سیاسی تبدیلی کی آہٹیں

بی جے پی کے اقتدار میںآنے کے بعدپچھلے پانچ برسوں میں ’’ ہندوتوا‘‘ کے نام پر پورے ملک میںجو فرقہ وارانہ زہرگھولاگیا اور دھرم کے نام پر جس اندازسے نفرت کی فصل اُگائی گئی، اسے چٹکی بجاتے ہی ختم کیا جانا آسان نہیں ہے۔سچ یہ بھی ہے کہ معاشرتی لحاظ سے حالات کو بدلنے کیلئے ایک مدت درکار ہے،لیکن یہ بھی حق ہے کہ سچ کی جھوٹ پر ہمیشہ جیت ہوتی رہی ہے اور ایک بار پھرسچائی سربلند ہوگی،جھوٹ منہ کی کھائے گا۔ اس کے ابتدائی آثارابھی سے ظاہر بھی ہونے لگ گئے ہیں۔ موجودہ الیکشن کا’’مہایدھ’‘تبدیلی ٔحالات کو منعکس کررہاہے۔ اس کاواضح اشارہ بی جے پی کی بڑھتی ہوئی گھبراہٹ سے بھی عیاںہے۔
 ’’بانٹوںاور راج کرو‘‘ کی پالیسی سے مقابلہ کیلئے اپوزیشن کی سیاسی قطب بندی اورانتخابی محاذآرائی کو دیکھ کر اب لگنے لگا ہے کہ دھیرے دھیرے حزب مخالف بی جے پی سے سیٹوں کے معاملے میں برابر کی ٹکر دینے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ راہل گاندھی نے جس طرح چوکیدار کو گھیرنا شروع کیا، وہ دیکھنے کے قابل ہے۔انہوں نے بی جے پی کے نعرہ’’میں بھی چوکیدار‘‘ کا جواب ’’میں بھی بے روزگار‘ ‘سے دینے کی کوشش کی ہے جو عوامی سطح پر مرکزِتوجہ بن رہا ہے۔ پرینکا گاندھی کامندروں کادورہ، عوامی ربط میں اضافہ، خاص طور سے اُن کا خواتین سے ملنا اور بی جے پی کی ان تمام ناکامیوں پررائے زنی کرناجوپچھلے 5؍برسوںکااجمالیہ ہیں، عوام کا ذہن اور سوچ بدلنے کا سبب بن رہاہے ۔اس کافطری نتیجہ ہے کہ کانگریس اور اپوزیشن کو فائدہ پہنچے گا۔ آہستہ ہی سہی میڈیا کی زبان بھی بدلنے لگی ہے۔حالانکہ بی جے پی لیڈر اب بھی بڑے چاؤ سے ہندو کارڈ کھیلتے جا رہے ہیں۔ پلوامہ کو پھر سے نہایت ہوشیاری کے ساتھ ہرسطح پراُچھالا جارہا ہے، جس کا مقصد ہندوستانی فوجیوں کی شجاعت کا سیاسی فائدہ لوٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں،جب کہ ملک اورعوام کے سامنے اور بھی سلگتے مسائل ہیں مگر بدقسمتی سے وہ الیکشن کے مرکزی موضوع نہیں بن پارہے ہیں۔ 
اس وقت سب سے بڑامسئلہ نوجوانوں کی بے روزگاری کاہے، نوکریاںنہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں نوجوان بے کارفوج کی شکل میںسامنے کھڑے ہیں ، کسانوں کے گھمبیر مسائل ہیں جن  سے ملک کے ہر طبقے میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ اپوزیشن اس وقت بی جے پی کے سوالوں کا جواب نہ دے کر خود اُن سے سوال پوچھ رہی ہے اور عوامی مسائل کو تن من دھن سے اٹھارہی ہے۔ یہی اپوزیشن کی بڑی کامیابی ہے۔ یوپی اوربہار میں ہونے والے گٹھ بندھن پر گودی میڈیا جومنفی تشہیری مہم چلارہاہے، اس کا کوئی خاص اثر ابھی تک ہوتا دکھائی نہیںرہاہے ۔ دوسری جانب آرایس ایس اور مودی بھکت ہندوتوا کے ترکش سے نئے تیرنکالنے اور نئے زاؤیوں سے اپوزیشن پرانہیںداغنے میںمصروف ہیں جیسے کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کے تذکروںکے حوالہ سے ہندودہشت گردی پر لب کشائی قابل ذکر ہے۔کل تک ہندو مسلم کاشور برپاکرنے والاگودی میڈیا بھی پہلوبدل چکاہے۔اب وہ دن رات یہ ڈائیلاگ سنارہا ہے :’ ’چوکیدار ہے تو دیش ہے ، چوکیدار نے ان کو ان کے گھر میں گھس کرمارا،’اب ہم فضاپربھی اپنادبدبہ رکھتے ہیں‘وغیرہ وغیرہ ۔اب جب کہ الیکشن شروع ہونے میں چند دن ہی رہ گئے ہیں، مقابلہ سخت ترین ہونے کاامکان ہے۔ایسے میں اگر کانگریس پارٹی اپنے رویہ میں مزیدلچک لے آتی ہے اور یوپی، دہلی اور بنگال میں طاقت ورسمجھی جانے والی سیاسی جماعتوںکے ساتھ سمجھوتہ کرلیتی ہے تومعاملہ پورا کا پورا پلٹ سکتا ہے۔ کیا کانگریس کویہ بات یادنہیں کہ مسزسونیاگاندھی نے گاندھی نگر میں بہ بانگ ِدہل کہاتھا کہ فرقہ پرستوں سے لڑنے کیلئے کانگریس کو جو بھی قربانی دیناپڑے، دے گی، مگربہار کی برف مشکل سے پگھلنے کے بعد مذکورہ ریاستوں میں کانگریس کااڑیل رویہ کسی اورہی جانب اشارہ کرتاہے۔ جوتبدیلی پچھلے کچھ دنوں میں آئی ہے، اس کی وجہ کانگریس کی’’ نیائے یوجنا‘‘ہے،لیکن کانگریسی پلوامہ کے حوالہ سے لگائے جارہے بھاجپائیوں کے نعروںکے سہارے ’’دیش بھکتی‘‘ کے نئے راگ کا مقابلہ کہاں تک کرپاتی ہے ،وہ اگلے ہفتے میں پتہ چل پائے گا۔
گوکہ شاہ کا مشن2019’ اب کی بار 400سیٹیںجیتیںگے‘ کامیاب ہوتا نظرنہیںآرہاہے مگر خلائی تجربہ بی جے پی کے پرانے نعرے کومزیدتقویت پہنچاسکتاہے۔ اس الیکشن میں مسلمانوں اور دلتوں کا رول بھی بہت زیادہ اہم ہوگا۔ اگر ان دونوں کے ووٹ یوں ہی اکٹھے رہے اور اس میں سیندھ نہ لگی تو بی جے پی کوسرکاربنانا آسان نہ ہوگا۔کانگریس کے لیے دو خبریں راحت پہنچانے والی ثابت ہورہی ہیں۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ مولانابدرالدین اجمل کی پارٹی نے آسام میں صرف تین سیٹوں پرالیکشن لڑنے کافیصلہ کیاہے۔ اگریہ خبر دُرست ہے تواس سے کانگریس کووہاں پراچھی کامیابی ملنے کے آثارپیدا ہوں گے۔حالانکہ اجمل کی پارٹی کی طرف سے یہ بھی کہاجارہاہے کہ ان کا کانگریس سے کوئی لینادینا ہے نہ کسی پارٹی کے ساتھ کوئی گٹھ بندھن ہے۔ البتہ وہ اپنی پرانی سیٹوںپرہی الیکشن لڑے گی۔ دوسری طرف اسدالدین اویسی نے اپنی پارٹی کاکوئی بھی امیدوار یوپی میں کھڑا نہ کرنے کافیصلہ کیاہے۔اس کا فائدہ بھی کانگریس کو یوپی میں مل سکتا ہے۔ اسدالدین اویسی،پرکاش امبیڈکر کی پارٹی سے مل کر مہاراشٹر میں انتخاب لڑرہے ہیں، اس سے بھی سیکولر قیادت کو فائدہ حاصل ہونے کی اُمید ہے۔ماناجارہاہے کہ اس فیصلے سے دلتوں اورمسلمانوں کے بیچ کی دوریاں کم ہوں گی ۔مسلمانوں کے دانش ورطبقے میں اس سے تھوڑا اطمینان پیداہوا ہے ، جو ایسے مسلم لیڈر کوکھوج رہی ہے جو سیاسی معاملات میں قائدانہ صلاحیت رکھتا ہو۔اگر اس طرح کا لیڈر ہم میں پیدا ہوجائے توہمارے بہت سے مسائل از خود حل ہوسکتے ہیں اور اس طرح پرکاش امبیڈکر اورایم آئی ایم کاایک ساتھ کھڑاہونا، آنے والے وقت میں دونوں قوموں کو یکجاکرنے کی طرف ایک بہتر قدم بھی ثابت ہوسکتاہے۔ ہمیشہ کی طرح آج یہ سوال پھراہمیت اختیارکرگیاہے کہ کب تک ہمیں ملک کی بڑی اور چھوٹی پارٹیاں ٹشوپیپر کی طرح استعمال کرتی رہیں گی اور ہمارے مختلف پارٹیوں میں بٹے سیاست داں ہمارا ووٹ لے کر اپنی اپنی پارٹی سے اپنا اپنا قداونچا اورپیٹ کوبڑاکرتے رہیں گے۔ آج ہم دوراہے پرکھڑے ہیں اور کچھ ریاستوں میں اگرہم اکٹھاہوکر سوشلزم سے منسلک پارٹیوں یاسیکولر اُمیدوار کوووٹ دیں، جو ہمارے علاقے سے لڑ رہاہے، تب اس الیکشن کے ذریعہ بہت کچھ بدلاجاسکتاہے۔ اُمیدیہی ہے کہ مسلمان اس بار پہلے کی طرح نہیںبٹیں گے کہ مسئلہ اب ان کے وجود وبقاء کا ہے۔ ہمارے قائدین جلد پورے ملک میں اکٹھے ہوں اور متحدہ محاذبناکر ملک کے ہرپارلیمانی حلقے میں سیکولرامیدوار کے حق میں عملی کام کریں ،ورنہ قوم انہیں معاف نہیں کرے گی۔ آج یہ وقت ایسا ہے کہ جنہیں قوم، وطن اور اسلام سے محبت ہے، وہ جلد تحریک کی شکل میں اٹھیں، ورنہ وقت بڑاظالم ہے۔ جب اپنے پراُترآتاہے تواگلا پچھلا سب حساب لے لیتا ہے   ؎
ندی کنارے بیٹھ کے کب تک سوچو گے
زور کہاں کم ہوگا بہتے پانی کا
Cell : 9971730422, E-Mail : [email protected]