سیرتِ صحابیات ؓ

روایات   میں آیا ہے کہ عرب کی سب سے امیر اور باوقار خاتون آرام فرما ہوتی ہیں ، خواب میں ایک روح پرور نظارہ دیکھتی ہیں کہ آسمان سے آفتاب ان کے گھر کے آنگن میں اُتر آیا ہے، اس کے نور سے گھر روشن ہے روشنی اور نور اتنا زیادہ ہو تا ہے کہ مکہ مکرمہ کا کوئی گھر ایسا نہیں ہوتا جو اس نور کی روشنی سے روشن نہ ہوا ہو ۔ اس خوبصورت خواب سے جب وہ بیدار ہوتی ہیں تو خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو تی ہیں کہ بہت اچھا اور عجیب و غریب خواب ہے ۔انہوں نے اپنے طور پر اِس خواب کی تعبیر نکالنے کی بہت کوشش کی مگر وہ کوئی بھی نتیجہ نہ نکال سکیں، پھر انہیں اپنے چچا زاد بھائی نو فل بن ورقہ کا خیال آیا جو اس دور کا مشہور مسیحی عالم تھا ۔ اپنے خواب کی تعبیر کے سلسلے میں آپ اپنے اِس چچا زاد عالم فاضل شخص کے پاس گئیں اور اپنا خواب سنایا ۔ ورقہ بن نوفل نے توجہ سے خواب سنا تو اس کا چہرہ خوشی سے روشن ہو گیا ۔ وہ بولا یہ بہت ہی مبارک خواب ہے اور کہا تم نبی آخر الزماںؐسے شادی کرو گی۔ معزز خاتون کو با لکل یقین نہ آیا کہ کیا آخری نبیؐ مجھے اپنی زوجیت میں لے لیں گے ؟ان کا ظہور کب ہوگا؟ ورقہ بولا آسمانی کتب کے مطابق آخری نبیؐ کے ظہور کا زمانہ یہی ہے۔ خواب کی تعبیر سن کر آپؓ کے اندر خوشی و انبساط کی لہریں اٹھ رہی تھیں کیو نکہ وہ اتنی بڑی سعادت کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھیں ۔ کائنات کی اِس عظیم ترین خاتون کا نام خدیجہ ؓ بنت خو یلد تھا جو سر زمین عرب کی اَرب پتی خاتون تھیں ۔ آپؓ حسین و جمیل عالی نسب اور سر زمین عرب کی بہت بڑی رئیسہ تھیں، قریش کے اکابرین و اشراف آپ کو کئی بارنکاح کی درخواست کر چکے تھے لیکن آپ ہر بار انکار کر دیتیں ۔ آپ کی ولادت پندرہ سال قبل عام الفیل قبیلہ بنو اسد میں ہوئی جو قریش کی ایک نہایت معزز شاخ تھی، ان کے والد خویلدبن اسد عرب کے امیر ترین انسانوں میں سے ایک تھے۔ انہی دنوں جنگ حرب الفجار شروع ہوئی، اس جنگ میں حضرت خدیجہؓ کے والد شریک ہوئے اور داعی ٔاجل کو لبیک کر کے جہاںفانی سے رخصت ہو گئے ۔ خاندانی پیشہ تجارت تھا، باپ کے مرنے کے بعد سیدہ خدیجہ ؓنے کاروبار میں دلچسپی لینا شروع کر دی ۔ ان دنوں محمد بن عبداللہ ﷺ کے پاکیزہ اخلاق کی گواہی مکہ کی ہر گلی و کو چہ دے رہا تھا۔ آپ ﷺ کو امین وصادق کے لقب سے پکارا جا تا۔ حضرت خدیجہؓ کی عقیدت نواز نگاہیں بھی کسی ایسے ہی اعلی فرد مقدس کی جستجومیں تھیں ۔ بصد ادب سامان تجارت ملک شام لے جانے کے لیے درخواست کی آپ ﷺ کے شفیق وسرپرست چچا ابو طالب کے ذریعے معاملہ طے پا گیا ۔ حضرت خدیجہؓ کا غلام میسرہ تجارتی سفر پرساتھ بھیجا ۔ اس تجارت سے پہلے کی نسبت دو گنا منافع ہوا ۔ واپسی پر غلام میسرہ کے کہنے پر نبی کریم ﷺ حضرت خدیجہؓ  کو ملنے گئے تاکہ نفع کے بارے میں بتا سکیں۔ سفر شام اور تجارتی منافع سے متعلق گفتگو میں حضرت خدیجہ آپ ﷺ کی ایمانداری اور اخلاق بر تری کی سرگزشت سے بہت متاثر ہو ئیں اور طے شدہ منافع سے دو گنا منافع آپ ﷺ کو پیش کیا۔ میسرہ نے یہ بھی بولا کہ میں نے شام کے سفر میں بہت کچھ دیکھا اور سنا جب بھی ہمارا قافلہ چلتا اور دھوپ تیز ہوتی تو دو فرشتے آپ ﷺ پر سایہ کر دیتے ۔ میسرہ نے دوران سفر بہت سارے روح پرور واقعات کا ذکر بھی کیا تو حضرت خدیجہ کو اپنا وہ خواب یا د آگیا اور سوچنے لگیں کیا محمد بن عبداللہ ﷺ نبی آخر الزمان ہیں۔ پھر حضرت خدیجہ نے اپنی سہیلی نفیسہ کے ذریعے آپ ﷺ کا شادی کا پیغام بھیجا اور پھر آپ ﷺ کا پیغام نکاح پاکر اکابرین خاندان کی موجودگی میں آپ ﷺ سے نکاح ہو گیا اور اپنا سارا مال نبی کریم ﷺ کے قدموں میں ڈال دیا کہ آپ ﷺ جس طرح چاہیں استعمال فرمائیں ۔ حضرت خدیجہ کے پاس بے شمار باندیا ں اور غلام تھے لیکن آپ ﷺ کی محبت نے یہ گوارا نہ کیا کہ کوئی اور آپ ﷺ کی خدمت کرے۔ اس سعادت کو وہ خود سمیٹنا چاہتی تھیں، آپ ﷺ کا سارا کام وہ خود کرتیں، اَمارت کا مزاج دوسروں سے خدمت و ادب کروانا اور دوسروں سے ایثار و قربانی طلب کرنا ہوتا ہے لیکن جب کسی سے دلی محبت ہو جائے تو معاملہ الٹ ہو جاتا ہے ۔
