آمد بہار کے ساتھ ہی وادیٔ کشمیر میں شادیوں کا سیزن شروع ہوتا ہے ۔ اسی مناسبت سے حکومت نے گزشتہ سال یکم اپریل سے گیسٹ کنٹرول کا حکم نامہ جاری کیا ہے ۔ یہ ایک اچھا اقدام اور فلاحی کام تھا مگر اس حکومتی فرمان پر کتنا عمل درآمد ہوا، اس پر قلم نہ اٹھانا ہی بہتر ہے ۔ فی الاصل ماضی کی طرح گیسٹ کنٹرول کا سرکاری آرڈر بھی حکم ِنواب تادر نواب ثابت ہوا۔ ہمارے یہاں شادی بیاہ کے مواقع پر اکثر وبیشتر اسراف وتبذیر اور نمود ونمائش کا ایک میلہ سالگتا ہے جس میں فضولیات اور حماقتوں کی حد یں پارکی جا تی ہیں ۔ جہیزی لین دین، رسوماتِ قبیحہ، بے ہنگم وازہ وان، آتش بازی ، چراغاںاور ہمچو قسم کی فضول خر چیاں اورحرافات اس جنجال کے اہم اجزاء ہیں ۔ یہ ایک بدیہی حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں شادی بیاہ گھر پھونک تماشے کا دوسرانام ہے ۔ اس سلسلے میں وعظ وتبلیغ اور اصلاحی تحریکیںکم وبیش غیر موثر ثابت ہو تی رہی ہیں ۔ بلاشبہ وازہ وان ہماری روایات کا جزولا ینفک ہے مگر اس کی آڑ میں اشیائے خوردونوش کو بلاوجہ ضائع کر نے کا جو گناہ اجتماعی طور ہم سے سرزد ہو تا ہے، وہ ناقابل معافی ہے ۔ ظلم بالائے ظلم یہ کہ شادی بیاہ سے منسلک رسوماتِ بد کا پیٹ ہر گزرتے دن کے ساتھ پھولتا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ کہ جن گھرانوں میں اتنی سکت نہیں ہو تی کہ ان فضولیات وخرافات کا بار اٹھا سکیں ،ان کے یہاں لڑکے اور لڑکیاں شادی کی عمریں ڈھل جا نے کے باوجود رشتۂ نکاح میں بندھ جانے سے رہ جا تے ہیں ۔ اس صورت حال کے سماجی اور اخلاقی مضمرات کا تذکرہ کر نے سے قلم بھی قاصر ہے۔ چونکہ ہمارے یہا ں نو دولتیو ں کے ایک مخصو ص طبقے میں پیسہ کی ریل پیل ہے ،اس وجہ سے بھی شادی بیاہ کے نام پر ایسی ایسی بدعتوں کا نازیبا کلچر در آیاہے جس سے حیات ِاجتما عی کو مختلف مو ذی بیماریاں لگ رہی ہیں۔ ان بیماریو ںکے زیر اثر شادی بیاہ جیسے مقدس رشتے کی اصل شکل ناقابل یقین حد تک بگڑ کر رہ گئی ہے ۔ مذہبی معنیٰ میںشادی کا مطلب دو اجنبی انسانو ں کولافانی پیار محبت والے رشتے میں با ہم دگر پیو ست کرنااور انہیں ازدواجی زندگی کی گاڑی میںبٹھا کر شاہراہِ حیات کی منزل کی طرف گا مزن کر نا ہے تاکہ انسانی تمدن اور تواتر نسل کی منزل پائی جا سکے۔ ظاہر ہے اس عظیم رشتے کی اُٹھا ن نیک نیتی، خلوص اور باہمی عزت واکرام کے اینٹ گارے پر اٹھنی چاہیے کیونکہ اسی کے طفیل دو غیر محرم ایک دوسرے کے واسطے شریکِ حیا ت بن کر زندگی جینے کا حوصلہ پاتے ہیں ۔ با لفا ظ دیگر شادی کے جو ڑ میں میاں بیوی کے لئے مذ ہبی ، روحا نی ، معاشرتی، نفسیا تی اور خا نگی زندگی کی ایک کثیرا لجہت دنیا بسی ہے۔ بدقسمتی سے ہما ر ے یہا ں شادی کے ان اعلیٰ وارفع مقا صدکو ثانوی اہمیت بھی نہیں دی جا رہی جب کہ بے ہودہ رسو مات اور ضرر رساں روا جات کو اولیت مل رہی ہے ۔ سماجی بگاڑ اس قدر آ چکا ہے گو یا شادی کی تقریب اب صرف ہمسا یوں اور دوست احبا ب رشتہ داروں میں اپنی ناک اونچی رکھنے کا نام رہاہے ۔ اسے اجتما عی جبر کا شاخسانہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر دیکھا دیکھی میں لوگ کچھ بھی کر نے کو اپنا ناقابل التواء فرض سمجھتے ہیں۔ حد یہ کہ اگر کو ئی ذی فہم اور باشعور انسان مختلف اسباب کے تحت اس اجتما عی جبرو جنو ن کا حصہ بننے کو ٹھیک نہ بھی سمجھتا ہو لیکن عام تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ایسے لو گو ں کو بھی دیر سویر سماجی دباؤکے سامنے سپر ڈالنے ہی پڑتے ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ شادی غمی کے باب میں مروج رسوماتِ قبیحہ کی نامعقولیت اور بہ حیثیت مجمو عی ان سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے نکتے پر فرداً فرداًہم میں کو ئی ا ختلا ف ِ رائے نہیںپا یا جا تا مگر پھر بھی اجتماعی سطح پر ان کی پیروی سے تقریباً ہر کوئی اپنا دامن بچا نے سے گریزاں رہتا ہے ۔ بہر صورت آج تک ہمارے یہاں شادی بیا ہ کو نا جا ئز رسوما ت کی زنجیروں سے آزاد کر نے کے لئے بہت ساری اصلا حی مہمیں چلا ئیں گئیں مگر وہ سب یکے بعد دیگرے نا کا م ہوتی رہیں۔با یں ہمہ اس حوصلہ افزا ء حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ گھٹا ٹو پ اندھیرے میں بھی بعض روشن ضمیرلوگ اپنے ذاتی انشیٹیو پر سادہ شادیوں کا متا ثر کن اہتمام کر نے میں کامیاب نظر آرہے ہیں ۔ اس سلسلے میں کچھ اداروں کی اصلاحی کا وشیں بھی واقعی قابل تعریف قرار پاتیںاگر یہ خلوص نیت سے مالامال ہوتیں۔ اس کے برعکس برسوں سے اب یہ مسلسل سادہ شادیوں کی علمبرداری کی آڑ میں اخبارات میں ا پنی خود ستائی او ر تشہیر کے اتنے گن گان کرواتے ہیں کہ ان کی اصلاحی مہم ایک ریاکارانہ عمل دکھا ئی دیتی ہے۔ بایں ہمہ کہیں کہیں اصلاح پسند اور دیندارلوگ ذاتی طور سادہ شادیوں کی حامی بھر کرسماج کے لئے ایک صحت مند نقش ِ راہ کی نشاندہی کر نے میں پیچھے نہیں ۔ ان لوگوں کے یہاں شادی کی تقاریب میں سنجیدگی اور مذہبی وقار جھلکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان تقاریب میں لذت ِ کام و دہن کے بہانے فضو ل خرچی ، اصراف و تبذیر سے پر ہیز، گو شت پولٹری سمیت اشیا ئے خو ردو نوش کے ہو ش رُبا استعمال سے کنارہ کشی،وقت کے بلا وجہ اور بے دریغ زیاں سے دامن بچانا، دکھا وے کی مہمان نوازی اور اختلاط مردوزن سے اجتناب شا دی جیسی چیزوںکا ادنیٰ سا شائبہ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ بلا شبہ ایسی سعید رو حیں لائق صد مرحبا ہیں ۔ اس میں دو را ئے نہیں کہ عمو ماً کشمیری سو سا ئٹی میں شادی بیاہ کی تقریب کے دوران ضیافت کے نام پر بے شمار پکوانوںکا اہتمام کرنا،شادی کا جشن مناتے وقت مفت کی بجلی سے چراغا ں کرنا ، رات کو مائک لگاکرناچ نغمے کے شورو غو غاسے عوام الناس کی نیند یں حرام کرنا، آتش بازی میں بے حساب مال وزر اُڑاناجیسی بے ہودہ حر کات سے ان غریب نوجوا نو ں اور مہندی کو ترس رہیں دوشیزاؤں کا گو یا مذاق اُڑایا جا رہا ہے جن کے یہاںاتنی مالی خوشحالی نہیں ہوتی کہ ان رسومات وفضولیات کااہتمام کرکے اپنے ہاتھ پیلے کراسکیں ۔ا ن ساری بدبختانہ کارستانیوں کے منفی نتائج کو مد نظر رکھتے ہو ئے مذہبی سکالروں اور سماجی اصلا ح کاروں پر بگڑے سماج کی نشتر زنی کرکے اس ناسور کاقلع قمع کر نے کی ذمہ داریاں سنجیدگی سے نبھا نے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کسی غریب نوجوان کا نکاح ناممکن العمل ہو نہ کسی لاچاردوشیزہ کی عمر فضولیات اوربدعات و رسومات کا پیٹ بھرنے کے طویل انتظار میں اُس کے ہاتھ پیلے ہونے کا خواب دھرے کا دھرا رہے ۔ نیزہمارے یہاں ناگفتہ بہ حالات جس طرح تواتر کے ساتھ طول پکڑ تے جارہے ہیں، ان کا ادنیٰ تقاضا ہی نہیں بلکہ اقتصادی کمزوریوں کے پس منظر میں شادی بیاہ اور منگنیاں سادگی سے کرنا وقت کی پکار بھی ہے اور مظلومین اور متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی ۔