سرینگر//سیاسی جماعتوںنے بیک زبان گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر اور شیرکشمیرانسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے میڈیکل کالج کے کئی طلاب کی طرف سے مبینہ طور عالمی کرکٹ کپ میںبھارت کے خلاف پاکستان کی جیت کا جشن منانے کی پاداش میں غیرقانونی سرگرمیوں کی روکتھام سے متعلق قانون کا طلاق کرنے کی مذمت کرتے ہوئے ان کے خلاف ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا ہے کہ حکومت ہند تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اپنی شناخت پاکستان کے ساتھ کرانے کی وجوہات معلوم کرانے کی بجائے انتقامی کارروائیاں عمل میں لا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسی کارروائیوں کی عمل آوری سے حکومت اور نوجوانوں کے درمیان دوریاں مزید بڑھ جائیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ کی کشمیری نوجوانوں کے ساتھ ‘من کی بات’ پاکستان کی ہندوستان کے خلاف میچ میں جیت حاصل کرنے پر طلبا پر جشن منانے کے پاداش میں مقدمہ درج کرنے سے شروع ہوئی۔موصوف سابق وزیر اعلیٰ نے ان باتوں کا اظہار منگل کے روز اپنے ایک ٹویٹ میں کیا۔انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہا،’’مرکزی وزیر داخلہ کی کشمیری نوجوانوں کے ساتھ من کی بات پاکستان کے میچ جیتنے پر میڈیکل طلبا کے خلاف جشن منانے کے پاداش میں یو اے پی اے عائد کرنے سے شروع ہوئی۔ یہ معلوم کرنے کی کوششوں کہ نوجوان اپنی شناخت پاکستان کے ساتھ کیوں کر رہے ہیں، کے بجائے حکومت ہند انتقامی کارروائیوں کو عمل میں لا رہی ہے ، ایسے اقدام سے دوریاں مزید بڑھ جائیں گی‘‘۔پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون نے پاکستان کی ورلڈ کپ ٹی ٹونٹی میچ میں بھارت کے خلاف میچ میں جیت پر جشن منانے کے الزام میں میڈیکل طلبا پر مقدمہ درج کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کشمیر میں رہتے تو نظریاتی اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ مل جل کر رہنا ہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان مخالف ہونا یا پاکستان حامی ہونا کوئی نا قابل علاج مرض نہیں ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک قابل علاج مرض ہے لیکن تعزیری اقدام سے یہ مرض مزید بڑھ سکتا ہے ۔موصوف صدر نے ان باتوں کا اظہار منگل کے روز اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں کیا۔سجاد غنی لون نے اس کے رد عمل میں اپنے ٹویٹ میں کہا،’’ہم کشمیر میں رہتے ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ رہنا ہے جو ہمارے ساتھ نظریاتی اختلاف رکھتے ہیں لیکن ہم پر امید ہیں کہ یہ بیانیوں کا کھیل ہے اور اس میں کامیابی ہمارا ہی مقدر بن جائے گی ہم تمام لوگوں کو اپنے نظریے کی اچھائی کی طرف مائل کریں گے ، ہم ہی غالب رہیں گے بشرطیکہ ہمیں ایسا کرنے کی اجازت دی جائے‘‘۔ان کا اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہنا تھا،’’ہم بھارت مخالف ہونے یا پاکستان حامی ہونے کو ایک نا قابل تغیر شرط کے بطور نہیں دیکھتے ہیں۔ یہ ایک قابل علاج مرض ہے ، چلو ہم اس کا علاج کرتے ہیں، ہمیں اس کا علاج کرنے کی اجازت دیں، مجھ پر بھروسہ کریں، تعزیری کارروائیوں سے یہ مرض مزید بڑھ جائے گا‘‘۔