 زندگی کے شب وروز گزرہے تھے کہ شہنشاہِ دو عالم ﷺ منصب ِنبوت پر فائز کئے گئے ۔ غارِ حرا میں جبرئیل امین ؑنے آپ کو اس بارے میں پہلی باراللہ کے پیغام سے روشناس کرایا۔ آپؐ نے نزولِ وحی کے بارے میں اپنی محبوب زوجہ کو بتایا تو انہوں نے کہا بے شک آپ ﷺ سچ کہتے ہیں اور جب اعلانِ نبوت فرمایا تو آپ فورا ًایمان لے آئیں ۔ اعلان نبوت کے بعد کفار مکہ نبی کریم ﷺ کی جان کے دشمن بن گئے تو آپؓ اپنے محبوب خاوند کے بارے میں بہت فکر مند رہتی تھیں۔ اگر آپ ﷺ کو گھر آنے میں دیر ہوجاتی تو طرح طرح کے فکر مندیاں دل و جان کو گھیر لیتے ۔ آپؓ اپنے محبوب خاوند کی تلاش میں ایک رات نکل پڑئیں تو راستے میں ایک شخص ملا ، اس سے حضوراکر م ﷺ کے بارے میں پوچھا اور آپ ڈر بھی گئیں کہ کہیں کوئی بد خواہ نہ ہو جو آپ ﷺ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہو ۔ اس بات کا ذکر نبی کریم ﷺ سے کیا تو پیارے آقا ﷺ نے فرمایا جبرئیل ؑتھے اور مجھ سے کہہ گئے میں تم کو سلام پہنچا دوں اور جنت میں ایسا گھر ملنے کی بشارت سنا دو جو موتیوں سے بنا ہو گا ۔ اُم المومنین سیدہ حضرت خدیجہ ؓ  فطری طور پر شرافت پاکیزگی اور طہارت کا مجسمہ تھیں ۔ نبی کریم ﷺ کی قربت نے ان کی سیرت و محاسن کو چار چاند لگا دئے ۔ انہوں نے اپنی ذات کو رحمت ِ مجسم ﷺ کی ذات میں فنا کر دیا تھا ۔ ساقی کوثر ﷺ سے شادی کے وقت حضرت خدیجہ ؓ کی عمر چالیس سال تھی لیکن آپؓ کی سیرت خدمت گزاری دل پسند عادات وفا کیش طرزِ عمل حب ِرسول ﷺ سے آپ ﷺ کے دل میں ان کی اُنسیت و محبوبیت پیدا ہو گئی تھی کہ کسی اور خاتون سے شادی کا خیال تک نہیں آیا ،حالانکہ اس معاشرے میں دوسری شادی کر نا عام بات تھی ۔ قریش کے مظالم سے تنگ آکر ابو طالب مجبوراً خاندان بنو ہاشم کے ساتھ شعب ابی طالب میں پناہ گزین ہوئے ۔ یہاں محصوری کے عرصہ میں حضرت خدیجہؓ کی صحت بہت متاثر ہو ئی کیونکہ آپؓ نے ساری عمر آرام و راحت میں کسی ملکہ کی طرح گزاری تھی، یہاں کی مشکلات اور صبر شکن حالات برداشت نہ کر کے شدید بیمار پڑ گئیں ۔پیارے آقا ﷺ نے حالت ِ مرض میں نامساعد حلات کے باوجود دل جوئی میں کو ئی کسر نہ اٹھا رکھی مگر وقت معین آگیا تھا۔ رمضان المبارک دس سال نبوت میں آپ ﷺ کی محبوب زوجہ محترمہ نے اس دنیا سے منہ موڑ لیا اور اپنے رحیم وکریم تاجدار کملی والی سرکا ر ﷺ کے سامنے دم توڑ دیا۔ اس وقت سیدہ خدیجہ کی عمر پینسٹھ سال تھی۔ ربع صدی اپنے محبوب  تاجدار کی رفاقت اور خدمت گزاری میں بسر کی۔ حضور ﷺ نے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا ۔ نبی کریم ﷺ اپنے محبوب زوجہ ٔ کریمہ کو قبر مبارک میں اُتارنے کے لیے خود قبر اُترے اور اپنے ہا تھوں سے اپنی غم گسار اور محبوب بیوی کو سپر د خاک کیا۔ نبی کریم ﷺ کو اپنی محبوب زوجہ سے اس قدر محبت والفت تھی کہ ساری عمر ان کے رشتہ داروں اور ان کی سہلیوں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آتے رہے، چنانچہ جب بھی قربانی کر تے تو سب سے پہلے سیدہ خدیجہ کی سہیلیوں کو گوشت بھجواتے اور بعد میں کسی اور کو دیتے ۔
