شاہراہ… درماندگان کی خوفناک تصویر!

وادی کشمیر کو بیرونی دنیا کے ساتھ جوڑنے والی کلیدی جموںسرینگر شاہراہ گزشتہ پانچ روز سے بند پڑی ہے اور سینکڑوں کی تعداد میں مسافر گاڑیوں اور نجی گاڑیوں میں سفر کرنے والے ہزاروں افراد زبردست مشکلات اور مصائب کا شکار ہیں۔ ایک جانب صورتحال یہ ہے اور دوسری طرف شاہراہ پر رام بن اور ڈگڈول کے درمیان مختلف مقامات پر پسیاں گر آنے کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ شاہراہ ماضی میں بھی بند ہوتی رہی ہے اور لوگ درماندہ ہوتے رہے ہیں لیکن موجودہ حالات میں مسافروں کو درپیش مشکلات میں ارضی اسباب کے علاوہ بد انتظامی بھی ایک معقول وجہ کے طور نظر آرہی ہے۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے بارش و برفباری او رتودوں و پسیوں کی واضح وارننگ جاری کئے جانے کے بعد شاہراہ کی دیکھ ریکھ کیلئے ذمہ دار اداروں اور محکمہ ٹریفک میں بھر پور تال میل ہونا چاہئے تھا جو دکھائی نہیں دے رہا ہے کیونکہ آگر ایسا ہوتا تو شاہراہ کی دگر گوں صورتحال کے باوجود جموں سے سرینگر کی جانب ٹریفک نہیں چھوڑا جاتا۔ بہر حال فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ کئی درماندہ مسافروں کو رام بن سے رام سو تک تقریباً20کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کرنا پڑ رہا ہے اور اس سفر کیلئے شاہراہ کے عقب میں واقع چھوٹے چھوٹے راستے استعمال کرنے پڑتے ہیں، جو بذات خود اُوپر سے گر آنے والی پسیوں اور شاہراہ کی فورلیننگ کی وجہ سے ہر دم کمزور ہو رہی زمین کے کھسک جانے کی زد میں ہیں۔ درماندہ مسافروں کے پیدل سفر کے حوالے سے اخبارات میں آئی خوفناک تصاویر دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم عہد تحقیق میں رہ رہے ہیں۔ بشلڑی کے نزدیک رام بن سے رام سو کی طرف چلنے والے مسافروں کو چا رسال قبل جُزوی طو پر ڈھ گئے ایک پُل پر رسیوں سے بنائی گئی سیڑھی کی مدد سے چڑھنا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنا پیدل سفر جاری رکھ سکیں۔ یہ دل دہلانے والی تصاویر جموں سے سرینگر کی طرف سفر کرنے والے مسافروں سے زیادہ کسی جنگ زدہ ملک سے محفوظ مقامات کی طرف بھاگنے والے لوگوں کی جیسی لگ رہی ہیں۔ ا س پر طرہ یہ ہے کہ درماندہ مسافروں کو ، جو گزشتہ کئی دنوں سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، راحت پہنچانے کیلئے انتظامیہ کی جانب سے کوئی خاص اقدام نہیں کیا گیا۔ یہ بھلا ہو مقامی آبادی کا اور غیر سرکاری تنظیموں کا ، جنہوں نے ماضی کی طرح اب بھی جذبہ انسانیت کی سر بلندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درماند گان کیلئے جگہ جگہ لنگروں اور بیماروں کے لئے دوا دارو کا انتظام کیا ، وگرنہ متعدد درماندگان کو فاقہ کشی کا شکا ر ہونا پڑتا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ نئی دہلی سے لیکر جموں و سرینگر تک حکام کی جانب سے سڑک رابطوں کو اس نوعیت کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں، جو مستقبل کی ضروریات کو بھی پورا کرسکیں، لیکن زمینی سطح کی صورتحال دیکھ کر یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہوتا کہ مستقبل تو دو رکی بات ہم ابھی رواں عہد کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ نہیں ہو پا رہے ہیں۔ جموں سرینگر شاہراہ کی فورلیننگ کا کام دردست لیتے وقت اس امر سے غالباً صرف ِ نظر کیا گیا کہ دوران تعمیر ہنگامی حالات میں مسافروں کی مشکلات سے کس طرح نمٹا جائے؟ ، کیونکہ فولیننگ کیلئے پہاڑوں کی اُکھاڑ پچھاڑ کے عمل میں پسیاں گرآنے کے مزید اور وسیع امکانات سے کسی بھی صورت میں انکار کرنے کی گنجائش نہیں تھی، لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس سے قطعی طور پر صرفِ نظر کیا گیا ہے، کیونکہ پنتھیال، مہاڑ، ڈگڈول اور بیٹری چشمہ علاقوں میں تقریباً6برسوں کے بعد شاہراہ کی اس صورتحال کیلئے فورلیننگ کے اُکھار پچھاڑ اور توڑ پھوڑ کا اہم رول ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسی صورتحال میں مسافروں کے عبور و مرور کی گنجائشوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے اور کم از کم درماندہ ہونے کی صورت میں سرینگر و جموں میں یا بیچ راستے میں پھنس جانے والے مسافروں کو لازمی بنیادی سہولیات کی فراہمی پر توجہ دے۔ آرم دہ کرسیوں پر بیٹھ کر حالات آنکنے والوں کو کسی کسی وقت زمین پر اُتر کر مشکلات کے بھنور میں تڑپ رہے عام لوگوں کی حالتِ زار کا جائزہ لینا چاہئے۔