ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے معاملات میں بے جا رسومات،دکھاوے اور فضولیات کا جو طرزِ عمل رائج ہوچکا ہے،وہ معاشرےکی تباہی کا سبب بن ہی رہا ہے۔ زیادہ ترلوگ فضولیات اور بدعات کے اپنے غلط طرزِ عمل کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیںبلکہ اس معاملے میں ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی ہر وہ کوشش کی جاتی ہے،جس سے اِس مقدس رشتے کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔بلا شبہ شادی، قانون فطرت، تسکین نفس کا حلال طریقہ ، افزائش نسل کا ذریعہ ، انسانی معاشرہ کی بنیاداور پیار ومحبت کی عمدہ مثال ہے۔ خود کے پاؤں پر کھڑے ہونے، ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے اور نیا گھر آباد کرنے اور خاندان بڑھانے کی علامت کے ساتھ ساتھ ایک نئی زندگی کی شروعات ہے، اس لئے شادی بیاہ کے موقعہ پر دُلہا دُلہن ، ماں باپ، بھائی بہن، عزیز واقارب دوست و احباب کا خوش و خرم ہونا فطری بات ہے۔ شادی بیاہ کے موقعہ پر فرط مسرت کا اظہار کرنا انسانی طبیعت میں داخل ہے۔ نکاح کے اعلان اور دعوت ولیمہ کا اہتمام کرنا ازروئے شرع مسنون قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے کی خوشی میں شریک ہونا، دعاء خیر کرنا، مبارکبادی کے تبادلے کی ترغیب دی گئی ہے، تاہم انسانی فطرت میں غلو و زیادتی ، حدود کو تجاوز کرنا سرکشی و عناد ہے۔اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں دین اسلام جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا اور تا قیام قیامت ساری انسانیت کی رشد و ہدایت کے لئے نبی آخر الزماںؐ کو مبعوث فرمایا۔ آپؐ نے انسانیت کو سیدھی راہ بتائی، اچھائی اور برائی کی تمیز کرائی، عدل و اعتدال، میانہ روی کا سبق پڑھایا، نہ بخالت کو پسند کیا اور نہ فضول خرچی کو روا رکھا۔ دین اور دنیا کے ہر معاملہ میں اقتضاء فطرت کو محوظ رکھا اور درمیانہ روش کی تعلیم دی۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہےکہ میانہ روی اختیار کرنے سےہی منزل مقصود مل جاتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دین اسلام کی بنیاد اعتدال اور میانہ روی پر ہے، پس شیطان دین میں غلو یا کو تا ہی دو طریقوں سے داخل ہوتا ہےاورافراط و تفریط اور غلو و کوتاہی دونوںدوزخ کی آگ کے راستے ہیں۔ لہٰذا شریعت اسلامی میں نہ غلو و مبالغہ کی اجازت ہے اور نہ ہی تنقیص و کوتاہی کی۔ بطور خاص شریعت مطہرہ میںاسراف اور فضول خرچی کی سخت وعیدیں آئی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ تم رشتہ دار، غریب اور مسافر کا حق ادا کرو اور ذرا بھی اسراف مت کرو، بلاشبہ اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ شادی بیاہ کے موقعہ پر شرعی حدود میں اظہار خوشی کی اجازت ہےتا ہم اظہار خوشی میں اسراف و فضول خرچی کرنا زیب وزینت پر ہزاروں لاکھوں روپے ضائع کرنا، بڑے بڑے شادی خانے لیکر سینکڑوں افراد کو دعوت دینا اور متنوع و ہمہ اقسام کے کھانے بنانا اور اس پر فخر و مباہات کرنا، اس کو اپنی حیثیت اور وقار کا مسئلہ بنانا لڑکی والوں کو زیر ِبار کرنا، دوسروں کی شادی بیاہ سے تقابل کرنا، بے جا رسوم و رواج پر اوقات کو ضائع کرنا، شادی بیاہ کے موقعہ پر گانا بجانا، پیشہ ورخواتین کے ذریعہ رقص و سرور کی محفلیں سجانا، عورتوں مردوں کا باہم ملنا، نو جوان لڑکے لڑکیوں کا مذاق و دل لگی کرنا، آتش بازی اور پٹاخوں میں پیسوں کو برباد کرنا، غیر ضروری لائٹنگ کرانا، خوشنمائی اور دکھاوے کے لئے مہنگے سے مہنگے اسٹیج بنانا، جھوٹی شان میں قرض کے بوجھ کواٹھانا، قرض حسنہ نہ ملے تو سود پر قرض کو لینا۔ دودن کی خوشی کیلئے سالہا سال قرض کی ادائیگی میں پریشان ہونا اور دوسروں کو پریشان کرنا۔ کیا یہ سب ایک مسلمان کو زیب دیتا ہے؟ کیا یہ امور ایک نئی زندگی کے شروعات میں خیر و برکت کا باعث بن سکتی ہیں؟ دلہا، دلہن اور ان کے ماںباپ، بھائی بہن سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا یہ اعمال اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں؟ کیا ایسی خوشی کے ذریعہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں گے؟ ہم میں اور غیر قوم میں فرق یہی ہے کہ دوسری قو میں اپنی خوشی کے لئے دنیا کی تمام حدود کو پھلانگ دیتی ہیں لیکن بحیثیت مسلمان ہم ہر معاملے میں اللہ اور اس کے رسول ؐکی رضا اور تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