اصطلاح معنی میں سیرت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے حالات جیسے ولادت سے لے کر وفات تک کل زندگی کے تمام احوال واقوال و اطوار سیرت رسول کہلاتے ہیں عام طور پر جب کسی معروف ہستی کی Biography مرتب کی جاتی ہے تو سیرت کے بجائے سوانح عمری کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصطلاح مسلمانوں کے ہاں صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح کے لیے خاص کیا گیا ہے اللہ تعالی نے انسانيت کو ایسا ہادی و معلم عنایت فرمایا جو پوری انسانیت کے لئے اور ہر زمان و مکان کے لئے دوئمی و ابدی اسوہ ہے ۔
لفظِ سیرت معروف معنوں میں آپ صل اللہ علیہ و سلم کی 23 سالہ زندگی کا پریکٹیکل نمونہ ہیں، سیرت عملی مقصود کی حیثیت سے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ کا ہم پہلو ہے، ہمیں بحیثیت مسلمان اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو گہرائی کے ساتھ پڑھنے اس سے نصیحت لینے اور اپنی زندگی کو بھی اسی انداز میں متصف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ،اسی میں ہماری لیے دونوں جہاں کی کامیابی ہے۔ واقعاتی اور معلوماتی سیرت کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات و شمائل کا تذکرہ بھی کیا جائے تاکہ قاری کے دل میں محبت کے جذبات کے ساتھ سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے کا شوق پیدا ہو ،اور جن سے ان کے اندر حضور کی تعلیمات اپنا نے کی عملی ترغیب پیدا ہو جائے ۔عام قاری جب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ یہ ماضی کے واقعات ہیں جو ایک تاریخی ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہيں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سیرت کے مؤلفین سیرت نگاری کی اصل مغز کو اُجاگر کریں ،ساتھ ہی خطبا حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ جب سیرت کے موضوع پر گفتگو کریں تو سیرت کو عوام کے سامنے اس حیثیت سے پیش کریں کہ وہ تاریخ اپنی صحیح جگہ پر عوام کو اُسوہ حسنہ کے معلومات عامہ معلوم ہوں، عام طور پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ انسان کی کم فہمی کی وجہ سے اس درجہ پر نہيں پہنچتی کہ اس سے نصیحت اخذ کی جا سکیں، اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ عام قاری کو پرانی معیار کی سیرت نگاری وقت کی تئیں دشوار طلب معلوم ہوتی ہے۔ برصغیر ہند و پاک کی اردو سیرت نگاری کو ہی لیجئے۔ پچاس ساٹھ سال پہلے کی سیرتی کتابیں پڑھنی اتنی دشوار طلب ہے کہ پڑھنے پر معلوم ہوتا ہے کیا واقعی یہ اُسی اردو دنیا کے لوگ تھے یا کسی اور دورکے۔ کسی بھی دینی سبجکٹ کے ماہرین کو چاہیے کہ وہ قارئين کا خاص خیال رکھیں۔ انسان کے پڑھنے کا معیار Standard دو طرح کے ہوتےہیں، ایک وہ جو ادبی دنیا کے لوگ ہوتے ہیں جنہيں ادیب کہا جاتا ہے ۔ جو اپنی اپنی قومی زبانوں کی خاطر داشت کے لئے زبانوں کو دوام حیات کی طرف لے جاتے ہیں ۔ دوسرا اسلوب وہ ہے ،جسے دعوتی اسلوب کہا جاتا ہے۔ دعوتی اسلوب میں داعی کا اصل ہدف مدعو کی جانب ہوتا ہے نہ کہ ادب شناسی پر ۔ دعوتی اسلوب کا تحریری معیار عصر حاضر نے سلیس کردیا ہے۔ اتنا سلیس کہ اس کی نقطہ انتہا کی اگر بات کی جائے تو اس کام میں مولانا وحید الدین خان صاحب مرحوم پیش پیش تھے۔ مولانا مرحوم نے دعوتی اسلوب کو انتہائی آسان لفظوں میں پیش کیا کہ ان کے اس اسلوب کو سنٹفک اسلوب مانا جاتا ہے ۔ اس اسلوب کے بنا پر کئی لوگوں نے کہا تھا کہ مولانا نے ادب کا جنازہ نکال دیا لیکن وہ لوگ نہيں سمجھ پائے کہ یہ ایک ادبی اسلوب نہيں ہے بلکہ یہ ایک دعوتی اسلوب ہے یا دعوتی اسلوب کے حوالہ سے مولانا مودودی صاحب مرحوم ہی کو لیجئے کہ جماعت اسلامی کی تحریک کہاں سے کہاں پہنچی۔ عالمی شہرت دلانے میں ان کی سلیس و خوش اسلوبی کا بڑا رول ہے ۔بہر کیف دور جدید نے علم کے ہر شعبے کو سلیس اور آسان مہیا کیا۔اب وہ دور ختم ہوچکا ہے کہ صنّاعی طرز فکر کے تحت علمی شعبدے بازی یا پینترے بازی کی جائے اور فنِ تحریر کا لوہا منوایا جائے تاکہ پڑھنے کے بعد قاری علمی داد دے سکھیں۔
ہزاروں سال سے ہمارے علماء و مشائخ خطیب و مقرر سیرت النبی صل اللہ علیہ و سلم کی کتابت و خطابت انجام دے رہے ہیں۔ سفرِ سیرت پر رواں دواں علماء کرام ہمیں معلوماتی سیرت فراہم تو کررہے ہیں جو قابل احترام اور قابلِ ستائش ہیں،مگر معلوماتی سیرت میں جس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے، وہ سیرت کے وہ پہلو ہیں جسے ہم اصلاحی یا اخلاقی سیرت کے نام سے یاد کرسکتے ہیں۔کسی سیرتی واقعہ کو اس طرح سے بیان کیا جائے کہ وہ معلومات کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہنوں کو متحرک اور ہمارے دلوں کو چیر کر اس کے اندر سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو نچوڑے۔راقم الحروف یہ محسوس کرتا ہے کہ سیرتِ رسول صل اللہ علیہ و سلم سے فخری کلمات کے نتیجے نکالنے کے بجائے اصلاحی نتیجے اخذکیے جائیں،یہی سیرت معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ مومنانہ بصیرت کی طرف توجہ دلائےگی اور اُسی سے ہماری بھی ایک صالح سیرت تعمیر ہوگی جو آخرت کی ضرورت و مطلوب ہیں ۔
اصل اس وقت اُن سیرتی کتابوں کو پڑھنے کی ضرورت ہیں جو بنا قاموس کی پڑھی جاسکتی ہو، جو پڑھنے والے پر اس طرح سے اثر انداز ہو گویا اُسی کے لیے لکھی گئی ہو، اس کے پڑھنے سے عقل متحرک اور دل مطمئن ،زبانیں تر اور آنکھیں شاداب ،نہ کہ اس کے پڑھنے سے عقل عاجز و حیران، دل غمگین ،زبانیں بند اور آنکھوں میں دُھندلا پن ۔ الحمداللہ آج ہمارے پاس علماء کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو مختلف فنون کے تحت ہمیں سلیس مواد فراہم کرسکتےہیں اور کرتے بھی ہیں۔
( طالب علم،رابطہ9906736886)