سی پی آئی (ایم) کے سیکریٹری غلام نبی ملک نے منگل کو سکمز اورمیڈیکل کالج سری نگر میں ایم بی بی ایس طلبا کے خلاف جاری ٹی 20 ورلڈ کپ میں ہندوستان کے خلاف پاکستان کی جیت کا مبینہ طور پر جشن منانے کے لئے پولیس ایف آئی آر کوبلا جواز اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ اس طرح کے تعزیری اقدامات سے نہ تو کوئی نتیجہ نکلا ہے اور نہ ہی اس بار اس کا کوئی مطلوبہ نتیجہ نکلے گا۔ جیتنا اور ہارنا کسی بھی کھیل کا حصہ ہے اور جمہوریت میں ہر ایک کے پاس اپنی پسندیدہ ٹیم یا کھلاڑی کو خوش کرنے کا انتخاب ہوتا ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں بھارتی شائقین نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی جیت کے بعد کھڑے ہو کر داد دی اور پاکستانی ہجوم کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا ،جو بھارتی ٹیم کے لیے خوش ہو رہے تھے۔ 1999 میں، چنئی کے ہجوم نے فاتح پاکستانی ٹیم کو کھڑے ہو کر داد دی۔ ہجوم نے اس حقیقت کو سراہا کہ اس دن پاکستان دونوں فریقوں سے بہتر تھا۔ پاکستانی ٹیم نے ہجوم کے اشارے کا جواب دیتے ہوئے گرائونڈ کے چاروں طرف فتح کی داد لے لی۔ کوئی بھی ملک دشمن نہیں بنتا اگر وہ کسی ایک ٹیم یا دوسری ٹیم کا ساتھ دیتا ہے۔ میں ایل جی منوج سنہا جی کی زیرقیادت جموں و کشمیر انتظامیہ پر زور دیتا ہوں کہ وہ میڈیکل کالج کے طلبا کے خلاف لگائے گئے الزامات کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے تاکہ وہ اپنی ڈگریاں جاری رکھ سکیں۔جموں کشمیر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے منگل کو لیفٹینٹ گورنر منوج سنہاسے اپیل کی کہ وہ کشمیری طلاب جنہوں نے عالمی کپ میں پاکستان کی بھارت کے خلاف جیت کا جشن منایا،کے خلاف انسانی ہمدردی کی بناپرایف آئی آر واپس لیں۔ایک بیان میں ایسوسی ایشن کے ترجمان ناصرکھویہامی نے کہا کہ غیرقانونی سرگرمیوں کے انسدادکے قانون کااطلاق ایک سخت سزاہے اور اس سے ان طلاب کا مستقبل تباہ ہوگااور اس سے وہ مزید الگ تھلگ ہوں گے۔ایسوسی ایشن نے کہا کہ ہم ان کے کارروائی کوجواز نہیں بخشتے ،لیکن اس سے ان کے مستقبل کا قتل ہوگا۔ ان الزامات سے ان کاتعلیمی اورمستقبل کاکیریئر تباہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے قلیل اور طویل المدتی سنگین نتائج برآمدہوں گے۔حکومت کو ان طلباء کو ایک موقعہ دینا چاہیے تاکہ بھارت کے آئین پر ان کااعتماد بحال ہواور ان کا مستقبل محفوظ رہے۔ کھویہامی نے کہا کہ میڈیکل کے طلاب ہر سماج کابہترسے بہترین حصہ ہوتا ہے ۔ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نظم وضبط سے کام لیںاورحدودنہ پھلانگیں۔انہوں نے مزیدکہا کہ ہمیں امید ہے کہ سماج اور ملک کے مفاد میں کھلے دل کا مظاہرہ کشمیر کے ان میڈیکل طلاب کے تئیں کیا جائے گااوران کے خلاف کوئی کیس نہیں دائر کیاجائے گا۔انہوں نے کہا کہ اس میں شک نہیں ہے کہ انہوں نے غلطی کی ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقعہ دیاجائے گااور ملک کے وسیع مفاد میں ان کا مستقبل تباہ نہیں کیا جائے گا ۔ایسوسی ایشن کے قومی جنرل سیکریٹری یونس رشید نے کہا کہ کمپس کی آوازوں کو اس طرح کے سنگین قوانین سے کچلا نہیں جانا چاہیے۔ان کے کام سے یہاں کے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں لیکن ہمارے نظام میں اتنی وسعت ہونی چاہیے کہ انہیں میز پرلایا جائے اور ان کی رہنمائی کی جائے۔ان پر یو اے پی اے کے اطلاق سے ان کا مستقبل تباہ ہوگا ۔