راشٹریہ سیوئم سنگھ( آر ایس ایس)کی ہندتوا یلغارسے وہ بھارتیہ سماج آج بکھرکے کہیں روپوش ہوگیا ہے جسے گنگا جمنی تہذیب زینت بخشتی تھی اور جسے دنیاکے سامنے بھارتی حکمران اورسیاستدان ہی نہیں بلکہ چوٹی کے ملکی مفکرین اورفلسفی مثالی بتاتے تھے۔ جس بھارت کے چوٹی کے نیتا کل تک مظلوم فلسطینیوں سے ہمدردی جتاتے اور یاسر عرفات کو بھائی کہہ کر پکارتے، آج صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھ رہی ہیںاور فلسطینیوں سے ہمدردی قصۂ پارینہ ہے ۔ تناہی نہیں بلکہ آج کے حاکم بے ضرر اور بے سروسامان ،مفرور اورمظلوم روہنگیائی پناہ گزینوں کو ’’ قوم کے لئے خطرہ‘‘ کہنے سے نہیں کتراتے کیونکہ یہ بچارے مسلمان ہیں ۔حسد اور عداوت کی انتہا ٰ یہ ہے کہ برما میںبودھ دہشت گردوں کی بے رحمانہ انسانیت کش کاروائیوں کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا جاتا ۔ ماضی میں ایسا کم ہی ہوتا تھا۔ طر فہ تماشہ یہ بھی ہے کہ حکومت ِ ہند افغانستان کے مسلمانوں کی حالت ’’بہتر‘‘بنانے اور وہاں’’ جمہوری نظام ‘‘کو استحکام دینے کے واسطے اپنے لئے کردار کا مطالبہ امر یکہ کی زبانی کروارہی ہے ، جب کہ بھارتی مسلمانوں کے دینی امور، کھان پان ، لباس، رہن و سہن، تہذیب و ثقافت اور عبادت خانوں پر کھلے عام خوف وخطر کے پہرے بٹھائے جارہے ہیںاور انہیں سیاسی، سماجی اور جمہوری میدانوں میں بالخصوص مفلوج کیا جارہا ہے ۔ اب تو اعلانیہ مسلم اقلیت کو باور کرایا جارہا ہے کہ ہمیں تمہارے ووٹوں کی ضرورت نہیں ۔ خیر رواں سال میں جنوبی ہند کی ریاست کرنا ٹک کے بھارتی عیسائیوں کے ایک چرچ نے اپنی شائع شدہ رپورٹ میں صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ’’آج بھارت میں آئین کا ہولوکاسٹ ہو رہا ہے ‘‘ کیونکہ فسطائیت پسند شفاف ذہن ، وسیع القلب، غیر جانبدار ، سیکولر دانشوروں اور صحا فیوں کے لئے زمینتنگ کرر ہے ہیں ۔ان پر آئے دن’’ ملک دشمنی‘‘ کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں ۔ معروف خاتون صحافی گوری لنکیشکا بے دردانہ قتل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ سب بھارت کو مکمل طور پر’’ ہندوراشٹر ‘‘بنانے کے لئے ہورہا ہے جس میں ملکی اقلیتوں کو اُس پس خوردہ پر گزارہ کرنا ہوگا جو بھارت کا اکثریتی طبقہ شکم سیر ہوکر اپنے دسترخوان پر چھوڑ دے۔
جہاں تک جموں کشمیر کے عوام کا تعلق ہے وہ ۱۹۴۷ء سے مظلوم ومقہور ہونے کے باوجود بھارت کے خیر خواہ ہیں اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ بھارت ان کا مسئلہ پُرامن طریقے پر حل کرے اور جب تک یہ مسئلہ حمتی طور حل نہیں ہوتا کشمیریوں کو عبوری دور میں بشمول تمام ملکی مسلم اقلیت کے سیاسی، آئینی معاشی اور سماجی اعتبار سے جائز اور متوازن حصہ اور وقار دیاجائے۔ یہی ان کا ناقابل معافی قصور ہے ۔ چناںچہ بھارتی وزیر خارجہ محترمہ سشماسوراج نے حال ہی میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران آ ئی ٹی سیکٹر میں اپنے ملک کو سپرپاور ہونے کادعویٰ تو کیا لیکن محترمہ یہ کہنے سے چُوک گئیں کہ ان کی حکومت میں مسلمانوں کو گائے رکھشا کے نام پر مارے جانے کا ریکارڈ بھی بنایا جارہاہے۔ شاید موصوفہ یہ کہنے سے بھی رہ گئیں کہ ہم نے ایسے سنیاسیوں کو بھی اقتدار کی اونچی کرسیاں عطا کرنے کا ریکارڈ بنایا جن کی واحد قابلیت اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ اقلیتی عوام کو خوف زدہ کرنے کا زعفرانی ہنر جانتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ہند وپاک قیادتوں نے جس نوعیت کی چوٹیں ایک دوسرے پر کیں ،اس سے یہی لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کشمیر کے باعث دوریاں اور کشیدگیاں کافی بڑھ گئی ہیں ۔ غرض آج بھی مسئلہ کشمیر کے حتمی اور جمہوری حل کی بابت مستند فارمولہ جس کا یو این چارٹر ’’حق خودارادیت ‘‘ کے عنوان سے ضامن ہے، من وعن اپنی شکل میں موجود ہے ۔اس فارمولہ سے کشمیری عوام کی غالب اکثریت دستبردار ہونے کو تیار نہیں لیکن بھارت کو یہ تسلیم شدہ فارمولہ منظور نہیں لیکن پھر بھی وہ سلامتی کونسل کی مستقل رُکنیت کا خواہش مند ہے۔ جموں کشمیر کی سیاسی صورت حال کے حوالے سے جس ’’نارملسی‘‘ کی تکرار بھارتی حکمران کر تے جارہے ہیں، وہ بندوق کی نوک پر مسلط شدہ خاموشی ہے جو آج کل خواتین کی چوٹیاں کاٹ کر مزید تند وتلخ بنائی جارہی ہے ۔کاش! ہمارے کرم فرما سیاسی کوتاہ اندیشی ، ووٹ بنک سیاست ، ظلم و جبر، ضد اور ہٹ دھرمی ترک کرکے کشمیر حل کے لئے کوئی ایسی مذکراتی پہل کر تے جس کے بطن سے وشال دیش کی گنگا جمنی تہذیب ، آئین اور جمہوریت کے گل وگلزار جابجا پھوٹ آتے ، برصغیر ہند وپاک بھائی چارے، امن اور تعمیر وترقی کی دوڑ میں بندھ جاتا اور عالمی دہشت گرد غنڈوں کو انڈو پاک کے مابین رقابت اور رسہ کشی کاناجائز فائدہ اٹھاکر یہاں اپنی ریشہ دوانیوں ، مکاریوں اور مطلبی یارانوں کا گورکھ دھندا بند کر نے کے سوا کچھ اور نہ سوجھتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہے اتنی ہمت اور سیاسی بصیرت آر پار کی قیادت میں ؟