سیاسی میدان میں تیکھا پن

دنیا اب ایک گاؤں ہے، اس گاؤں کا ایک حصہ ہندوستان بھی ہے، ظاہر ہے مواصلاتی دور میں گاؤں کا ایک ایک کونہ ایک دوسرے سے متصل ہے، تاریخ میں ایسا کوئی دور نہیں جس میں باہمی تعلقات اس قدر مربوط ہوں کہ سیکنڈوں میں مشرق کی بات مغرب میں اور جنوب کی بات شمال میں پتہ پھیل جاتی ہو، ایسے میں کوئی بھی ایسا کام کرنا کہ جس سے عالمی برادری متاثر ہو اور یہ سمجھنا کہ کوئی نہیں دیکھ رہا ہے یا کسی کو خبر نہیں ہے، نہایت درجہ کی حماقتوں بھرا عمل ہے۔ ایک عام آدمی کی ذاتی زندگی بھی اب محفوظ نہیں ہے، privacy نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اسمارٹ فون اور موبائل نے اسے ننگا کردیا ہے۔ کہیں بھی رہے اور کیسا بھی ساتر لباس پہن لے ،وہ زمانے کے سامنے ہو بہو کھڑا ہے۔ سیٹلائٹ کا دور اور کمیونیکیشن کا عالم ایسا ہے کہ گھر کا اندرونی حصہ جہاں ہم نہیں پہونچ سکتے ہوں، وہاں بھی دنیا کی نظر پہونچ جاتی ہے۔ ایسے میں ہندوستان کا سیاسی میدان میں تیکھاپن اور جانبدارانہ عمل بھلا کیسے چھپ سکتا ہے۔ سی اے اے ایک ایسا قانون ہے جس کے ذریعے مذہبی بنیاد پر عوام کے درمیان تفریق کی جائے گی نہ صرف یہ کہ یہ ہندوستانی قانون کے اعتبار سے غلط ہے بلکہ عالمی انسانی حقوق کی رو سے بھی ناجائز ہے۔
اس کالے قانون کی وجہ سے پورا ہندوستان آگ کے ڈھیر پر بیٹھا ہے، یہاں کی محبت اور امن و آشتی کے نیچے شعلہ پھٹنے ہے، نفرت کا عالم ہے، دنگا وفساد کا خطرہ لگا ہوا ہے۔ دہلی جل کر خاک ہوگئی، وہاں انسانیت نے بلک بلک کر دم توڑ دیا۔ اسی کی نحوست ہے کہ خواتین نے دوپٹے اتارے اور میدان میں احتجاج کرنے لگیں۔ دو مہینے سے زیادہ ہوگئے ہیں، انہوں نے معمول کے مطابق زندگی نہیں گزاری بلکہ کئی نے موت کا گھونٹ بھی پیا ہے۔ سیاست میں ایک بھونچال ہے، انتخابات میں دھاندلی ہے، نوکریاں ختم ہیں، ترقی کی راہ پر ملک پچھڑتا جارہا ہے۔ ایسے میں اس خطرناک قانون کا اثر عالمی برادری پر بھی نظر آنے لگا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ میں سی اے اے کے خلاف چھ نقاط پیش کئے گئے اور ٧٥١ میں سے ٦٢٦/ سانسدوں کی اکثریت نے اسے ایک خطرناک قانون کہہ کر نکار دیا تھا، انہوں نے یہ خطرہ ظاہر کیا تھا کہ اس کے ذریعے تاریخ کی سب سے بڑی تشویش ناک صورت حال پیدا ہوگی۔ جب ایک انسان اپنے ہی ملک میں رہتے ہوئے وہ غیر ملکی قرار پاجائے گا، ایک ایسی کیفیت پیدا ہوگی جس سے پوری انسانیت مچل جائے گی، لوگوں کے درمیان خوف وہراس پیدا ہوجائے گا اور وہ ذہنی امراض کے بھی شکار ہوجائیں گے، ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ روہینگیا جیسی صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
اقوام متحدہ نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا اور اس کے چیف نے بارہا کہا کہ یہ قانون ایک کالا قانون ہے مگر ہندوستان نے ہمیشہ اس سے دامن جھاڑا اور اسے اپنا اندرونی مسئلہ بتا کر سب کچھ چھپا جانے کی کوشش کی تھی لیکن اب خبر یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف ایک اپیل دائر کردی ہے، یعنی وہ خود ایک فریق بن کر اس قانون کو چیلنج کرنا چاہتا ہے۔ ذرا سوچئے! یہ کتنی شرمندگی کی بات ہے کہ عالمی برادری کے متحدہ پلیٹ فارم نے ہمارے میں ہمارے ہی قانون کو چیلینج کردیا ہے۔ کینیڈا نے یہ مشورہ دیا ہے کہ اس کے باشندے ہندوستان سفر نہ کریں، ایران اور ترکی نے بھی سخت الفاظ استعمال کئے ہیں، دہلی مسلم کشی اور پھر ناجائز قوانین لیکر از سر نو غور کرنے کا مشورہ دیا ہے بلکہ ایران نے صاف لفظوں میں مسلم کشی پر حیرت جتائی ہے اور ہندوستان کو دوستی کا واسطہ دے کر گویا آگاہ کیا ہے مگر اب بھی خموشی ہے حالانکہ اس کا خطرہ ملک کے بہت سے ماہرین جتا چکے ہیں، انہوں نے اس قانون کو خلاف انسانی قانون قرار دیا ہے۔
مہاتیر محمد نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر سی اے اے ملیشیا میں لاگر کر دیا جائے تو وہاں پر آباد ہندوستانیوں کا کیا ہوگا؟ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ جسے بھارت اپنا دوست مانتا ہے، اس کے بعض سیاست دان نے بھی اس قانون پر سخت الفاظ استعمال کئے ہیں، عجیب بات ہے کہ جس دنیا میں مسافتیں سکڑ رہی ہوں اور لوگ کسی بھی ملک میں آنے جانے کیلئے آزاد ہوں، ایسے وقت میں ہندوستان یہ کہتا ہے کہ ہم صرف تین ممالک پاکستان، بنگلادیش، افغانستان کی اقلیت کو ہی شہریت دیں گے، یہ بھول رہے ہیں کہ یہ ممالک اب بھارت سے بہتر صورت میں ہیں۔ بنگلادیش کی معیشت اس وقت سب سے زیادہ اچھی ہے، افغانستان کے سامنے دنیا جھکنے کو تیار ہے، وہاں طالبان کی واپسی تقریباً طے ہوچکی ہے، دہشت گردوں کو عوام خود گلے لگانا چاہتے ہیں، پاکستان عمران خان کی قیادت میں ایک نئی کروٹ لے رہا ہے، سب کچھ ہے لیکن نہ جانے بھارت اپنی ہی بنیادوں سے کیوں پچھڑنا چاہتا ہے، اپنی تہذیب کو قوت بناکر دنیا کو امن کا درس دینے والا یہ ملک کہیں کھوتا جارہا ہے، وقت ہے کہ مودی جی فکر کریں ورنہ عالمی برادری میں شرمندگی کے سوا کچھ نصیب نہ ہوگا۔