شادی میں تاخیر برائیوں کی جڑ

نکاح انسان کی فطری و طبعی ضرورت کی تکمیل ہے۔ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی سنت اور افزائش نسل کا حلال و پاکیزہ ذریعہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہر مرد و عورت کے دل میں دوسرے جنس کی طرف رغبت و میلان کو پیدا کیا ہے اور یہ ایک فطری امر ہے۔ اس طبعی و فطری ضرورت کی تکمیل کے لئے نکاح کو مقرر کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طورپر نکاح فرمایا اور اپنے فرامین کے ذریعہ بھی اس کی ترغیب دی۔ ارشاد فرمایا: ’’نکاح میری سنت ہے اور جو میری سنت سے منہ موڑے وہ مجھ سے نہیں‘‘۔ (حدیث)
دین اسلام ہمیشہ سے اعتدال اور منصفانہ زندگی گزارنے کا طریقہ رہا ہے جہاں پر دنیا کے باقی مذاہب اسلام کے اس پہلو کو بہت زیادہ مانتے ہیں۔اسلام میں مرد و عورت کا اختلاف منع فرمایا گیا ہے کیونکہ اس سے شیطان کامیاب ہو جاتا ہے اور وہی ان دونوں کا آزاد رہنا بھی ناگوار ہے جس طریقے سے دنیا کے مذاہب عورت کو ایک کالا دھبہ سمجھتے ہیں اور وسوسوں سے بھرا ہوا کھلونا سمجھتے ہیں وہی اسلام عورت کو اعلیٰ مقام فراہم کرتا ہے۔ اس کے تعلیمات میں پاکیزگی، طہارت اور عفت و حیا کو اہمیت حاصل ہیں، وہیں بشری تقاضوں کی تکمیل، نفس و روح کی تسکین اور مقصد حیات کی تعمیل و تنفیذ بھی ہے، لہذا نکاح سے متعلق اسلام میں واضح اور تفصیلی احکامات موجود ہیں۔ اس کے شرائط مقرر ہیں، حدود و قیود متعین ہیں، اصول و ضوابط کے مرتب ہیں، تاکہ پاکیزگی کے ساتھ نفس و روح کو تسکین ہو۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے تمہارے نفسوں سے جوڑے پیدا کئے، تاکہ تمھیں راحت و سکون میسر ہو‘‘۔ (سورۃ الروم)
اسلام نکاح کو اس لیے اعلی مقام دیتا ہے کیونکہ اس خاندان پروان چڑھتے ہیں اس سے خاندان وجود میں آجاتا ہے خالی نفس کی تسکین نہیں بلکہ اس سے دوسرے خاندان اور معاشرہ تیار ہو جاتا ہے۔اس سے معاشرے میں زنا کے کام رک جاتے ہیں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ نکاح کے ذریعے تم اپنی اولاد کو طلب کرو اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تم میں نکاح کرنے پر قادر ہو اس سے شادی کر لینی چاہیے گی۔
لیکن معاشرہ بدل گیا اس معاشرے کی سوچ و فکر بدل گئی جس معاشرے میں اخلاق کو ترجیح دینی تھی وہ اب دنیا کی باقی اشیاء کو ترجیح دی رہی ہے ایک انسان جہاں ایک لڑکی کا کردار دیکھ کر اور اس کی اسلامی اور عملی صلاحیت دیکھ کر شادی کرنا چاہیے تھا وہاں پر ایک انسان اور ہمارا معاشرہ باقی چیزوں کی طلب میں لگا ہوا ہے۔یہ بدعات ہمارے گھر سے شروع ہوجاتی اور ہمارا معاشرہ اس کے لیے بڑا ذمہ دار ہے کہ ہم ایک لڑکی کا حسن و جمال گھر کی آمدنی دیکھتے ہیں نہ کہ باقی صلاحیت۔جہاں پر سماج نے جہیز کو فروغ دیا وہی غریب گھرانوں کی لڑکیاں مہندی کے ہاتھ سجاہے گھروں میں گھٹ گھٹ کر مر رہی ہے۔نوکری اب شادی کرنی کیلیے ایک بڑا حصہ ہے اور اس کی وجہ سے بھی شادی میں تاخیر ہو جاتی ہے اور سماج بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہیاور وہی نوجوان میں زنا کا رواج عام ہو جاتا ہے اور اس آ۔افسوس جس دین نے ہمیں عزت دینا سکھایا وہی آج ہم اپنے اعمال سے لوگوں کی عزت نیلام کرتے ہیں۔
ہم سب کو چاہیے کہ ہم آگے آئے اور ان ساری چیزوں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کریں۔جب تک ان ساری چیزوں کو خود اپنے گھر سے شروع نہیں کریں گے تب تک سماج میں بے حیائی اور بے راہ روی کے اعمال اور زنا کے کاموں کو فروغ دیا جائے گا اور خدانخواستہ ہمارے گھر بھی وہ آفت آ کر گر پڑے۔اس طرح ہم سب کو چاہیے آئے کہ شادی اور نکاح کو آسان بنائے تاکہ غریب گھر کی بیٹیاں بھی اپنے مہندی کے ہاتھ سجائے ہوئے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو اور سماج میں زنا کے کاموں کو روک دیا جائے گا اور بے حیائی اور برے کاموں کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا۔
(مضمون نگارطالب علم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہیں)
�������