیثیت تو بہر حال ہمیشہ اپنی جگہ موجود ہے۔ضرورت ان سڑکوں پرسفر زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کی ہے۔متمدن قوموں کی ترقی کا راز بھی ہی ہے کہ وہ ہمہ وقت مسائل کا حل تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کیا ہم بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور سرینگر جموں قومی شاہراہ کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے منصوبے مرتب کریں گے یا پھر اسی طرح حادثات میں ہونے والی اموات کو دیکھتے ہی رہیں گے؟۔